اپنا گھر بہت بڑی نعمت ہے۔ کرائے کے گھر کتنے ہی بڑے‘خوبصورت اور پوش سوسائٹی میں کیوںنہ ہوں‘ وہ راحت نہیں دیتے جو دو کمروں کے چھوٹے سے لیکن اپنے گھر میں میسر آتی ہے۔ اپنا گھر ایک خواب کی طرح ہوتا ہے۔ بعض لوگ بہت خوش نصیب ہوتے ہیں اور بعض یہ خواب دیکھتے ہوئے اگلے جہان کوچ کر جاتے ہیں ۔ غلام عباس کا ''کتبہ‘‘ اس کی بہترین مثال ہے۔ کیا شاندار کہانی تھی کہ آج تین عشروں بعد بھی ذہن پر نقش ہے۔ اپنے گھر کے باہر لگانے کے لئے اپنے نام کا کتبہ تو بنوا لیا گیا لیکن مکان بنانے کا خواب پورا نہ ہو سکا اور وہی کتبہ بالآخر قبر پر جا لگا۔ یہ کہانی کہیں سے بھی مصنوعی معلوم نہیں ہوتی بلکہ کروڑوں لوگوں کی کہانی ہے۔ آج بھی ہر کوئی اپنے مکان کی خواہش کے بارے میں سوچتا ہے لیکن زیادہ تر لوگ چند مرلے زمین خریدنے کی بھی سکت نہیں رکھتے۔ ویسے بھی آج کل زمین کی قیمتیں جس طرح آسمان سے باتیں کر رہی ہیں‘ صرف خواب ہی دیکھے جا سکتے ہیں۔چھوٹے سے چھوٹا پلاٹ تین مرلے سے شروع ہوتا ہے اور شہر کے اندر اس کی قیمت بھی پچیس‘ تیس لاکھ سے کم نہیں ہے۔ پھر اس کے اوپر عمارت بنانے کے لئے بھی کم از کم اتنی ہی رقم درکار ہوتی ہے۔ نوکری پیشہ طبقہ ساری زندگی بھی تنخواہ سے پیسے بچانے کی کوشش کرتا رہے تو اپنی زندگی کے آخری ایام میں بھی دو مرلے جگہ خریدنے میں کامیاب نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ دو تین ماہ بچت کر لیتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ بچے اگلی جماعت میں چلے گئے ہیں اور ان کی کتابیں‘ یونیفارم اور نئی سٹیشنری فوری درکار ہے۔ یوں جمع پونجی اِدھر لگ جاتی ہے۔پھر دو چار ماہ کچھ پیسے بچاتا ہے تو کسی فرد کو کوئی بیماری گھیر لیتی ہے اور یوں زندگی کے ماہ و سال اسی کشمکش میں گزر جاتے ہیں۔ بالفرض اگر کوئی شخص کسی طرح پلاٹ خریدنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تب بھی اس کی خوشی مکمل نہیں ہوتی کیونکہ اکثر اوقات پلاٹ کی خرید میں گھپلے نکل آتے ہیں۔ ایک ایک پلاٹ کئی لوگوں کے نام پر بیچا جا چکا ہوتا ہے اور یوں باقی زندگی کورٹ کچہریوں کے چکر لگاتے گزر جاتی ہے۔کچھ ہائوسنگ سوسائٹیاں ایسی ہیں جنہوں نے ہزاروں پلاٹ بیچ دیے لیکن نہ ان کے پاس زمین تھی نہ ملکیت۔ ایسے ہزاروں‘ لاکھوں متاثرین آج بھی نیب دفاتر اور عدالتوں میں جوتیاں گھسیٹتے پھرتے ہیں۔ کون جانے لوگ کیسے اپنے پلاٹ کی قسطیں ادا کرتے ہیں۔ زیور‘ کمیٹیاں‘ چھوٹے موٹے اثاثے‘ قرضوں اور جمع پونجیوں سے پلاٹ خریدتے ہیں لیکن پھر انہیں پتا چلتا ہے کہ ان کے ساتھ ہاتھ ہو گیا ہے۔ اگر کوئی ان مگرمچھوں سے بچ جائے اور پلاٹ مل جائے تو اسے سنبھالنا مشکل ہو جاتا ہے کیونکہ خالی پلاٹ قبضہ گروپوں کی نظر میں رہتے ہیں۔ پھر خالی پلاٹوں پر سوسائٹیوں کی جانب سے بلڈنگ پیریڈ چارجز بھی پڑتے رہتے ہیں۔ مکان بنانے کا ارادہ کر لیا جائے تو اس کے بعد ایک اور دریا کا سامنا ہوتا ہے جو پہلے سے بھی مشکل نظر آتا ہے۔ عام شخص جب بھی مکان بنانے کا ارادہ کرتا ہے‘ لوگوں سے دریافت کرتا ہے اور مارکیٹ کا چکر لگاتا ہے تو تعمیراتی سامان کی ہوش ربا قیمتیں اس کے ہوش اڑادیتی ہیں۔ہر آنے والے سال میں اینٹوں سے لے کر سریے تک اور دیگر اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہی ہو رہا ہے۔
کسی سیانے نے کہا تھا کہ اپنا گھر جب بھی بنا لو سستا ہی پڑتا ہے کیونکہ وقت کے ساتھ تعمیراتی میٹریل مہنگا اور مکان کی قیمت بھی بہر حال بڑھتی رہتی ہے۔ تعمیر شدہ مکان خریدنا ہو یا اپنا گھر خود بنوانا ہو‘ دونوں صورتوں میں عقل کے سات پردے کھلے رکھنا پڑتے ہیں وگرنہ زندگی بھر کی کمائی اور جمع پونجی کو اچھی خاصی ٹھیس لگ سکتی ہے۔ بنے بنائے گھر میں کیا میٹریل استعمال ہوا ہے آپ نہیں جان سکتے۔ اپنا گھر خود بنوانا عمومی طور پر بہتر سمجھا جاتا ہے؛ تاہم اس کے لئے آپ کو گھر کی بنیادوں کی کھدائی سے لے کر دروازوں کے تالوں تک خاطر خواہ معلومات ہونا چاہئیں۔
کنسٹرکشن کی صنعت بہت وسیع ہے۔ اس حوالے سے درجنوں شعبے آپس میں منسلک ہوتے ہیں۔ ایک گھر بنتا ہے تو درجنوں شعبوں کا پہیہ چل پڑتا ہے۔موجودہ حکومت نے پچاس لاکھ گھروں کا وعدہ کر رکھا ہے۔پہلے لاک ڈائون کے فوراً بعد کنسٹرکشن انڈسٹری کو ریلیف دینے کے لئے بہت سے اقدامات کئے گئے۔ جن میں ٹیکسوں میں چھوٹ‘ قرضوں کی آسان قسطوں پر فراہمی وغیرہ شامل تھے۔ اس پیکیج میں پہلی بار گھر تعمیر کرنے پر کسی قسم کی پوچھ گچھ سے بھی مبرا قرار دیا گیا ہے۔ ان اقدامات کی وجہ سے گزشتہ چھ ماہ میں بہت تیزی سے گھر تعمیر ہو رہے ہیں۔لوگ اس پیکیج کا فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں کیونکہ ایسے مواقع بار بارنہیںملتے۔
اپنے گھر کی تعمیر میں کچھ غلطیاں ایسی ہیں جو اکثر لوگ کرتے ہیں اور اس کی وجوہات اس کام سے ناواقفیت‘ دیکھا دیکھی اور ناتجربہ کار لوگوں سے کام کرانا وغیرہ ہیں۔ گھر زندگی میں ایک مرتبہ بنایا جاتا ہے اس لئے اس کی بنیادیں یا گرے سٹرکچر کی مضبوطی پر کوئی کمپرومائز نہیں کیا جا سکتا۔ اپنے گھر کی تعمیر کے حوالے سے سوشل میڈیا پر ایک صاحب نے یہ سلسلہ شروع کیا کہ گھر کی تعمیر سے متعلق تمام معلومات کو بڑے آسان‘ موثر اور منظم انداز میں بتایا۔ یہ عام مشاہدے کی باتیں تھیں لیکن کسی ایک جگہ پر انہیں یکجا نہیں کیا گیا تھا۔ پلاٹ کہاں لیا جائے‘ خریدتے وقت کن باتوں کو مدنظر رکھا جائے‘ رجسٹری‘ ٹرانسفر کیسے ہو ‘ گھر کا نقشہ کیسا بنوایا جائے اور بنیادوں سے لے کر گھر کے پینٹ تک کے مراحل کو کیسے بہتر انداز میں مکمل کیا جائے‘ عمومی طور پر اس حوالے سے عوام کو رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ کہتے ہیں مشورہ بہترین نیکی اور صدقہ ہوتا ہے۔ کسی کو سیدھا راستہ دکھانا آپ ہی کے فائدے کی بات ہے۔اس طرح کے مشورے آج کل کسی نعمت سے کم نہیں کیونکہ آج کل کے گھر زیادہ پائیدار نہیں دکھائی دیتے جبکہ پرانے زمانے میں گھر کافی پختہ بنائے جاتے تھے۔ ہوا اور روشنی کا خاص انتظام کیا جاتاتھا۔ گھروں کی چھتیں اونچی اور کمرے بڑے رکھے جاتے تھے۔ باتھ روم بیڈ روم سے دور ہوتے تھے اسی لئے صفائی بھی رہتی تھی۔ آج کل باتھ روم کمروں کے اندر گھسے ہوئے ہیں۔ ظاہری خوبصورتی پر زیادہ زور دیا جاتا ہے۔ روشنیوں کی چکاچوند اور رنگ برنگی ٹائلیں لگا کر یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ ہم نے بہترین گھر تعمیر کر لیا ‘ یہ باتیں تب جا کر سمجھ آتی ہیں جب پائپوں سے پانی رس کر دیواروں کا پینٹ خراب کر دیتا ہے۔ روشنی اور ہوا کی بندش جب سانس اور دیگر بیماریوں کا سبب بنتی ہے تب یاد آتا ہے کہ کاش گھر کو سمجھداری سے بنانے کی بھی کوئی کوشش کر لی جاتی۔ پیسہ بھی لگا اور وقت بھی اور دو چار برسوں میں ہی گھٹنے ٹیکنے لگا۔ وزیراعظم عمران خان نے تعمیراتی صنعت کے لئے جو اقدامات کئے ہیں ان سے فائدہ اٹھانے کے لئے ضروری ہے کہ درست سمت اور انداز میں فیصلے کئے جائیں۔ کم وقت میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو چھت اور روزگار مل جائے اس سے بہتر کوئی بات نہیں ہو سکتی وہ بھی کورونا کے دنوں میں کہ جب ہر طرف نفسا نفسی کا عالم ہے ؛ تاہم سب سے اہم بات یہ ہے کہ اپنا گھر بناتے وقت ضروری تدابیر اور احتیاطوں کو ملحوظ خاطر رکھ لیا جائے تو بعد کی پشیمانی ‘نقصان اور ذہنی کوفت سے پیشگی بچا جا سکتا ہے۔