میری رائے میں مینارِ پاکستان کا جلسہ گیارہ سیاسی جماعتوں کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوا ہے۔ گیارہ جماعتیں اگر دس دس ہزار بندے بھی لاتیں تو ایک لاکھ سے زیادہ لوگ آ جاتے اور گرائونڈ بھرا ہوا لگتا لیکن دس ہزار تو کیا‘ ایسا لگتا ہے کہ اپوزیشن فی جماعت ایک ہزار بندے بھی اکٹھے نہ کر سکی۔ شاید کل پانچ سات ہزار افراد آئے‘ زیادہ سے زیادہ پندرہ‘ بیس ہزار، ان میں بھی زیادہ کرسیاں اٹھانے اور بریانی کھانے والے تھے‘ جو آئے اور اپنا کام کر کے چلتے بنے۔ مرکزی تقریر مریم نواز‘ بلاول بھٹو اور مولانا فضل الرحمن کے بعد نواز شریف کی تھی اور اس دوران چند ہزار لوگ موجود تھے۔ جو گول دائرے کی شکل میں کرسیاں لگا کر بیٹھے تھے وہ آگ تاپ رہے تھے ‘ گرما گرم انڈوں اور گپوں سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ کسی کے دشمنوں کو بھی فکر یا خبر نہیں تھی کہ کون سا لیڈر خطاب کر رہا ہے اور کیا کہہ رہا ہے۔ یہ سب اپوزیشن کیلئے کسی ڈرائونے خواب سے کم نہ تھا۔
جتنی جگ ہنسائی موجودہ اپوزیشن کے مقدر میں آ رہی ہے شاید ہی کبھی کسی دور میں کسی اپوزیشن کو اس قدر پشیمانی اور سبکی کا سامنا کرنا پڑا ہو۔ ایک طرف کورونا کے وار چل رہے ہیں تو دوسری جانب اپوزیشن کورونا کی آگ کو اپنے جلسوں کے ذریعے ہوا دے کر پھیلانے میں جتی ہوئی ہے۔ اسے اتنی بھی سمجھ نہیں کہ بیماری کسی کا گھر ‘ ذات یا پارٹی دیکھ کر حملہ نہیں کرتی بلکہ اب تو انتہائی احتیاط کرنے والے افراد بھی اس کا شکار ہو رہے ہیں تو پھر جلسوں اور جلوسوں کے ذریعے تو اس کی شرح میں کئی گنا اضافہ ہو جائے گا۔ یہ بات اپوزیشن کو اس لئے سمجھ نہیں آ رہی کہ اس نے دیکھ لیا پاکستان پہلے لاک ڈائون کے دوران دیگر ملکوں کے باعث کافی محفوظ رہا حتیٰ کہ ہمسایہ ملک بھارت میں اموات کی شرح ہم سے کئی گنا زیادہ ہے اور آج بھی وہاں روزانہ بیس‘ پچیس ہزار نئے کیس سامنے آ رہے ہیں۔ ان لوگوں کو شاید یہ دُکھ ہے کہ پاکستان میں نقصان کم کیوں ہوا کیونکہ اگر زیادہ نقصان ہوتا تو مخالفین اسے سیاسی سٹنٹ کے طور پر استعمال کرتے اور حکومت کو گرانے کے لئے کورونا کا سہارا لیتے۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ حکومت کورونا کے پھیلائو کی وجہ سے جلسوں سے روک رہی ہے جبکہ اپوزیشن جماعتیں اس پر کان دھرنے کو تیار نہیں۔ عوام کی جانیں دائو پر لگانے کی کوشش کی جا رہی ہے مگر وہ تو شکر ہے کہ عوام نے ان کا بائیکاٹ کر دیا ہے۔ عوام کو علم ہے کہ انہیں کورونا ہو گیا تو نہ مولانا صاحب نے ان کا پتا لینے آنا ہے اور نہ ہی کسی اور لیڈر نے ان کے گھر راشن بھجوانا ہے۔ یہ سب اقتدار کے لالچ میں عوام کی جانوں کو خطرے میں ڈالنے سے بھی باز نہیں آ رہے۔
2014ء میں تحریک انصاف نے دھرنا دیا تھا تو اس کے پیچھے وہ چار حلقے تھے جنہیں کھلوانے کے لئے ہر طرح کے جتن کئے گئے۔احتجاج ہر کسی کا حق ہے لیکن موجودہ اپوزیشن کے پاس نہ کوئی دلیل ہے نہ وجہ۔ان کی تقریروں میں بھی کوئی نئی بات نہیں رہی۔ حکومت اور اداروں کو برا بھلا کہنے کے سوا کسی لیڈر کے پاس کوئی بات نہیں۔ویسے حکومت نے انہیں جلسہ کرنے کی اجازت دے کر اچھا فیصلہ کیا۔ اس سے ان کی حقیقت آشکار ہو گئی۔ اپوزیشن تو چاہتی تھی کہ گوجرانوالہ کی طرح مینارِ پاکستان جلسے کے موقع پر بھی وہی مناظر دیکھنے کو ملتے اور پکڑ دھکڑ کی جاتی تاکہ ان جماعتوں کے ہاتھ یہ ایشو آ جاتا کہ حکومت بوکھلا گئی ہے‘ یہ عوامی طاقت سے ڈر گئی ہے‘ وغیرہ۔ اب یہ لانگ مارچ اور استعفوں کی دھمکیاں دے رہے ہیں تو اس میں سے بھی مینارِ پاکستان والے جلسے کی طرح کچھ نہیں نکلنا۔ لانگ مارچ کرنا آسان کام نہیں اور وہ بھی جنوری اور فروری کی شدید سردی میں کہ جب لحاف کے اندر بھی سردی پیچھا نہیں چھوڑتی۔ پھر اسلام آباد میں جا کر دھرنا دینا تو بالکل بھی آسان کام نہیں۔ دو چار کنٹینرز تو ضرور آباد ہو جائیں گے لیکن جب یہ باہر نکلیں گے تو عوام نہیں ہوں گے کیونکہ اگلے دو ماہ تک کورونا کی صورت حال مزید سنگین ہو سکتی ہے اور اپوزیشن کے حالیہ جلسوں کے نتائج کیسز میں اضافے کی صورت میں سامنے آنا شروع ہو جائیں گے۔
پہلے لاک ڈائون میں تو ملک میں تقریباً تمام کاروبارِ زندگی روک دیا گیا تھا۔ اب سرکاری اداروں میں پچاس فیصد حاضری چل رہی ہے لیکن اُس وقت تو سو فیصد گھروں سے کام ہو رہا تھا۔ سکول‘ کالج سب کچھ بند تھا۔ ریسٹورنٹس‘ بجلی‘ لکڑی کی دکانیں اور دیگر شعبہ جات کو بھی بند کر دیا گیا تھا لیکن اس سے معیشت کوبھی بہت زیادہ نقصان ہوا تھا اور لوگوں کے چولہے ٹھنڈے پڑنے لگے تھے؛ تاہم اسی احتیا ط کے باعث پاکستان میں کورونا کی پہلی لہر پر قابو پایا گیا۔ فوری طور پر معیشت کو بحال کرنے کے لئے تعمیراتی صنعت کیلئے پیکیج کا اعلان کیا گیا جس کی وجہ سے سیمنٹ‘سریے‘ اینٹوں سمیت درجنوں شعبوں میں ریکارڈ پیداوار دیکھنے کو ملی۔ ملک کی آٹو انڈسٹری میں زبردست تیزی آئی اور ڈالر کی وجہ سے گاڑیوں کی قیمتیں بڑھنے کے باوجود گزشتہ برس کی نسبت ستمبر میں اضافی گاڑیاں فروخت ہوئیں۔اس سے قبل میں صرف تین کمپنیوں کی کار انڈسٹری میں اجارہ داری تھی لیکن اب کئی نئے پلیئرز میدان میں اتر چکے ہیں اور آئے روز نئی کمپنیوں کی گاڑیاں دیکھنے کو مل رہی ہیں جن کے پلانٹس گزشتہ دو برسوں کے دوران ملک میں لگائے گئے۔ یہ پلانٹ اپنی پیداوار شروع کر چکے ہیں جس کی وجہ سے سارا فائدہ کسٹمرز کو ہوا ہے۔ پہلے ان کے پاس چوائس نہیں تھی یا محدود تھی لیکن اب ایسا نہیں۔ جاپانی گاڑیاں اگرچہ بہتر تھیں لیکن ان میں صاف گاڑی ڈھونڈنا مشکل ہو جاتا تھا۔ جعلی آکشن شیٹ اور ریورس میٹر والی گاڑیوں کی بھرمار تھی۔ اب تو حکومت کی الیکٹرک پالیسی کی وجہ سے مکمل الیکٹرک گاڑیاں بھی مارکیٹ میں آنے لگ گئی ہیں۔ الیکٹرک گاڑیوں میں نہ تو پٹرول ڈلتا ہے اور نہ ہی ان کی کوئی مینٹیننس ہوتی ہے۔ صرف ٹائر اور بریک شو بدلنا پڑتے ہیں وہ بھی دو تین سال بعد یا استعمال کے مطابق۔ ان گاڑیوں کو گھروں میں بھی چارج کیا جا سکتا ہے جبکہ فاسٹ چارجنگ کے لئے کمرشل چارجنگ سٹیشنز جانا پڑتا ہے جہاں گاڑی ایک گھنٹے میں چارج ہو جاتی ہے اور ایک چارج میں اڑھائی سو سے چار سو کلومیٹر فاصلہ طے کر لیتی ہے۔ فی الوقت لاہور میں ایک اور اسلام آباد میں دو کمرشل چارجنگ سٹیشنز لگ چکے ہیں۔ موٹر وے پر بھی عنقریب یہ سہولت میسر ہو جائے گی جس کے بعد الیکٹرک گاڑیاں دوسرے شہروں میں بھی آ جا سکیں گی۔ الیکٹرک گاڑیوں سے جہاں ماحول صاف ستھرا رہے گا وہاں صارف کی جیب پر بھی کم بوجھ پڑے گا کیونکہ اگر ایک روایتی پٹرول گاڑی کا فی کلومیٹر خرچ دس سے بارہ روپے ہے تو الیکٹرک گاڑی میں یہ خرچ صرف دو روپے سے چار روپے فی کلومیٹر تک ہے۔
گزشتہ دو برسوں میں بہت سے ایسے کام ہوئے ہیں جو گزشتہ پچاس ساٹھ برسوں میں نہیں ہوئے تھے۔ آہستہ آہستہ مختلف منصوبوں کے نتائج سامنے آ رہے ہیں۔ ظاہر ہے کسی چیز کی پلاننگ سے لے کر اس کی عملی تصویر سامنے آنے تک‘ وقت درکار ہوتا ہے۔ دو ہزار بیس تو سارے کا سارا کورونا کی نذر ہو گیا‘ اس کی وجہ سے معیشت کو بہت دھچکا پہنچا اور اگر کنسٹرکشن انڈسٹری والا پیکیج سامنے نہ آتا تو نقصان بڑھ سکتا تھا۔ جس طرح کے وار کورونا کے بھارت میں جاری ہیں اور جس طرح وہاں معیشت بدحال ہو چکی ہے‘ یوں لگتا ہے بھارت جیسا ملک دیوالیہ ہونے کوہے۔ کسان بھارتی حکومت کی شہ رگ پکڑ کر بیٹھے ہیں۔ دورانِ احتجاج کئی کسان مارے جا چکے ہیں۔ اوپر سے کورونا قابو آ رہا ہے نہ عوام۔ دوسری جانب دیکھا جائے تو پاکستان خطے میں اب بھی کافی بہتر ہے۔ اپوزیشن کی مینارِ پاکستان والے جلسے میں جو درگت بنی ہے‘ اس کے بعد اسے احتجاج کے نام سے توبہ کر لینی چاہیے وگرنہ اپوزیشن جماعتوں اور ان کے لیڈروں کی رہی سہی عزت بھی خاک میں مل جائے گی۔