بنی اسرائیل میں ایک شخص ''کِفل‘‘ نامی ہوا کرتا تھا۔ کفل بنیادی طور پر ایک آوارہ اور عیاش انسان تھا۔ وہ شراب اور عورت کا رسیا تھا اور بے پناہ دولت اور کئی کئی راتیں عیاشی کی نذر کر دیتا تھا۔ ایک رات گناہ کی نیت سے آیا تو عورت بول اُٹھی ''کفل! میں کوئی پیشہ ور یا بازاری عورت نہیں۔ قسم اٹھا کر کہتی ہوں‘ آج پہلی مرتبہ مجبور ہوئی ہوں اور اس کی وجہ صرف اور صرف غربت ہے‘‘۔ یہ کہہ کر وہ رونے لگی‘ پھر ہچکیاں لیتے ہوئے بولی ''میرے تین چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔ آج صبح سے گھر میں کھانے کو کچھ نہیں تھا۔ لوگوں سے بہت مانگا لیکن کہیں سے کچھ نہیں ملا۔ بچے صبح سے دودھ اور روٹی کیلئے بلک رہے تھے۔ میں گھر سے نکلی اور دوپہر کو خالی ہاتھ لوٹ آئی۔ مجھے دیکھ کر بچے سمجھے ماں کچھ لائی ہے لیکن میرے آنسو اور خالی ہاتھ دیکھ کر وہ پھر سے رونے لگے اور بھوک سے نڈھال ہو گئے۔ میں نے انہیں اٹھایا‘ سینے سے لگایا‘ چوما‘ پیار کیا لیکن وہ مسکرانے کے بجائے نیم بند آنکھوں کے ساتھ مجھے دیکھتے رہے اور میں ان کے نرم و نازک رخسار پر موجود آنسوئوں کے قطروں کی لکیریں صاف کرتی رہی۔ قریب ہی پانی کا ایک پیالہ پڑا تھا۔ میں نے پانی کے چند قطرے ان کے حلق میں ٹپکائے‘ انہیں پیار کیا‘ چارپائی پر لٹایا اور یہاں چلی آئی۔ کِفل! میں ایک مجبور لیکن شریف عورت ہوں۔ میں نے آج سے پہلے یہ کام کرنے کا سوچا بھی نہیں تھا لیکن کفل‘ مجھ سے اپنے بچوں کے آنسو نہیں دیکھے جاتے‘ اُن کی دھاڑیں نہیں سنی جاتیں اور تم! تم تو دولتمند ہو‘ تمہارے پاس مال بھی ہے اور اختیار بھی۔ اگر تم مجھے بخش دو گے‘ تو تمہارا کیا جائے گا‘‘۔ عورت نے بات ختم کی‘ ڈرتے ڈرتے نظریں اٹھائیں‘ کفل کی طرف دیکھا تو اُس کی آنکھوں کو آنسوئوں سے تر پایا۔ کفل نے جیب میں ہاتھ ڈالا‘ پیسے نکال کر خاتون کے سامنے رکھے اور بولا ''یہ پیسے لے اور یہاں سے چلی جا۔ پیسے بھی تیرے ہوئے اور عزت بھی‘‘ یہ کہہ کر کفل بچوں کی طرح رونے لگا‘ سیدھا گھر آیا‘ بارگاہ الٰہی میں آ کر بولا ''نہ جانے آج تک کتنی ہی عورتیں ایسی ہوں گی جو بھوک سے تنگ آ کر گناہ پر آمادہ ہوئی ہوں گی اور کفل اُن کے ساتھ برا سلوک کرتا رہا ہو گا‘ لیکن کفل کا وعدہ ہے‘ وہ آج کے بعد ایسا کام نہیں کرے گا‘‘ اگلے روز دوپہر ہو گئی لیکن کفل گھر سے باہر نہ آیا۔ لوگ کہنے لگے: شراپ پی کر پڑا ہوگا‘ ابھی اٹھ جائے گا۔ لیکن کفل بہت دیر تک باہر نہ آیا۔ یہ اندر گئے‘ دیکھا تو کفل کا وجود مردہ حالت میں پڑا تھا۔ کفل مر چکا تھا لیکن جاتے جاتے توبہ کر چکا تھا۔ جب لوگ باہر آئے تو ان کی نظر گھر کے صدر دروازے پر پڑی۔ پروردگار نے دروازے پر لکھ دیا تھا ''میں نے کفل کے سارے گناہوں کو معاف کر دیا ہے‘‘۔
اس واقعے کو پڑھنے کے بعد ہر اس انسان کو سجدے میں گر جانا چاہیے جس کے پاس دنیا کی ہر نعمت ہے لیکن وہ پھر بھی ناشکری کا اظہار کرتا رہتا ہے اور غریبوں کی مجبوریوں کا ناجائز فائدہ اٹھاتا ہے۔ ایسے لوگ بھی ہیں جو ارب پتی ہیں لیکن ان کے دل اتنے چھوٹے ہیں کہ کسی غریب کی مدد اس لئے نہیں کرتے کہ ان کی دولت میں کمی نہ واقع ہو جائے۔ مصیبت کسی کو بھی پیش آ سکتی ہے لیکن قدرت بعض اوقات یہ امتحان آپ سے لے رہی ہوتی ہے کہ آپ کسی غریب‘ کسی دکھی کی مدد کرتے ہیں یا نہیں۔ کسی ضرورت مندکی مدد کرنا بڑے ثواب کا کام ہے۔ دکھاوے کی سرگرمیوں کے بجائے اگر وہی رقم غریب طالب علموں کو مل جائے تو وہ اپنی اعلیٰ تعلیم مکمل کر سکتے ہیں۔ یہی چند لاکھ اگر کسی یتیم خانے کو دیے جائیں تو سینکڑوں یتیم بچے ایک سال تک اچھی خوراک اوراچھالباس حاصل کرسکتے ہیں‘یہ رقم کسی بیوہ کو دی جائے تو وہ دربدرٹھوکریں کھانے کے بجائے یتیم بچوں کی کفالت کر سکتی ہے۔ اگر غریب کی بیٹی کو مل جائے تو وہ لوگوں کے طعنے سننے کے بجائے عزت کے ساتھ بیاہی جا سکتی ہے۔ یہ رقم کسی بیروزگار کو دی جائے تو وہ جرائم کی راہ اختیار کرنے کے بجائے چھوٹا موٹا روزگار شروع کر سکتا ہے اور یہی رقم اگر نادار مریضوں کے علاج پر خرچ کر دی جائے تو حسرتوں‘ محرومیوں اور تنگدستی کا شکار ہو کر مرنے کے بجائے زندگی کی چند بہاریں دیکھنے کا شرف ایسے لوگوں کے حصے میں بھی آ سکتا ہے۔
نعمتوں کی قدر انسان کو تب ہوتی ہے جب وہ ان سے محروم ہو جاتا ہے‘ جیسے اس بادشاہ کو معلوم ہوئی جسے مخالف فوج نے حملہ کر کے قید میں ڈال دیا۔ ایک روز قیدی بادشاہ نے سوچا‘ آخر اس سے ایسی کون سی غلطی ہوئی‘ جس کی وہ سزا کاٹ رہا ہے۔ اس دوران وہ ایک اور عجیب صورت حال سے بھی دوچار ہو گیا۔ جب دوپہر کے کھانے کا وقت ہوتا تو بادشاہ کو شاہی چاولوں کی خوشبو آنے لگتی۔ ایک دن بادشاہ بھوک سے بے حال تھا کہ اُسے وہی خوشبو آنے لگی۔ اس نے روشن دان سے آواز دی ''اگر کوئی اللہ کا بندا اُس طرف ہے تو کچھ کھانے کو دے‘ مجھے سخت بھوک لگی ہے‘‘ قید خانے کے باہر ایک آدمی موجود تھا۔ اُس نے کپڑے میں کھانا باندھا اور روشن دان سے اندر پھینک دیا۔ بادشاہ حیران رہ گیا کہ یہ تو وہی شاہی چاول ہیں جس کی خوشبو روزانہ اُسے تڑپاتی تھی۔ بادشاہ نے پوچھا ''اے مہربان ! تم کون ہو؟‘‘ آواز آئی ''میں اِک فقیر ہوں اور بھیک مانگنے کے لئے یہاں بیٹھتا ہوں‘‘ بادشاہ نے حیرانی سے پوچھا ''ایک فقیر کے پاس شاہی چاول... یہ کیسے ممکن ہے؟‘‘ فقیر نے بتایا ''وہ اس وقت جس دیوار کے ساتھ بیٹھا ہوا ہے اُس دیوار سے ایک نالی نکل رہی ہے جو محل کے شاہی باورچی خانے سے منسلک ہے۔ وہ روزانہ یہاں آتا ہے‘ اس نالی کے آگے ایک کپڑا باندھ دیتا ہے جس کی وجہ سے بہہ کر آنے والا کھانا اور چاول اس کپڑے میں جمع ہو جاتے ہیں اور پانی آگے نکل جاتا ہے۔ وہ یہ کھانا گھر لے جاتا ہے۔ چاول الگ کر کے اُن کو دھوتا ہے اور سکھا کر جمع کر لیتا ہے‘ خود بھی کھاتا ہے اور اردگرد کے غریبوں اور مسکینوں میں بھی بانٹ دیتا ہے‘‘ فقیر نے بتلایا کہ اب وہ مزید کھانا جمع نہیں کر پا رہا کیونکہ اب بادشاہ بدل چکا ہے اور شاید وہ بچا ہوا کھانا پھینکنے نہیں دے رہا۔ یہ سنتے ہی بادشاہ سمجھ گیا کہ اسے کس گناہ کی سزا ملی ہے۔ فقیر نے بادشاہ سے پوچھا کہ وہ کون ہے اور یہاں کیوں قید ہے؟ یہ سن کر بادشاہ کی آنکھیں بھیگ گئیں‘ آنسو صاف کرتے ہوئے بولا‘ ''میں وہی بد نصیب بادشاہ ہوں جو نعمتوں کو ضائع کرتا تھا اور آج اس جرم کی سزا کاٹ رہا ہوں‘‘۔
یہ تو ایک بادشاہ کی بات تھی‘ آج اگر اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں تو ہمیں ہر شخص اللہ کی نعمتوں کو پائوں تلے مسلتا نظر آتا ہے۔ ہم لوگ صبح سے شام تک کام کرتے ہیں‘ کوئی نوکری کرتا ہے‘ کوئی کاروبار کرتا ہے اور کسی کو بغیر کچھ کئے ہی بہت کچھ مل جاتا ہے لیکن ہم سب میں ایک بات مشترک ہے اور وہ ہے رزق کی بے حرمتی۔ آج کل بوفے کے نام پر جس طرح رزق ضائع ہو رہا ہے وہ ہم سب کے سامنے ہے۔ دو ہزار روپے میں آپ کے سامنے چالیس پچاس ڈشز ہوتی ہیں اور پلیٹیں بھر بھر کے کھانا صرف اس لئے لیا اور ضائع کیا جاتا ہے کہ دو ہزار روپے پورے کر لئے جائیں۔ پیٹ تو پہلی پلیٹ سے ہی بھر جاتا ہے لیکن انسان کا لالچ‘ اس کی ہوس تب تک نہیں بھرتی جب تک وہ دس پندرہ لوگوں کے برابر کھانا ضائع نہ کر دے۔ اس لئے خدا سے معافی مانگیں‘ پیٹ کی آگ بجھانے کے لئے انسان مردار کھانے پر بھی مجبور ہو جاتا ہے؛ چنانچہ اگر اللہ نے آپ کو توفیق دی ہے تو اپنے رزق میں سے مخلوق کا حصہ بھی نکالیں‘ وافر صدقات دیتے رہیں کیونکہ صدقہ انسان کی آنے والی مشکلات کو بھی ٹال دیتا ہے۔