ہمارے طلبا ڈگریوں کے پیچھے تو بھاگتے ہیں لیکن عملی میدان کے لئے جو دیگر اہم لوازمات ہوتے ہیں ان کی تیاری کرتے ہیں نہ انہیں کسی خاطر میں لاتے ہیں۔ ان کا خیال ہوتا ہے جیسے ہی ڈگری ملے گی وہ اسے لے کر کسی ملٹی نیشنل کمپنی میں جائیں گے تو اس کا چیئرمین خود بھاگا بھاگا باہر آکر ان کا استقبال کرے گا اور شکریہ ادا کرتے ہوئے کہے گا کہ ہم کتنے خوش نصیب ہیں جو آپ تشریف لائے‘ آپ سے قبل تو یہاں کوئی ڈگری ہولڈر آیا ہی نہیں‘ آپ فوری طور پر جوائن کر لیں بلکہ میری سیٹ پر بیٹھ جائیں‘ لاکھوں روپے تنخواہ بھی لیں‘ گاڑی بھی اور عالیشان دفتر بھی۔
بہت سے نوجوان انٹرویوز کی مناسب تیاری نہیں کرتے۔ تین چیزیں البتہ انٹرویو میں فرفر بولتے ہیں: یس سر‘ نو سر اور تھینک یو۔ کپڑے کون سے پہننے ہیں‘ کس طرح گفتگو کا آغاز کرنا ہے یہ سب انہیں معلوم نہیں ہوتا۔ بہت سے نوجوان تو سوئے ہوئے اٹھ کر چل پڑتے ہیں۔ بعض سوچتے ہیں کہ نوکری ملنی ہوگی تو ایسے بھی مل جائے گی وگرنہ مہنگے سوٹ پہننے سے بھی نہیں ملے گی۔ اس طرح کا طبقہ ہمارے ہاں بکثرت موجود ہے جو ہاتھ پائوں بھی نہیں ہلاتا اور سوچتا ہے کہ اگر قسمت میں پیسہ اور رزق لکھا ہے توبغیر کچھ کئے ہی مل جائے گا۔ ایسے لوگوں کا علاج زندگی آگے چل کر خود کر دیتی ہے۔ زیادہ تر نوجوان انٹرویو میں فیل ہوجاتے ہیں۔ ایسا ہی ایک نوجوان سی وی لے کر نوکری کیلئے گیا۔ انٹرویو کی باری آئی تو دیکھا تین خوش پوش افسر کمرے میں براجمان تھے۔ سلام کرکے بیٹھ گیا۔ ایک افسر کے ہاتھ میں اس امیدوار کا سی وی تھا۔ اس نے سی وی میں لکھے ایک انگریزی لفظ کا مطلب پوچھا تو نوجوان نے لاعلمی کا اظہار کیا۔ افسر نے پوچھا کیا یہ آپ کا سی وی ہے تو اس نے ہاں میں جواب دیا اور کہا کہ سی وی میرا ہے لیکن میں نے وہ جملہ کسی اور سی وی سے کاپی کیا تھا۔ مجھے اس کا مطلب معلوم نہیں۔ انٹرویو لینے والوں نے اسے بتایاکہ باہر جانے کا دروازہ وہی ہے جہاں سے آپ اندر تشریف لائے تھے۔ نوجوان سمجھ گیا اور وہاں سے نکلنے میں ہی عافیت جانی۔ یہ صرف ایک نوجوان کے ساتھ نہیں ہوتا بلکہ شاید نوے فیصد سے زائد نوجوانوں کو اپنے سی وی کے مندرجات کا علم نہیں ہوتا۔ انہیں یہ بھی نہیں علم ہوتا کہ یہ کس زبان کے الفاظ ہیں اور سی وی کا مخفف کیا ہے۔ جب انسان کوئی کام کرنے جا رہا ہوتو اس بارے میں زیادہ نہیں تو بنیادی معلومات تو ضرور ہونی چاہئیں۔ زیادہ تر لوگ سمجھتے ہیں کہ انٹرویوز میں نصابی سوالات پوچھے جاتے ہیں۔ ایسا کچھ نہیں ہوتا۔ زیادہ تر اب جنرل نالج پر زور ہے۔ کمپیوٹر اور ٹیکنالوجی سے نابلد بندے کی ویسے ہی کوئی اہمیت نہیں رہی۔ اس وقت دنیا میں تین مضامین میں دسترس رکھنے والے شخص کی بہت زیادہ طلب ہے۔ کمپیوٹر‘ ریاضی اور انگریزی۔ ان تینوں یا ان میں سے کسی ایک پر بھی آپ عبور رکھتے ہیں تو آپ کی زندگی آسان ہو جائے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ ملکی اور عالمی ایشوز سے آگاہی بہت ضروری ہے۔ ضروری نہیں کہ آپ وہی خبریں پڑھیں یا وہی علم دماغ میں بٹھائیں جس سے آپ کا واسطہ پڑتا ہے۔ کچھ لوگوں سے آپ پوچھیں گے کہ ڈالر کا آج کل کیا ریٹ چل رہا ہے تو وہ کہیں گے ہم نے کون سا ڈالر خریدنا ہے۔ یا آپ ان سے پوچھیں کہ امریکہ میں کتنی ریاستیں ہیں تو وہ کہے گا ہم نے کون سا امریکہ چلے جانا ہے‘ ہم تو کبھی لاہور سے باہر نہیں گئے۔ ایسے لوگ کبھی بھی کسی نوکری یا کاروبار میں کامیاب نہیں ہوسکتے۔ آپ علم اس لئے حاصل نہیں کرتے کہ آپ نے وہ سب کچھ کرنا ہوتا ہے بلکہ علم کی دولت آپ کی شخصیت کو نکھارنے اور آپ کی کردار سازی کا کام کرتی ہے۔ پھر جو شخص خود کوعلم کے معاملے میں کنجوس اور محدود رکھتا ہے‘ وہ دولت اور خوشحالی کے معاملے میں بھی محدود ہی رہتا ہے۔ چار بندے اگر کسی محفل میں بیٹھے ہوں اور کسی معاملے پرگفتگو کریں تو جاہل اور عالم کا فرق واضح ہوجاتا ہے۔ پھر علم کو دولت کمانے کیلئے حاصل نہیں کرنا چاہیے۔ یہ سلسلہ تو اب شروع ہوا ہے۔ ماضی میں تو علم کو عبادت کا درجہ حاصل تھا۔ لوگوں کو شاعری کی کتابوں کی کتابیں یاد تھیں کیونکہ انہیں اس کا شوق تھا۔ مسلمانوں کی تاریخ‘ ان کے عروج اور زوال بارے علم رکھنے والا شخص عالم کہلاتا۔ اس حوالے سے تحقیقی و علمی بحث مباحثے ہوتے جن سے اردگرد کے عام لوگ بھی معلومات حاصل کرتے۔ آہستہ آہستہ مادیت پرستی پروان چڑھی تو لوگوں نے علم کو مال کے حصول تک محدود کرلیا۔ اسی وجہ سے وہ ڈگریاں زیادہ پُرکشش بن گئیں جن کی مارکیٹ میں طلب زیادہ تھی۔ اس کا ایک نقصان یہ ہوا کہ طلبا نے اپنے رجحانات اور شوق کو بھلا دیا اور ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی ڈگریاں لینے لگے۔ دوسرا نقصان یہ ہواکہ کسی ایک یا دو تین شعبوں میں بہت زیادہ کھپت کی وجہ سے وہ ڈگریاں اپنی اہمیت کھو بیٹھیں۔ ہر کوئی ایم بی اے‘ ڈاکٹر اور انجینئر بننے کی کوشش کرنے لگا۔ جو شخص اچھا پروفیسر بن سکتا تھا وہ ٹائی سوٹ والا کلرک بننے کی جستجو میں لگ گیا۔ جو کامیاب قانون دان بن سکتا تھا وہ میڈیا کا اینکر بننے کی کوشش کرنے لگا۔ ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی سب اپنی اپنی چال ہی بھول گئے۔ آج بھی میٹرک سے پہلے کمپیوٹر یا بائیالوجی رکھنے سے قبل بچے یا والدین یہ نہیں دیکھتے کہ ان کیلئے کیا بہتر ہے بلکہ بچے یہ دیکھتے ہیں کہ میرے کتنے دوست بائیو رکھ رہے ہیں تووہ بھی اسی طرف چل پڑتے ہیں۔ ہم لوگ بہت دیر سے اپنے آپ کو پرکھتے ہیں۔ بچوں کے رجحانات پانچویں چھٹی میں واضح ہو جاتے ہیں۔ بیرون ممالک میں تو اس بات پر خاص زور دیا جاتا ہے کہ بچے کا رجحان اور شوق دیکھا جائے تاکہ وہ اس میں زیادہ کامیاب ہو۔ اس کیلئے وہ بہت سے ٹیسٹ بھی رکھتے ہیں جن سے بچے کی صلاحیتوں کا علم ہوجاتا ہے۔ یہاں تو چالیس پچاس سال گزرنے کے بعد بھی بندے کو پتا نہیں چلتا کہ وہ کس فیلڈ کیلئے زیادہ مناسب تھا اور جب علم ہوتا ہے تو بندے کی ٹانگیں قبر میں اتر چکی ہوتی ہیں۔ ہمارے بیشتر ایم اے پاس نوجوانوں کو یہ تک معلوم نہیں ہوتا کہ ایک ملین اور ایک لاکھ میں کیا فرق ہوتا ہے۔ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں کیا فرق ہے‘ بیوروکریسی کسے کہتے ہیں‘ بجٹ خسارہ کسے کہتے ہیں‘ یہ وہ بنیادی سوال ہیں جن کا جواب جاننے کی کبھی نوجوانوں نے کوشش بھی نہیں کی۔ ہاں البتہ یہ انہیں پتا ہوتا ہے ٹک ٹاک ایپ پر کتنے سیکنڈ کی ویڈیو ڈالی جا سکتی ہے یا لڑکے کی آواز اور شکل کو لڑکی کی آواز اور تصویر میں کیسے تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ پھر نوکری کیلئے جانے والوں کو ایک سوال بہت کاٹتا ہے کہ کیا آپ کوئی تجربہ رکھتے ہیں۔ یہ نئے لوگوں کے ساتھ واقعی ظلم ہے۔ اس کا حل البتہ یہ ہے کہ حکومت اگر سرکاری اور نجی اداروں کو پابند کر دے کہ وہ اپنی ڈگریوں کو چھ ماہ سے ایک سال کی بلامعاوضہ یا معمولی مشاہرے کی نوکری یا تربیت سے منسلک کر دیں اور نوجوان تعلیم کے آخر میں کسی ادارے‘ فیکٹری وغیرہ میں اپنے فیلڈ سے متعلقہ کام بھی کر لیں تو اس طرح سے تجربے والا کانٹا بھی نکل جائے گا۔ اس کے باوجود نوجوانوں کو اپنی ظاہری اور باطنی حالت بہتر کرنا ہو گی کیونکہ جس نے انٹرویو لینا ہے اس نے اشاروں میں بات نہیں کرنی نہ ہی آپ کا موبائل پر میسنجر کے ذریعے انٹرویو ہوگا۔ جو بھی ہوگا آمنے سامنے ہوگا۔ آپ کو نظریں ملاکر بات کرنا‘ سلیقے اور آداب کے ساتھ میل جول سیکھنا پڑے گا۔ یہ چیزیں صرف جاب انٹرویو میں ہی کام نہیں آئیں گی بلکہ ماشااللہ آپ کی شادی بھی آسان کردیں گی کیونکہ آپ کو دیکھنے کیلئے آنے والے بکرے کی طرح آپ کے کان اور دانت وغیرہ نہیں دیکھیں گے بلکہ آپ سے کچھ نہ کچھ بات چیت کرکے ہی آپ کی شخصیت بارے کوئی اندازہ قائم کرسکیں گے۔ اس لئے نوکری نہ سہی‘شادی کے انٹرویو کو ہی سیریس لے لیجئے اور آج سے ہی اپنی ادائوں پر غور کرنا شروع کر دیں‘ کیا پتا کب کوئی آپ کو دیکھنے آ جائے!