ہمارا ملک چونکہ سارا سال سیاسی تنازعات میں گھرا رہتا ہے اس لیے بسا اوقات ملک سے آنے والی کسی مثبت اور حوصلہ افزا خبر پر بھی جلد یقین نہیں آتا۔ یہاں ویسے بھی لوگ ایک دوسرے میں کیڑے نکالنے اور نیچا دکھانے میں مصروف رہتے ہیں اس لیے کبھی تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاید ہمارا ایجادات‘ انوویشن اور ترقی سے کوئی لینا دینا ہی نہیں ہے یا پھر ہم ان چیزوں کے لیے بنے ہی نہیں ہیں۔ جب سب کچھ باہر سے بنا بنایا مل جاتا ہے اور بالخصوص چین سے انتہائی سستے داموں بنوا کر منگوایا جا سکتا ہے تو پھر ہاتھ پر ہاتھ دھرے رہنے کا کلچر ہی غالب آنا ہے۔ انفرادی نہیں‘ قومی سطح پر یہی چلن ہے۔ کاروباری طبقہ بھی یہی کچھ کر رہا ہے۔ بڑی صنعتیں بھی اب نہیں لگ رہیں۔ بڑے تو بڑے‘ چھوٹے تاجر بھی چین اور دیگر ممالک سے تیار مال منگوا لیتے ہیں یا یہاں لا کر اسمبل کر کے فروخت کر دیتے ہیں۔ یوں پیسوں‘ لیبر اور وقت دونوں کی بچت ہو جاتی ہے؛ تاہم اس عمل کا نقصان قومی معیشت کے ساتھ ساتھ ملکی کرنسی اور روزگار سے جڑے طبقے کو ہوتا ہے۔ جب سب کچھ باہر سے درآمد کیا جائے گا تو پھر یہاں کی لیبر خاک ہی چھانے گی۔ جب اسے ڈھنگ کا کام نہیں ملے گا تو پھر وہ مجبوراً چوری چکاری کی طرف راغب ہو گی۔ جرائم بڑھیں گے تو ملک کا امن و امان خراب ہو گا جس سے ملک میں سیاحت اور سرمایہ کاری دونوں متاثر ہوں گی۔ کورونا کی وجہ سے جہاں دنیا بھر کے ممالک میں لائف سٹائل میں تبدیلی آ رہی ہے وہاں ہر ملک کو یہ احساس ہوا ہے کہ اسے قومی سطح پر پیداوار بڑھانے پر توجہ دینی چاہیے۔ کورونا کے پہلے مرحلے میں تو ماسک اور سینیٹائزر بھی ناپید ہو گئے تھے۔ اس وقت لگتا تھا جیسے یہ چیزیں بنانا ایٹم بم سے زیادہ مشکل ہے۔ پھر وینٹی لیٹر بھی ناپید ہونا شروع ہو گئے۔ تب جا کر احساس ہوا کہ صحت کے شعبے کو کس طرح نظر انداز کیا گیا تھا۔ پتا تب چلتا ہے جب سر پر پڑتی ہے۔
اس تناظر میں اچھی خبر سامنے آئی ہے جس کے مطابق پاکستان ایٹمی توانائی کمیشن نے کورونا کی وبا کے تناظر میں ملکی وسائل سے تیار کردہ پہلا آئی سی یو وینٹی لیٹر آئی لِو (i-Live) کے نام سے متعارف کرا دیا ہے جبکہ ڈریپ نے اس وینٹی لیٹر کے استعمال اور تیاری کی باقاعدہ منظوری دے دی ہے۔ یہ وینٹی لیٹر پاکستان ایٹمی توانائی کمیشن کے سائنسدانوں اور انجینئرز نے مقامی وسائل سے تمام تر مروجہ طبی معیارات کے مطابق تیار کیا ہے۔ بہت سی سائنسی جانچ کے علاوہ یہ وینٹی لیٹر پاکستان انوویشن اینڈ ٹیکنالوجی سنٹر اور پاکستان انجینئرنگ کونسل کے معیارات پر بھی پورا اترا ہے۔ اس وینٹی لیٹر مشین کی جناح ہسپتال لاہور میں بھی جانچ کی گئی۔ اس جانچ میں بہت سے ماہرین‘ جن میں طبی ماہرین، بائیو ٹیکنالوجی اور بائیو میڈیکل انجینئرز شامل تھے، نے اس کو کامیاب قرار دیا ہے۔ ڈریپ کی اس فائنل منظوری کے بعد اس وینٹی لیٹر کی بڑے پیمانے پر تیاری شروع کردی جائے گی تاکہ کورونا وائرس کی وبا کے دنوں میں مریضوں کو جلد از جلد یہ سہولت مہیا کی جاسکے۔ اس سے قبل بھی لاہور کی ایک یونیورسٹی کے طالب علموں نے کم قیمت موبائل وینٹی لیٹر بنایا تھا جسے ہسپتال سے باہر بھی آسانی سے لے جایا جا سکتا ہے؛ تاہم ان طالب علموں کو حکومت کی جانب سے سپورٹ نہیں ملی جس کی وجہ سے ان کا منصوبہ آگے نہیں بڑھ سکا۔ وہ طالب علم بعد ازاں اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکہ چلے گئے تھے۔ یقینا ان کی کاوشوں سے دوسرے ممالک استفادہ کر لیں گے۔ قسمت میں ہوا‘ وہ واپس آئے‘ اور انہیں سپورٹ مل گئی تو ہم بھی فائدہ اٹھا سکیں گے۔ فی الوقت یہ خبر اس لحاظ سے بھی اہم ہے کہ ہمارا ہمسایہ ملک کورونا کے معاملے میں انتہائی مشکلات کا شکار ہے۔ آکسیجن کے ساتھ ساتھ اس سے منسلک اشیا بھی کم پڑتی جا رہی ہیں۔ اگر پاکستان میں ان وینٹی لیٹرز کی تیاری جلد اور بڑے پیمانے پر کی جاتی ہے تو بھارت کو یہ برآمد کئے جا سکتے ہیں۔ ہماری حکومت اس حوالے سے منظوریوں کے عمل کو جتنا جلدی مکمل کرا دے اتنا ہی اچھا ہے۔ کورونا کی عالمی سطح پر ویکسین بھی اگر اتنے کم عرصے میں تیار ہوئی ہے تو اس میں متعلقہ ممالک کی جانب سے تعاون کا بڑا عمل دخل ہے۔ بعض لوگ ویکسین لگوانے میں اس لیے بھی احتراز کرتے ہیں کہ اس طرح کی ویکسین بننے میں کئی سال لگ جاتے ہیں لیکن یہ ویکسین چند ماہ کے اندر اندر تیار ہو گئی تو اس کا جواب یہ ملتا ہے کہ کورونا سے چونکہ تمام ممالک اور ان کے اربوں لوگ اور ان کی معیشتیں براہ راست متاثر ہو رہی تھیں اس لیے ویکسین کی تیاری بھی ایمرجنسی اور غیرمعمولی انداز میں کی گئی۔ عالمی ادارہ صحت عام طور پر اتنی جلدی کسی ویکسین کی باقاعدہ منظوری نہیں دیتا لیکن چونکہ ان کی اپنی جان پر بنی ہوئی تھی اس لیے یہ مرحلہ انتہائی سرعت کے ساتھ مکمل کیا گیا۔ یہاں سوئی سے لے کر جہاز تک سب کچھ باہر سے منگوانے کی سب کو چونکہ لت پڑی ہوئی تھی اس لیے ویکسین جیسی چیزوں کی طرف کسی کا دھیان کیا جاتا؟ اب جا کر معلوم ہوا ہے کہ انسانی جانوں کی بھی کوئی اہمیت ہوتی ہے۔ ویسے اگر اس بیماری سے صرف غریب مر رہے ہوتے تو شاید اس کی تیاری میں بھی اتنی سنجیدگی نہ دکھائی جاتی۔ سب سے پہلے یہ وائرس غالباً کینیڈا کے وزیراعظم تک پہنچا تھا جو بہت بڑی خبر تھی۔ اس کے بعد سب کو احساس ہو گیا تھا کہ اگر زندہ رہنا ہے تو اس کے بچائو کیلئے ہاتھ پیر مارنے پڑیں گے۔ 'سب بچیں گے تو ہم بچیں گے‘ کا فارمولا کام کر گیا اور یوں پوری دنیا میں ویکسین تیار ہو کر پھیلنے گی۔ پاکستان جیسے ممالک میں وینٹی لیٹر کا بن جانا اور ڈاکٹر کمیونٹی کا اسے پاس کرنا واقعتاً بڑا قدم ہے۔ اس کے دُور رس نتائج آئیں گے۔ اس سے صحت کے شعبے میں دیگر مطلوبہ اشیا اور ادویات وغیرہ کی تیاری بھی مقامی سطح پر ہونے کا ایک سلسلہ شروع ہو سکتا ہے کہ کہاوت ہے خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے۔ دیگر شعبے بھی مقامی سطح پر تیاری کی طرف آ گئے تو پاکستان ملکی سطح پر تو خودکفیل ہو گا ہی‘ ساتھ میں برآمدات کا سلسلہ بھی شروع ہو جائے گا۔ پاکستان فی الوقت جن اشیا کو برآمد کر کے زرمبادلہ کما رہا ہے‘ ان میں چاول‘ خالص چمڑا‘ چمڑے کی مصنوعات‘ ٹیکسٹائل‘ سرجیکل آلات‘ کھیلوں کا سامان اور ریڈی میڈ گارمنٹس شامل ہیں۔ اچھی بات یہ ہے کہ اس وقت ملک میں لوڈ شیڈنگ نہ ہونے کے برابر ہے لیکن بجلی کی کم نرخوں پر دستیابی بھی اہم ہے۔ اگرچہ پاکستان کی برآمدات گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں سات فیصد بڑھ کر ساڑھے اٹھارہ ارب ڈالر کے قریب پہنچ گئی ہیں لیکن یہ اب بھی دیگر ممالک کے مقابلے میں خاصی کم ہیں۔ چھوٹا سا ملک سنگاپور تین سو ارب ڈالر سے زیادہ کی برآمدات کر رہا ہے۔ پاکستان میں سیاحت میں بھی خاصا پوٹینشل موجود ہے۔ گزشتہ دنوں وزیراعظم کے معاون خصوصی زلفی بخاری کی گوادر کے سمندر میں نہانے کی ویڈیو سامنے آئی جس میں انہوں نے بتایا کہ یہاں ساحل کا طویل حصہ سیاحتی مرکز کے طور پر تیار ہو رہا ہے‘ جس کے بعد بڑی تعداد میں یہاں ٹریولرز آئیں گے۔ گوادر آباد ہو گا تو پاکستان کی معیشت میں نئی رُوح آ جائے گی۔ کورونا سے تو نمٹتے ہی رہنا ہے لیکن ساتھ ہی اس طرح کے منصوبوں پر بھی کسی نہ کسی طور کام جاری رہنا چاہیے تاکہ جب حالات نارمل ہوں تو پاکستان کو کورونا سے پہنچنے والے معاشی نقصان سے نکلنے کے لیے نئے سرے سے تگ و دو نہ کرنا پڑے۔ پشاور کے دو نوجوانوں نے ڈرون نما جہاز بنائے ہیں جن کی ویڈیوز یوٹیوب پر ہیں۔ اسی طرح کی اور بھی چیزیں سامنے آتی رہتی ہیں۔ میری تجویز ہے کہ اگر حکومت وزارت سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے تحت کوئی ایسی مستقل کمیٹی یا ضمنی ادارہ بنا دے جو ملک میں چھوٹی سے چھوٹی سطح پر ہونے والی ایجادات کو بھی اہمیت دے‘ انہیں پرکھے اور انہیں قومی مفاد اور قومی دھارے میں لانے کے لیے اقدامات کرے تو اس سے ملک و قوم کو بہت فائدہ پہنچے گا۔