''پولیس کے شعبے میں اصلاحات صرف اور صرف ایک چیز کے ذریعے آ سکتی ہیں اور وہ ہے انفارمیشن ٹیکنالوجی۔ آپ قوانین میں جتنی چاہے ترامیم کر لیں‘ نت نئے قوانین لے آئیں یا لمبی چوڑی کمیٹیاں تشکیل دے دیں‘ ان کا وہ فائدہ نہیں ہو گا جو پولیس سے متعلقہ شعبوں کو آئی ٹی سے لیس کرنے سے ہو گا‘‘۔ آئی جی پنجاب انعام غنی نے ان خیالات کا اظہار گزشتہ روز صحافیوں کی ایک نشست میں میرے ایک سوال کے جواب میں کیا۔ آئی جی پنجاب نے چار اپریل کو ایک منفرد قدم اٹھایا۔ انہوں نے حکم دیا کہ پنجاب میں جن ایس ایچ اوز کے خلاف کریمنل کیسز زیر سماعت ہیں‘ انہیں تھانیدار نہ لگایا جائے اور خراب اور کریمنل کیسز کے حامل تھانیداروں کو فوری ہٹا دیا جائے۔ یہ پولیس کے احتساب کی جانب ایک شاندار قدم ہے۔ اس سے بھی اہم اقدامات انہوں نے پولیس کے تمام شعبوں کوکمپیوٹرائزڈ کرتے ہوئے کیے۔ پنجاب کہنے کو تو ایک صوبہ ہے لیکن اگر یہ ملک ہوتا تو بھی اس کی آبادی اتنی ہے کہ یہ آبادی کے لحاظ سے دنیا کا تیرہواں بڑا ملک قرار پاتا۔ چھتیس اضلاع اور ملحقہ دیہات‘ قصبوں اور کچی آبادیوں کو ملایا جائے تو اس کی آبادی ساڑھے بارہ کروڑ سے تجاوز کرجاتی ہے‘ ترکی اور ایران سے بھی زیادہ۔ اتنے بڑے صوبے کو چلانا آسان نہیں۔ اس کا بہترین حل یہی تھا کہ پنجاب پولیس کو بھی دبئی اور دنیا کے جدید ملکوں کی پولیس کی طرح جدید ٹیکنالوجی سے مسلح کر دیا جائے۔ ہم مانیں یا نہ مانیں‘ محدود بجٹ کے باوجود پولیس کے شعبے میں بہت تبدیلیاں آ چکی ہیں۔ اب تھانوں میں فرنٹ ڈیسک آفس موجود ہیں جہاں ہاتھ کے بجائے کمپیوٹرائزڈ درخواست لکھی جاتی ہے۔ آپ کو اس کا مخصوص نمبر ایس ایم ایس کے ذریعے مل جاتا ہے‘ آپ اسے ٹریس اور ایف آئی آر
کی کاپی بھی آن لائن حاصل کر سکتے ہیں۔ اصلاحات کیلئے صرف یہی کافی نہیں تھا۔ مینوئل کام کو ممکن حد تک ختم یا کم کرنا بھی ضروری تھا۔ اس کے لئے پیپر لیس سسٹم کو ترجیح دی گئی۔ رجسٹروں کو ختم کر کے بائیو میٹرک حاضری کو لاگو کیا گیا۔ جدید موبائل ایپلی کیشنز‘ سافٹ ویئرز‘ ویب پورٹلز اور ڈیش بورڈز تشکیل دیے گئے جن کے ذریعے نہ صرف وقت کی بچت ہوئی بلکہ اعلیٰ سطح کیلئے پالیسی و فیصلہ سازی اور مجرموں تک رسائی آسان ہو گئی۔ تمام اضلاع میں پولیس خدمت مراکز قائم ہوئے جن کے تحت شہریوں کیلئے ایف آئی آر کی کاپی‘ میڈیکو لیگل اور کریکٹر سرٹیفکیٹ کا حصول انہی اضلاع میں ممکن ہو گیا۔ اسی طرح پولیس افسران اور ملازمین کی مکمل معلومات کا ڈیٹا بیس بنایا گیا تاکہ ان کی تقرری‘ تنزلی‘ ریٹائرمنٹ اور پنشن‘ سب کچھ آن لائن کر کے تمام عمل کو فوری محفوظ اور آسان بنا دیا جائے۔ اسی طرح کیسز کی تفتیش پر پیش رفت دیکھنی ہو یا جرائم اور مجرموں سے متعلق کسی قسم کے ڈیٹا کا حصول ہو‘ اب سب کچھ چند سیکنڈ اور چند کلکس پر حاصل ہو جاتا ہے۔ حکومت اور سرکاری محکموں میں بہت سا وقت اور اخراجات میٹنگز پر خرچ ہوتے ہیں۔ اس کیلئے پولیس افسران کی آپس کی میٹنگز اور رابطوں کو آن لائن وڈیو کانفرنسنگ سے منسلک کیا گیا۔ حتیٰ کہ پولیس سٹاف کی اے سی آر‘ چھٹی کی منظور ی اور ٹرانسفر؍ پوسٹنگ کو بھی ڈیجیٹل کرنے کا آغاز کر دیا گیا۔
پنجاب میں پولیس میں ایک لاکھ چوراسی ہزار افسران اور اہلکار ہیں۔ اتنے بڑے سٹاف کو مینوئل انداز میں ہینڈل کرنا آسان نہیں اور نہ ہی یہ کوئی دانشمندانہ فعل ہو گا وہ بھی ایسے وقت میں‘ جب بچے بچے کے ہاتھ میں موبائل فون ہو اور جب سکول کی کلاسوں سے لے کر ڈاکٹروں سے نسخے لکھوانے تک تمام عمل آن لائن ہو رہا ہو۔ دیگر شعبوں کی طرح پنجاب پولیس میں بھی جدید اصلاحات کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔ آئی جی پنجاب کے مطابق‘ اب تھانوں کو اس امر کا پابند کیا گیا ہے کہ کوئی بھی شخص درخواست لے کر آئے تو اس کی درخواست کو رجسٹر کیا جائے۔ کسی بھی محکمے کی اصلاح کیلئے سزا اور جزا دونوں لازمی ہیں۔ پولیس میں اگر کوئی اچھا کام کرتا ہے تو عمومی طور پر اسے اعزازی شیلڈ یا کیش انعام دیا جاتا ہے؛ تاہم انعام کا زیادہ حقدار تفتیشی افسران کو ٹھہرایا جاتا ہے کیونکہ جب تک تفتیش درست سمت میں نہیں ہو گی تب تک کیس کا سرا ہاتھ میں نہیں آئے گا۔ اکثر مقدمات میں ملزم نامعلوم ہوتے ہیں اور اگر ملزم نامزد ہوں تب بھی ٹھوس شواہد کے بغیر کسی کو مجرم ٹھہرانا جائز نہیں۔ آج کل موبائل فون کی وجہ سے جہاں جرائم زیادہ ہو رہے ہیں وہاں اسی موبائل کی وجہ سے مجرموں کو پکڑنا اور ٹریس کرنا آسان بھی ہو گیا ہے۔ ملزموں کے فنگر پرنٹس‘ ان کے کال ریکارڈز‘ سیف سٹی کیمروں کی تصاویر‘ کمپیوٹر اور موبائل آئی پی‘ آئی ایم ای آئی ایڈریس اور جی پی ایس لوکیشن کے ذریعے مجرموں تک رسائی ممکن ہو جاتی ہے لیکن یہ کام انتہائی پیچیدہ اور تکنیکی ہوتا ہے جس کیلئے بہت زیادہ مہارت درکار ہوتی ہے۔ انہی کو استعمال کرتے ہوئے بہت سے گنجلک قسم کے کیس حل کیے گئے جن میں قتل‘ ڈکیتی‘ زیادتی اور اغوا برائے تاوان کے سنگین کیسز بھی شامل تھے۔ مجرموں کے ڈی این اے کا ریکارڈ حاصل کرنے کیلئے فرانزک سائنس کی مدد لی گئی جس کی بدولت زیادتی کے مجرموں کو تختہ دار پر پہنچایا گیا۔ آئی جی پنجاب کے مطابق انہوں نے آئی ٹی کا ایسا فول پروف سسٹم تشکیل دیا ہے جس میں اعلیٰ افسران حتیٰ کہ وہ خود بھی مداخلت کر کے کسی قسم کی ناجائز ترمیم یا اخراج وغیرہ نہیں کر سکتے۔ اگر کوئی مقدمہ درج کر لیا گیا ہے تو وہ سادہ سی آن لائن کمانڈ سے ڈیلیٹ نہیں کیا جا سکتا بلکہ خود کار طریقے سے تفتیشی ونگ کو منتقل ہو جاتا ہے۔ پولیس کیلئے اچھی خبر انہوں نے یہ سنائی کہ پولیس کیلئے ایک الگ ہسپتال قائم کرنے پر کام شروع کر دیا گیا ہے تاکہ پولیس ملازمین کو معیاری اور سستا علاج میسر ہو سکے۔ اسی طرح پولیس میں الگ سے آئی ٹی سیل قائم کیا جا رہا ہے جہاں پولیس کے ماہر آئی ٹی پرفیشنلز کام کریں گے۔
آئی جی پنجاب کی کوششیں اپنی جگہ لیکن کیا ہم نے کبھی سوچا ہے کہ ہم لوگ اپنے ملک کی پولیس کا مقابلہ دیگر دنیا کی پولیس سے تو کرتے ہیں لیکن کبھی ہم نے اپنے عوام کا مقابلہ ان ممالک کے عوام کے ساتھ کیا؟ ہم چاہتے ہیں ہمارے ملک کے ہسپتال‘ ایئر پورٹس‘ تھانے‘ عدالتیں سب کچھ یورپ‘ امریکا اور دبئی کی طرز پر کام کریں لیکن ہم ان ممالک کے عوام کی طرح ذمہ دار نہ بنیں‘ ہم یونہی سڑکوں پر کچرا پھینکتے رہیں‘ اپنی دکانوں کے آگے ناجائز ٹھیلے لگا کر فٹ پاتھ بلاک کر دیں‘ ہمیں کبھی قطار میں نہ لگنا پڑے‘ہم سگنل توڑتے رہیں‘ ہم کم عمر غریب بچیوں کو محبوس رکھ کر ان سے کام کرائیں‘ ظلم کریں اور ضرورت پڑنے پر ان کا گلا بھی دبا دیں لیکن کوئی ہم سے پوچھے نہ ہمیں ٹوکے‘ بس ہمیں ایک بنا بنایا ''نیا پاکستان‘‘ چاہیے جس میں سب کچھ ہماری مرضی سے ہو لیکن ہم کسی قانون کے تحت نہ چلیں۔ پنجاب پولیس جو کر سکتی تھی اس نے کیا اور آگے بھی کر رہی ہے۔ درجنوں ایسی موبائل ایپس بن چکی ہیں جن کے ذریعے گھر بیٹھے ملازمین‘ کرایہ داروں کا اندراج کرایا جا سکتا ہے‘ جرائم رپورٹ ہو سکتے ہیں‘ ٹریفک چالان‘ ای چالان‘ ٹوکن ٹیکس ادا کیے جا سکتے ہیں‘ چوری شدہ موبائل بلاک ہو سکتے ہیں اور اس طرح کی دیگر درجنوں سہولتیں حاصل ہو سکتی ہیں؛ تاہم یہ سب ہم نے خود سیکھنا اور کرنا ہے۔ پولیس یا کسی اور نے ہمارے گھر آ کر تو یہ کام نہیں کرنا۔ ہم فیس بک‘ انسٹاگرام اور ٹک ٹاک تو سیکھ اور چلا بھی لیتے ہیں لیکن ضروری ایپس کو ڈائون لوڈ تک نہیں کرتے۔ نہ ہم ٹوکن ٹیکس دینے کو تیار ہیں‘ نہ گاڑیاں اپنے نام ٹرانسفر کراتے ہیں۔ ایک اجنبی کو اس کا شناختی کارڈ وغیرہ دیکھے بغیر گھر میں ملازم رکھ لیتے ہیں اور بعد میں جب وہ ڈکیتی کر کے نکل جاتا ہے تو پولیس کو برا بھلا کہنا شروع ہو جاتے ہیں کہ وہ امن قائم کرنے میں ناکام ہو گئی ہے۔ یہ دوغلا پن ہم چھوڑیں گے تبھی اس ملک میں ویسا امن قائم ہو سکے گا جس کا ہم دن رات خواب دیکھتے اور مثالیں دیتے رہتے ہیں۔