نوجوانوں کو جلد پریکٹیکل بنانے کا ایک نسخہ یہ ہے کہ انہیں کنسٹرکشن کے میدان میں کچھ وقت لگانے کا لازمی موقع دیا جائے۔ پانچ مرلے کا ایک گھر چھ‘ سات ماہ میں مکمل ہو جاتا ہے۔ اگر کالجز اور یونیورسٹیز کے طلبہ کو چھ ماہ کیلئے ایسے پروجیکٹس سے منسلک کر دیا جائے تو وہ انتہائی کم وقت میں درجنوں صنعتوں‘ اشیا اور سروسز سے متعلق نہ صرف سیر حاصل معلومات حاصل کر لیں گے بلکہ معاشرے کو اچھا خاصا سمجھ جائیں گے کیونکہ کنسٹرکشن کے دوران سب سے زیادہ جس چیز کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ جھوٹ‘ دھوکا اور دو نمبری ہے جو اس معاشرے میں چہار سو پائے جاتے ہیں۔ بصورت دیگر ایک بچہ یا نوجوان یہ چیزیں زندگی کے کئی ماہ و سال میں مختلف تجربات کے ساتھ سیکھے گا۔ اس میں دس سے بیس سال بھی لگ سکتے ہیں اور اس میں اسے نقصانات بھی اٹھانے پڑ سکتے ہیں۔ یہی چیزیں اگر وہ ابتدا میں سیکھ لے گا تو اپنی زندگی کو آغاز میں ہی بہتر سمت میں ڈھالنے میں کامیاب ہو جائے گا۔ مکان بنانے کی جب بھی بات آتی ہے تو اسے انتہائی مشکل کام اور سردردی سمجھا جاتا ہے اسی لئے کچھ لوگ بنا بنایا گھر خریدنے کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ یہ عام روایت ہے کہ گھر بنانے کے دوران انسان کو بلڈ پریشر کی بیماری لاحق ہو جاتی ہے۔ گھر کے پلاٹ کی خرید‘ ٹرانسفر‘ قرض کی منظوری‘ پلاٹ کی رجسٹری‘ گھر کے نقشے کی منظوری‘ ٹھیکیدار کی تلاش‘ لیبر کے ساتھ مغز ماری اور بلڈنگ میٹریل کی خریداری اچھے بھلے بندے کو پاگل کر دیتی ہے۔ اصل زندگی میں بھی یہی کچھ ہوتا ہے لیکن مکان کے تعمیراتی دورانیے میں انسان بہت کچھ سیکھ لیتا ہے جو آگے زندگی میں اس کے بہت کام آتا ہے۔
بنیادوں کی کھدائی سے لے کر دروازوں کے تالوں تک کے دوران جو وقت گزرتا ہے اس میں ہر دن انسان کچھ نہ کچھ سیکھ رہا ہوتا ہے۔ غلطیاں بھی کرتا ہے لیکن پھر ان سے بچنے کی کوشش بھی کرتا ہے۔ پیسے بچانے کے ساتھ ساتھ معیار کو بھی برقرار رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ اگر اپنے لئے گھر بناتا ہے تو کوشش کرتا ہے کہ اس میں کوئی بھول چوک نہ ہونے پائے تاکہ اس میں رہائش کے دوران کم از کم مسائل کا سامنا کرنا پڑے۔ جو چیز انسان اپنے لئے بناتا ہے اس میں کوئی کمپرومائز نہیں کرتا۔ اگر کرتا ہے تو کل کو پھر اس کا خمیازہ بھی بھگتتا ہے۔ مکان بنانے کے دس سال بعد بھی اسے یاد ہوتا ہے کہ میں نے فلاں غلطی نہ کی ہوتی تو آج مکان کی تعمیر میں فلاں خرابی نہ پیدا ہوئی ہوتی۔ یوں وہ بہتر سے بہتر کی کوشش میں گامزن رہتا ہے۔ اگر مکان بیچنے کیلئے بناتا ہے اور اس میں کم معیار کا سامان وغیرہ لگاتا ہے تب بھی اسے کٹہرے میں کھڑا ہونا پڑ سکتا ہے یا اس کی مارکیٹ ویلیو خراب ہو سکتی ہے کیونکہ کل کو جو بھی اس مکان میں آ کر رہے گا یا تو وہ گالیاں دے گا یا دعائیں دے گا۔ یہ گالیاں اور دعائیں‘ دونوں اسے کسی نہ کسی صورت ضرور پہنچیں گی۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ کوئی گڑھا جو کسی کے لئے کھود ا جائے‘ کل کو وہی گڑھا آپ کے سامنے نہ آئے۔ آپ بچ جائیں گے تو ممکن ہے آپ کی اولادکو بھگتنا پڑ جائے۔ کنسٹرکشن کے دوران سب سے زیادہ زور جھوٹ پر ہوتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کے لئے دکھایا کچھ اور بیچا کچھ جاتا ہے۔ ریٹ اول نمبر کا لگایا جاتا ہے لیکن مال دوسرے درجے کا بھجوا دیا جاتا ہے۔
تعمیراتی منصوبوں میں سر کھپانے سے ایک اہم فائدہ یہ ہوتا ہے کہ انسان چیزوں اور انسانوں کو پہچاننے کے قابل ہو جاتا ہے۔ اگر آپ نے لیبر پر ٹھیکیدار سے کام کروانا ہے تو اس میں آپ کو تجربہ زیادہ ہو گا۔ کچھ لوگ ٹھیکیدار کو بھی مائنس کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور مارکیٹ سے مستری اور مزدور براہِ راست ہائر کرتے ہیں۔ اس طرح وہ پیسے بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ شاید سو میں سے دس فیصد ہی اپنے مقصد میں کامیاب ہوتے ہوں کیونکہ مارکیٹوں‘ چوکوں اور چوراہوں سے جو مستری مزدور ملتے ہیں ان میں سے اکثر ناتجربہ کار‘ سست اور کام چور ہوتے ہیں۔ یہ آتے بھی لیٹ ہیں اور جانے میں جلدی کرتے ہیں۔ دوپہر کا کھانا اور دو تین مرتبہ چائے پینے میں بھی وقت ضائع کر دیتے ہیں۔ ایک عام مستری اگر ایک دن میں آٹھ سو اینٹوں کی چنائی کرتا ہے تو یہ چار یا پانچ سو اینٹیں لگائیں گے تاکہ زیادہ سے زیادہ دیہاڑیاں لگیں اور ان کا میٹر چلتا رہے۔ ٹھیکیدار کو اگر آپ لیبر پر ہائر کریں گے اور سینیٹری بجلی کے لئے الگ بندے خود چنیں گے تو یہ سیکھنے کیلئے لحاظ سے بہت مناسب رہے گا۔ اس میں مستری اور مزدوروں کو کنٹرول کرنا ٹھیکیدار کی ذمہ داری ہو گی۔ آپ نے میٹریل خود دینا ہو گا۔ اس کیلئے آپ مارکیٹ میں تین چار مختلف دکانوں سے رابطہ کر سکتے ہیں جو آپ کی سائٹ پر میٹریل پہنچاتے رہیں گے۔ اب میٹریل کی پہچان کیسے ہو گی تو یہ تو آپ کو خود سیکھنا ہو گا۔ اسی فیصد آپ یوٹیوب سے بھی سیکھ سکتے ہیں۔ باقی بیس فیصد مشوروں‘ تجربے اور اپنی فہم سے سیکھا جا سکتا ہے۔ گرے سٹرکچر تک تو پانچ چھ چیزیں ہی زیر استعمال رہتی ہیں۔ ان میں اینٹیں‘ سیمنٹ‘ ریت‘ بجری اور سریا شامل ہیں۔ سیمنٹ برانڈ جو اچھا ہو وہی خریدا جائے اور ایسی ایجنسی یا دکان سے‘ جہاں تازہ سیمنٹ کی آمد رہتی ہو۔ دوسرے نمبر پر اینٹ ہے جو بہت اہم اور زیادہ تعداد میں درکار ہوتی ہے۔ اینٹ کی پہچان کے بھی کئی طریقہ کار ہیں۔ اس کا سائز‘ رنگ اور مضبوطی تینوں کو پرکھا جاتا ہے۔ اول‘ دوم اور بارشی اینٹوں میں فرق کرنا زیادہ مشکل نہیں۔ اسی طرح ریت اور بجری کے بارے میں بھی آپ عملی طور پر واسطہ پڑنے پر جان سکتے ہیں۔ بجلی اور سینیٹری والا ٹھیکیدار کی طرح ہمیشہ اچھا ہائر کریں کیونکہ یہ کام بھی ایک ہی مرتبہ ہو رہا ہوتا ہے اور جتنا اچھا ہو جائے اتنا بہتر ہے۔ اکثر ٹھیکیدار خود آپ کو بندہ ریفر کر دیتے ہیں جو مناسب اس لئے نہیں کہ وہ بندہ ٹھیکیدار کے ساتھ ملی بھگت کر کے آپ کے مکان میں تاخیر کا باعث بن سکتا ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ جب دیواروں کی چنائی اور لینٹر کے بعد فرشوں کے کچا ہونے اور دیواروں کے پلستر کی باری آتی ہے تو دیواروں میں بجلی کے پائپ ڈالنا ہوتے ہیں اور فرش میں سیوریج کے پائپ کی وائرنگ کرنا ہوتی ہے۔ اگر ٹھیکیدار نے اس دوران کوئی اور پروجیکٹ پکڑ لیا اور وہ اپنی لیبر کو اُدھر لے جانا چاہتا ہو تو وہ بجلی اور سینیٹری والے کو کہے گا کہ تم اپنا کام لیٹ کر دو تاکہ مجھے کچھ دن مل جائیں۔ ممکن ہے وہ غلط طریقے سے وائرنگ کر دیں اور پھر آپ کی نشاندہی یا خود ہی دوبارہ اسے ٹھیک کرنے لگ جائیں جس سے ٹھیکیدار دوسری جگہ اپنے بندے لے جا کر اپنی چال آگے بڑھا لے گا۔ اس لئے زیادہ بہتر یہ ہے کہ مارکیٹ سے یہ دونوں بندے خود ڈھونڈے جائیں اور دونوں سے معاملات براہِ راست طے کئے جائیں کہ کس کس وقت وہ کتنا کام کریں گے اور تاخیر کی صورت میں ذمہ داری بھی لیں گے۔
مکان بنانے کے دوران انسان بیک وقت خریدار‘ منیجر‘ ریکارڈ کیپر‘ اکائونٹنٹ‘ سرویئر‘ سیلز مین ‘ ٹرانسپورٹر ‘سکیورٹی گارڈ‘ انویسٹر‘ انجینئر اور آرکیٹیکٹ ہوتا ہے جبکہ ان کے علاوہ بھی وہ درجنوں فیلڈز کو سیکھ رہا ہوتا ہے۔ اتنے شعبوں سے کسی اور جگہ اتنے کم وقت میں واسطہ نہیں پڑتا، مثلاً اگر ایک بندہ کسی مارکیٹنگ فرم میں انٹرن شپ یا ابتدائی جاب کرتا ہے تو وہ صرف مارکیٹنگ ہی سیکھ پائے گا۔ اسی طرح اگر کوئی اکائونٹنٹ بننا چاہتا ہے تو وہ کسی بینک یا ادارے میں چھ ماہ یا ایک سال تک صرف ایک ہی شعبے کو سیکھ پائے گا لیکن کنسٹرکشن کی دنیا میں سینکڑوں شعبے باہم مربوط ہیں۔ اگر کوئی نوجوان چھ‘ آٹھ ماہ ایک مکان کی تیاری میں لگا لیتا ہے تو پھر وہ ایک اچھا منیجر‘ اچھا خریدار‘ اچھا سیلز مین اور ایک ذمہ داری شہری بن سکتا ہے۔ تعمیراتی شعبے میں نوجوانوں کی تربیت کو دو مرحلوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ایک‘ گرے سٹرکچر کی تعمیر، دوسرا مرحلہ گرے سٹرکچر کے بعد شروع ہوتا ہے اور گھر کی فنشنگ پر مشتمل ہوتا ہے۔ دوسرے مرحلے میں بہت زیادہ باریکیاں ہوتی ہیں‘ اس بارے میں بات ان شاء اللہ آئندہ کالم میں!