گھر کی فنشنگ میں بے شمار چیزیں استعمال ہوتی ہیں۔ آج کل تو گھر کے بیرونی ڈیزائن کے ساتھ ساتھ انٹیریئر ڈیزائن پر بھی بہت زور دیا جانے لگا ہے۔ماضی میں صرف ضرورت کو مدنظر رکھا جاتا تھا‘ آج کل مگر خوبصورتی کو فوکس کیا جارہا ہے۔ حکومت نے جس طرح کنسٹرکشن کے شعبے کو ریلیف دیا ہے اگر وہ نوجوانوں کو ان تعمیراتی منصوبوں کے ساتھ منسلک کر دے تو نوجوان بہت کم وقت میں بہت زیادہ عملی چیزیں سیکھ جائیں گے۔میں نے گزشتہ کالم میں گرے سٹرکچر کی تعمیر کے حوالے سے چند بنیادی معلومات کا تذکرہ کیا تھا۔ زندگی لین دین کا نام ہے بلکہ میں تو یہاں تک کہوں گا کہ ہمارا دین بھی تب تک مکمل نہیں ہو گا جب تک ہم شریعت کے مطابق لین دین کرنا نہ سیکھ لیں۔ قرآن میں حضرت شعیب ؑ کی اس بستی کا تذکرہ موجود ہے جسے مدین کہا جاتا ہے اور جو شام کے قریب واقع تھی۔وہاں کے لو گ بت پرستی‘برائی‘ لین دین میں خیانت اور دھوکہ بازی سے کام لیتے تھے۔ناپ تول میں کمی اور خریدوفروخت میں جھوٹ بولتے تھے جس کی وجہ سے اس قوم پر عذاب آیا۔ لین دین جسے ہم معمولی سمجھتے ہیں اور اپنی زندگی میں اس گناہ کو کرتے ہوئے ذرا بھی شرمندہ نہیں ہوتے‘ یہ آخرت میں ہمارے گناہوں میں اضافہ کرنے کا باعث بھی بن سکتا ہے اس لئے زندگی کے اس پہلو کو بغور سمجھنے اور احتیاط کے ساتھ کام لینے کی ضرورت ہے۔ لین دین ویسے تو زندگی کے ہر شعبے میں چلتا رہتا ہے لیکن کاروبار میں ذرا سے فائدے کیلئے جھوٹ اور خیانت کی وجہ سے انسان جہنم کے گڑھے میں گر سکتا ہے۔ مسلمان وہ ہے جس کا اخلاق اچھا ہے اور جو لین دین کے معاملے میں کھرا ہے۔یہ کوئی بات نہیں کہ ہم مسجد میں پانچ وقت باجماعت نماز پڑھیں‘ مسجدوں کو چندے اور صدقات بھی دیں لیکن جب کاروبار پر بیٹھیں تو ناقص چیزوں کو اصل بتا کر بیچیں‘ملاوٹ کر کے اسے خالص کا نام دے دیں‘ چیزوں کی عارضی قلت پیدا کر دیں اور ذخیرہ اندوزی سے مال بنائیں اور پھر یہ سمجھیں کہ ہم ہی سچے اور خالص مسلمان ہیں۔ ساری نیکیاں کر کے اگر ہم سمجھتے ہیں کہ لین دین میں دو نمبری کرنے اور خیانت سے اپنا کاروبار چلانے کے باوجود ہمارا شمار اللہ کے مقرب بندوں میں ہو جائے گا تو یہ ہماری بھول ہے۔ پھر آپ کو قوم مدین کا انجام یاد رکھنا چاہیے۔ قرآن میں حضرت شعیب ؑ اور ان کی قوم کا ذکر گیارہ مقامات پر آیا ہے۔قوم شعیب ؑ تین طرح کی برائیوں میں مبتلا تھی ان پر تین طرح کے عذاب مسلط ہوئے۔زلزلہ‘چنگھاڑ اور آگ کے بادل۔
اس وقت پوری دنیا میں کورونا وبا نے پنجے گاڑے ہوئے ہیں۔ اس وقت جبکہ ہمیں خاص طور پر ایسے گناہوں سے ڈرنے کی ضرورت ہے جو ہم عام زندگی میں کررہے تھے‘ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ آج بھی ہمارے چھوٹے اور بڑے تاجر مال کی ہوس میں مبتلا ہیں اور کم وقت میں زیادہ اکٹھا کرنا چاہتے ہیں۔ نہ انہیں معیار کی پروا ہے نہ مقدار کی‘ اگر فکر ہے تو صرف اس بات کی کہ مال و زر کے پہاڑ بنا لئے جائیں۔ آپ دیکھیں حکومت نے عید سے قبل مکمل لاک ڈائون لگا دیا لیکن دس سے بیس فیصد تاجر طبقہ ایسا تھا جو دکانیں بند کر کے کاروبار جاری رکھ رہا تھا۔ یہ ایسی چیزیں نہ تھیں کہ جن کو خریدے بغیر عوام کو جان کا خطرہ ہوتا‘ یہ مال کی ہوس تھی جس کی وجہ سے وہ انسانی جانوں سے کھیلنے سے بھی باز نہیں آ رہے تھے۔ آپ سوچیں جو تاجر کورونا میں بھی اپنی تجوریاں بھرنے اور عوام کی جانوں سے کھیلنے میں لگے تھے وہ عام حالات میں عام لوگوں کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہوں گے۔ آپ یہاں ننانوے فیصد سٹورز سے کوئی چیز خریدیں اور سٹور سے باہر قدم رکھ دیں اس کے بعد نہ کوئی خریدی گئی چیز واپس کرے گا نہ تبدیل۔ہماری دکانوں میں دوتحریریں بڑی واضح دکھائی دیں گی۔ ایک ‘ھذا من فضل ربی اور ساتھ ہی چارٹ پیپر پر لکھا ہو گا کہ خریدا ہوا مال کسی صورت واپس یا تبدیل نہیں ہو گا۔ آپ لاکھ نقص اور دکان کی رسیدیں دکھائیں‘دکاندار آپ کو پہچاننے سے انکار کر دے گا۔ امریکہ اور یورپ میں آپ ایک مہینے بعد بھی جا کر چیز صرف یہ کہہ کر واپس کر دیں کہ میں اس سے مطمئن نہیں تو وہ آپ کے پیسے لوٹا دیں گے اور آپ سے دوسرا سوال نہیں کریں گے۔یہ ان غیر مسلم ملکوں کی بات ہے جنہیں ہم گالیاں دیتے نہیں تھکتے۔ گزشتہ دنوں ایک بزرگ فرما رہے تھے کہ ہمارے دین میں ہے کہ یہودی اور عیسائی کبھی مسلمانوں کے دوست نہیں ہو سکتے۔ یہ ہمیشہ مسلمانوں کے خلاف سازشوں میں مصروف رہیں گے۔ میں نے عرض کی: جناب اس وقت حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کا نہ عیسائی سب سے بڑا دشمن ہے نہ یہودی‘ بلکہ مسلمان ہی مسلمان کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ آپ دیکھ لیں پچاس سے زائد اسلامی ممالک ہیں‘ مسلمانوں کے سینکڑوں فرقے بن چکے ہیں‘ ایک مذہبی فرقے کی بھی الگ الگ سیاسی جماعتیں بن چکی ہیں ‘او آئی سی ہو یا کوئی اور یہ آج تک کسی ایک مسئلے پر‘ کسی ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے نہیں ہو سکے۔کشمیر ہو فلسطین ہو‘ افغانستان یا عراق‘ ہر اسلامی ملک کے مغربی ممالک کے ساتھ اپنے اپنے مفادات اور اپنا اپنا ایجنڈا ہے۔ اس لئے آج جتنا مسلمان دوسرے مسلمان کو نقصان پہنچا رہا ہے اتنا باہر سے نہیں پہنچ رہا۔
کورونا کے دوران ایک برس میں تعمیراتی شعبے میں جو تیزی آئی ہے اس کا فائدہ ان نوجوانوں کو بھی پہنچنا چاہیے جن کے پاس سکلز کی کمی ہے اور وہ اس وقت کا بہترین استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ سرکاری اور نجی یونیورسٹیاں بھی اپنے طالب علموں کو تعمیراتی منصوبوں کے ساتھ منسلک کر سکتی ہیں۔ چاہے وہ تین یا پانچ مرلے کے گھر کی تعمیر ہو یا پھر کسی انڈر پاس یا موٹر وے کی تعمیر ہو۔ گھروں کی فنشنگ میں سینکڑوں اشیا استعمال ہوتی ہیں۔ ہر گھر کی اندرونی اور بیرونی ڈیزائننگ بھی مختلف ہوتی ہے یوں ان نوجوانوں کو نئے آئیڈیا زاور نئی معلومات حاصل ہو سکتی ہیں۔ بعض ٹھیکیدار گھروں کی فنشنگ میں تو بہت زیادہ پیسہ لگاتے ہیں لیکن گرے سٹرکچر میں دوم اینٹ‘ کم مقدار میں سیمنٹ اور ریت استعمال کرتے ہیں۔ اسی کو خیانت اور دھوکہ دہی کہتے ہیں۔ کنسٹرکشن کے شعبے پر زیادہ تر کم پڑھے لکھے لوگ قابض ہیں‘ یہ لوگ آج سے پچاس پچاس سال پرانے آئیڈیاز پر ہی گھر بنائے جا رہے ہیں‘ انوویشن‘ انرجی سیونگ جیسے شعبوں پر وہ کام نہیں کرتے۔اگر پڑھے لکھے نوجوان اس فیلڈ میں آئیں گے تو وہ تعمیراتی شعبے میں جدید آئیڈیاز لاگو کر سکتے ہیں۔ کم جگہ کو کیسے زیادہ بہتر طریقے سے استعمال میں لایا جا سکتا ہے‘ گھر کی چھت کو یونہی بے رکھنے کی بجائے کس طرح اس پر گھاس ‘ پودے اور سبزی لگائے جا سکتے ہیں اور گھر کی تعمیراتی لاگت میں ہی تھوڑے سے ردوبدل سے سولر سسٹم بھی لگ سکتا ہے اس طرح کی چیزوں سے نہ صرف عوام کو رہائش کی بہتر سہولیات میسر ہوں گی بلکہ نوجوانوں کو روزگار ملنے کے ساتھ معیشت کو بھی دوام ملے گا۔ شہروں میں رہائش کی جگہیں کم پڑ رہی ہیں‘ اس مسئلے سے کیسے نمٹنا ہے‘ نئے شہر کیسے ہونے چاہئیں‘ ان میں کون سی نئی سہولیات شامل کی جانی چاہئیں‘اس پر بہت زیادہ کام ہوسکتا ہے۔کم جگہ لینے والا اور فولڈ ہونے والا فرنیچر پوری دنیا میں بہت زیادہ مقبول ہو رہا ہے لیکن پاکستان میں یہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ ایسے بیڈ تیار کئے جانے چاہئیں جو صبح اٹھنے کے بعد ایک بٹن دبا کر فولڈ ہو کر دیوار کے ساتھ لگ جائیں یا میز یا الماری میں تبدیل ہو جائیں۔ ایسے ملٹی ڈائمنشنل آئیڈیاز ہماری نئی نسل ہی سامنے لا سکتی ہے۔ گھروں کی تعمیر صرف دو چار کمرے بنا کر ان میں کھڑکیاں دروازے لگاکر رہنے کا نام نہیں‘ بلکہ انہیں زلزلے اور دیگر آفات سے زیادہ سے زیادہ محفوظ اور رہائش کیلئے کم خرچ اور آرام دہ بنانا بھی ضروری ہے۔ نوجوان جتنا اس فیلڈ میں دلچسپی لیں گے‘ یہ شعبہ اتنا زیادہ کامیاب ہو پائے گا۔