ورک لائف بیلنس کیا ہوتا ہے‘ ہمارے یہاں شاید اکثریت کو معلوم بھی نہ ہو۔ یہ پاکستان جیسے ممالک کا المیہ ہے کہ یہاں انسان کام تو کرتا ہے‘ اپنے اخراجات پورے کرنے کیلئے دو‘ دو تین تین نوکریاں بھی کرتا ہے لیکن اپنے رشتہ داروں اور دوستوں تو کیا‘اپنے لیے بھی وقت نہیں نکال پاتا۔ اسے احساس ہی نہیں ہوتا کہ وہ کام کرتے کرتے ایک مشین بن چکا ہے۔ وہ یہ بھول جاتا ہے کہ مشینوں کو بھی آرام کی ضرورت ہوتی ہے‘ انہیں بھی دیکھ بھال اور ضروری مرمت وغیرہ درکار ہوتی ہے اور اگر ایسا نہ کیا جائے تو مشینیں بھی جلد جواب دے جاتی ہیں۔ مشینوں کا دماغ نہیں ہوتا‘ ان کے جذبات اور احساسات نہیں ہوتے‘ دوست‘ احباب اور رشتہ دار نہیں ہوتے اس لیے انہیں زیادہ دیکھ بھال کی ضرورت نہیں ہوتی لیکن انسان کی طبیعت نرالی ہوتی ہے۔انسان ناراض ہوتا ہے‘ خوشی اور نفرت کے جذبات رکھتا ہے‘ یہ تھک بھی جاتا ہے اور یہ بہت جلد غصے میں بھی آ جاتا ہے۔ اس میں بدلہ لینے اور معاف کرنے کی صلاحیت بھی ہوتی ہے اور ان ساری کیفیات سے گزرنے والا شخص اگر ذہنی اور جسمانی طور پر سکون نہ لے پائے‘ اگر اسے مناسب آرام اور اطمینان بخش لمحات نصیب نہ ہوں تو پھر اس میں چڑچڑاپن پیدا ہونا شروع ہو جاتی ہے‘ دبائو کی دیمک ایک ہنس مکھ انسان کو گھن کی طرح چاٹ لیتی ہے‘ اس کے دماغ سے زہریلے ہارمون خارج ہوتے ہیں جو بالآخر اس کے دل‘ معدے‘ گردوں اور دیگر حصوں کو نقصان پہنچانا شروع کر دیتے ہیں جس سے بلڈ پریشر‘ شوگراور تنائوجیسی علامات اور بیماریاں پنپنا شروع کر دیتی ہیں اور وہ جلد ہی ڈاکٹروں اور ہسپتالوں کے درمیان فٹ بال بن جاتا ہے۔ایسا نہیں ہے کہ جدید ممالک کے لوگ کام نہیں کرتے یا پھر انہیں گھر بیٹھے مفت کے پیسے ملتے ہیں بلکہ وہاں لوگ کام کے لیے وقت نکالتے ہیں اور کام کے وقت کام اور سکون کے وقت صرف سکون کرتے ہیں،مثلاً جاپان کی بات کریں تو وہاں اگر صبح نو بجے دفتر کا وقت شروع ہوتا ہے تو تمام سٹاف آدھا گھنٹہ پہلے پہنچ جاتا ہے اور شام کو اگر چھ بجے چھٹی ہوتی ہے تب بھی لوگ سات یا آٹھ بجے سے پہلے نہیں نکلتے۔ بظاہر اس میں دبائو کا عنصر دکھائی دیتا ہے لیکن اگر یہ واقعی دبائو ہوتا تو جاپانی دنیا کی سب سے طویل العمر قوم نہ ہوتی۔ جاپان میں غالباًلوگ پینسٹھ برس کی عمر میں ریٹائر ہوتے ہیں اور یہاں سے ان کا دوسرا جنم شروع ہوتا ہے کیونکہ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ انہیں مزید چالیس سے ساٹھ برس زندہ رہنا ہے؛ چنانچہ وہ اس زندگی کو بھرپور انجوائے کرتے ہیں۔ جاپان کے افراد ریٹائرمنٹ سے قبل ہی نجی کمپنیوں کو درخواستیں بھیجنا شروع کر دیتے ہیں تاکہ ریٹائر ہونے کے بعد ایک دن بھی گھر نہ بیٹھیں اور متحرک رہ کر اپنی صحت برقرار رکھ سکیں۔
دنیا میں بہترین ورک لائف بیلنس کے حوالے سے ڈنمارک پہلے نمبر پر ہے۔ڈنمارک میں دفاتر میں بہت زیادہ دیر کام کرنے کو مضرِ صحت خیال کیا جاتا ہے جو دماغ پر دبائو میں اضافے کے ساتھ ساتھ جسمانی صحت کو بھی برباد کر دیتا ہے۔ڈنمارک میں کام کرنے والے صرف دو فیصد افراد معمول سے ہٹ کر یا دیر تک کام کرتے ہیں۔ باقی 98 فیصد ورک لائف بیلنس کو لے کر چلتے ہیں اور اتنا ہی وقت کام کرتے ہیں جتنا ان کی صحت برداشت کر سکے۔کام سے واپس آنے کے بعد وہ اپنا وقت ٹی وی یا موبائل وغیرہ پر نہیں ضائع کرتے بلکہ سب سے پہلے یوگا‘ ورزش یا سوئمنگ کرتے ہیں‘ پھر جو وقت بچتا ہے وہ اپنے عزیزوں اور دوستوں کو وقت دیتے ہیں‘کتابیں پڑھتے ہیں اور نئی معلومات اکٹھی کرتے ہیں۔ ویک اینڈ پر دو دن کسی پُر سکون جگہ پر گزارتے ہیں، کیمپنگ کرتے ہیں، سمندر کا رخ کرتے ہیں، پہاڑوں پر چڑھتے ہیں، والی بال‘ فٹ بال جیسی کھیلیں کھیلتے ہیں جن سے ان کے جسم سے پسینہ خارج ہو اور انہیں زوروں کی بھوک لگے۔ وہ سال میں دو مرتبہ دس بارہ دن کے لیے طویل چھٹیوں پر جاتے ہیں اور دفتری زندگی اور دبائو سے بالکل آزاد ہو کر فطرت کے ساتھ وقت گزارتے ہیں اور جب واپس لوٹتے ہیں تو بالکل فریش ہو کر کام کا آغاز کرتے ہیں۔
دوسرے نمبر پر سپین ہے جہاں صرف 8 فیصد افراد آٹھ گھنٹے سے زیادہ کام کرتے ہیں۔ باقی 92فیصد ورکرز ایک دن میں اوسطاً سولہ گھنٹے اپنی ذات کو دیتے ہیں۔اپنی صحت اور اپنے لائف سٹائل کو بہتر کرنے کے لیے وہ مختلف ایکٹوٹیز میں حصہ لیتے ہیں۔ سپین دنیا کے صحت مند ترین ممالک میں شمار ہوتا ہے جہاں لوگ اپنی غذا میں پروٹین کا بکثرت استعمال کرتے ہیں کیونکہ پروٹین ان کے عضلات یعنی مسلز کو مضبوط کرتا ہے جس کی وجہ سے وہ چاق و چوبند اور توانا رہتے ہیں۔سپین میں صرف 52 فیصد لوگ گاڑی چلانے کے شوقین ہیں۔ 37 فیصد اپنے دفاتر وغیرہ کیلئے پیدل یا سائیکل پر جانا پسند کرتے ہیں۔آپ حیران ہوں گے کہ یہ ایسا یورپی ملک ہے جہاں باپ‘ دادا‘ پردادا اور پوتا ایک ہی چھت تلے رہتے ہیں اور اگر گھر چھوٹا پڑ جائے تو یہ لوگ الگ الگ رہنے کے باوجود ایک دوسرے سے ملتے جلتے رہتے ہیں۔یہ جم جانے سے زیادہ پیدل چلنے کو ترجیح دیتے ہیں اور خوراک میں سبزیاں اور پھل ضرور شامل کرتے ہیں۔ورک لائف بیلنس کی فہرست میں نیدر لینڈ تیسرے نمبر پر ہے جہاں لوگوں کو طویل مشقت میں کوئی دلچسپی نہیں۔صرف 0.5فیصد لوگ ضرورت سے زیادہ کام کرتے ہیں۔اس ملک میں بیروزگاری نہ ہونے کے برابر ہے اسی لیے لوگ خوش اور مطمئن زندگی بسر کرتے ہیں۔چوتھے نمبر پر بلجیم ہے جہاں صرف 5 فیصد لوگ زیادہ دیر تک کام کرتے ہیں۔ بلجیم کے پبلک سروس سوشل سکیورٹی ادارے کی جانب سے سروے کئے جاتے ہیں اور لوگوں سے کام کے دبائو اور دیگر متعلقہ معاملات پر رائے لی جاتی ہے اور یوں سرکاری اور نجی اداروں میں کام کے اوقات اور ذمہ داریوں کا تعین اس طرح کیا جاتا ہے کہ کسی ایک ورکر پر بھی ضرورت سے زیادہ بوجھ نہیں پڑتا اور تمام لوگ ایک جیسے ماحول میں بغیر دبائو کے کام کرتے اور بہترین زندگی گزارتے ہیں۔پانچویں نمبر پر ناروے ہے جہاں محض 3 فیصد افراد معمول سے ہٹ کر کام کرتے ہیں۔ مرد اوسطاً روزانہ پندرہ گھنٹے جبکہ خواتین 16 گھنٹے اپنی ذات کیلئے مختص رکھتی ہیں‘ فارغ اوقات میں یہ لوگ یاروں ‘دوستوں سے ملتے ہیں‘ نئے دوست بناتے ہیں یوں ان کے حلقہ احباب کے ساتھ ساتھ ان کی سوچ اور تعلقات کا دائرہ بھی وسیع تر ہوتا جاتا ہے۔ یہ ایک دوسرے کے تجربات سنتے اور ان سے سیکھتے ہیں۔ ناروے میں خواتین کی اوسط عمر 84 برس جبکہ مردوں کی 81برس ہے اور بہترین ورک لائف بیلنس اس کی بنیادی وجہ ہے۔
پاکستان میں کیا ہوتا ہے یہ سب جانتے ہیں۔ کام کرتے ہوئے کسی بندے سے اگر آپ کہہ دیں کہ چلو یار تھوڑی دیر کے لیے باہر واک کرتے ہیں تو وہ آپ کو ایسے گھورے گا جیسے آپ نے اس کے دونوں گردے سالم مانگ لیے ہوں۔یہاں لوگ کبھی کسی سیاحتی مقام پر چلے جائیں تو اگلے پانچ برس اس کی تصاویر دیکھنے پر ہی اکتفا کرلیتے ہیں۔ 99 فیصد نوجوان اگر کبھی کوئی جم جوائن کر ہی لیں تو ایک ماہ بعد ہی چھوڑ دیتے ہیں۔دفاتر میں کام کا دبائو اتنا ہوتا ہے کہ گھر کو بھی دفتر بنائے رکھتے ہیں حتیٰ کہ اگر کسی چھٹی یا عید کے دن سیر پر نکل جائیں تو بھی کام کے دبائو سے متعلق ہی باتیں کرتے رہتے ہیں یوں وقت اور سیر دونوں کا مزا ضائع کردیتے ہیں۔یہ ایسے عجیب لوگ ہیں کہ کام کے وقت سیر و تفریح کا سوچتے ہیں اور سیر کرتے ہوئے یہ سوچتے رہتے ہیں کہ کل پھر کام پر جانا ہے۔اگر یہ کام کے وقت ڈٹ کر کام اور سیر و تفریح کے وقت صرف انجوائے کو فوکس کریں تو ان کی کتنی ہی الجھنیں اور بلاوجہ کی پریشانیاں کم ہو سکتی ہیں۔