"ACH" (space) message & send to 7575

ماضی کے اوراق

پیر کے روز فیس بک‘ وٹس ایپ اور انسٹاگرام کی سروسز میں کچھ دیر کا تعطل آیا تو گویا کاروبار حیات ہی رُک گیا۔ جو لوگ ان ایپس کو محض وقت گزاری کیلئے استعمال کرتے ہیں‘ وہ بھی خشکی پر مچھلی کی طرح تڑپتے نظر آئے لیکن ضروری کام اور آن لائن کاروبار کرنے والوں کیلئے تو یہ کڑا وقت تھا۔ خود فیس بک کے بانی مالک مارک زکربرگ کی ذاتی دولت میں اس بریک ڈائون سے سات ارب ڈالر سے زائد کمی آگئی۔ اس نقصان کی وجہ سے دنیا کے امیر ترین افراد کی درجہ بندی میں وہ بل گیٹس سے ایک نمبر پیچھے چلے گئے۔ چونکہ فیس بک نے وٹس ایپ کو بھی خرید لیا ہوا ہے اور انسٹاگرام بھی فیس بک کی ہی کمپنی ہے اس لئے اس نقصان کا دائرہ قدرے وسیع ہوگیا۔ یہ سوشل میڈیا سروسز صرف چھ گھنٹے بند رہیں جس پر مارک زکربرگ نے معافی بھی مانگی۔ انٹرنیٹ اور ڈیجیٹل ورلڈ میں اس طرح کے مسائل غیرمعمولی نہیں ہیں۔ اربوں افراد کا ڈیٹا محفوظ رکھنے اور اس کی ترسیل کیلئے جو ڈیٹا سنٹرز بنے ہوئے ہیں ان کی لمحہ بہ لمحہ حفاظت کیلئے اربوں روپے لگائے جاتے ہیں۔ پھر ہیکرز اور غیرقانونی طور پر حملے کرنے والے افراد ایسی معروف ویب سائٹس اور ایپس کی تاک میں رہتے ہیں۔ بعض اوقات ایسے حملے دیگر حریف کمپنیاں بھی کرواتی ہیں تاکہ لوگ ان کی ایپس کی طرف متوجہ ہو سکیں۔ چند ماہ قبل بھی وٹس ایپ میں کوئی خرابی پیدا ہوئی تھی جس پر بڑی تعداد میں ٹیلی گرام‘ سگنل اور ان جیسی دیگر ایپس کو ڈائون لوڈ کیا گیا تاکہ بیک اپ کی صورت میں دنیا کے ساتھ رابطہ برقرار رکھا جا سکے۔ اسی وجہ سے ٹیلی گرام سب سے زیادہ ڈائون لوڈ کی جانی والی ایپس کی درجہ بندی میں 56ویں سے چھٹے نمبر پر آ گئی ہے۔
سوشل میڈیا سروسز کی بحالی کے اگلے روز ہمارے دوست بشارت حمید نے اپنی فیس بک وال پر لکھا کہ جس رات سوشل میڈیا سروسز بند ہوئیں اس رات ہم نے آٹھ بجے کھانا کھایا اور نو بجے عشا کی نماز پڑھ کر سوگئے۔ بشارت صاحب نے وہ وقت یاد کرا دیا جب واقعی ہم رات کا کھانا سات آٹھ بجے کھاتے تھے، پی ٹی وی پر ڈرامہ دیکھتے‘ نماز پڑھتے اور نو بجے کا خبرنامہ دیکھ کر سو جاتے۔ دس بجے تک خبریں وغیرہ مکمل ہو جاتیں اور آخری پروگرام فرمان الٰہی ہوتا جس میں قرآن کی مختصر تلاوت اور ترجمہ نشر کیا جاتا۔ اس کے بعد ٹی وی بند کرنے اور سونے کے سوا کوئی چارہ نہ رہتا کیونکہ کوئی اور چینل تو ہوتے نہیں تھے کہ ریموٹ سے بدل لیے جاتے۔ ڈِش کا رواج بھی بعد میں آیا۔ زیادہ سے زیادہ وی سی آر تھے وہ بھی ہر گھر میں نہ تھے اور ویسے بھی وی سی آر پر فلم لگانا ایک الگ ٹینشن ہوتی کہ پہلے بازار جائو‘ کرائے پر ویڈیو کیسٹ لے کر آئو۔ پھر مزید خدشات کہ اس کا پرنٹ کیسا ہو۔ وی سی آر کا ہیڈ خراب نہ ہو جائے۔ اگلے روز فلم واپس نہ کی تو ایک دن کا مزید کرایہ پڑ جائے گا۔ اس طرح رات کو دس بجے ٹی وی بند ہو جاتا تھا۔ زیادہ سے زیادہ کتابیں‘ ناول‘ جاسوسی کہانیاں اور ڈائجسٹ ہوتے تھے جنہیں آپ رات کو سونے سے پہلے پڑھ سکتے تھے۔ اب ان سوشل میڈیا ایپس کی وجہ سے دن اور رات کی تو تمیز ہی ختم ہو گئی ہے۔ دن اور رات کی تو چھوڑیں‘ بڑے چھوٹے‘ اپنے اور غیر کا فرق بھی اس کے غیر ضروری اور طویل استعمال کی وجہ سے ختم ہوتا جا رہا ہے۔ مصیبت یہ ہے کہ بچے ہمیشہ بڑوں کو دیکھ کر سیکھتے ہیں نہ کہ ان کے لیکچر کو سن کر اپنی عادتیں بدلتے ہیں۔ اب بڑے جب خود ہی موبائل فون سے بندھے دکھائی دیں گے تو بچوں کو کون سمجھائے گا۔ بڑوں کی بھی مجبوری ہے کہ جن لوگوں کا کام ہی انٹرنیٹ سے متعلق ہے‘ انہیں یہ گیجٹس استعمال کرنے ہی پڑتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ کچھ لوگ اسے بلاوجہ اپنی زندگی کا حصہ بنائے ہوئے ہیں۔ انہوں نے سینکڑوں چینل اور ویب سائٹس کی سبسکرپشن لی ہوتی ہے کہ سبسکرپشن میں کون سے پیسے لگتے ہیں ایک بٹن ہی تو دبانا ہوتا ہے لیکن ایسا کرنے سے موبائل فون ہر منٹ دو منٹ بعد نوٹیفکیشن بھیجتا رہتا ہے اور دیکھنے والا دیکھے بغیر نہیں رہتا کیونکہ کسی نہ کسی طرف سے مسالہ دار مواد مل ہی جاتا ہے۔
اب مگر دنیا نے اس سے آگے کی طرف بڑھنا ہے۔ واپسی کا اب کوئی راستہ نہیں۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ یہ ساری سروسز بند ہو جائیں اور ہم اسی یا نوے کی دہائی جیسی زندگی گزارنے لگیں۔ اب تو سرکار میں بھی ڈھونڈ ڈھونڈ کر ایسے محکمے‘ ایسے شعبے اور ایسی خدمات تلاش کی جاتی ہیں جو مینوئل طریقے سے چل رہی ہیں اور پھر انہیں کمپیوٹرائزڈ اور آن لائن کرنے کے منصوبے بنائے جا رہے ہیں۔ اس میں عوام اور اداروں دونوں کیلئے سہولت کا سامان موجود ہے کیونکہ جہاں لوگوں کو ٹوکن ٹیکس کی ادائیگی کیلئے ایکسائز کے دفاتر جانا پڑتا تھا بلکہ بعض اوقات دوسرے صوبوں کے ڈاک خانوں کے چکر کاٹنے پڑتے تھے اب یہ سارا کام ایک ای پے ایپ کے ذریعے ایک کلک پر ہو جاتا ہے۔ پہلے ایک شہر سے دوسرے شہر یا اسی شہر میں ہی کسی کو کوئی اطلاع دینا ہوتی اور وہاں فون نہ ہوتا تو ڈاک خانے جاکر خط پوسٹ کرنا پڑتا تھا‘ اب ای میل بلکہ وٹس ایپ یا میسنجر پر پلک جھپکتے تحریر‘ تصویر حتیٰ کہ ویڈیو تک پہنچ جاتی ہے۔ اس لئے آن لائن تعطلی کے مسائل آنے کے باوجود اب کوئی بھی یہ نہیں چاہے گا پرانا دور واپس آ جائے ہاں البتہ ان سروسز اور ایپس کو اپنے نظام میں مزید بہتری لانا پڑے گی وگرنہ صارف دوسری ایپس کی جانب راغب ہو جائے گا۔ لوگ ہر سروس بلاتعطل چاہتے ہیں۔ پھر چاہے وہ بجلی کی ترسیل ہو‘ انٹرنیٹ سے آن لائن آرڈر کیا گیا کھانا ہو یا کوئی موبائل ایپ‘ سب لوگ ڈسپوزیبل قسم کی زندگی کے عادی ہو چکے ہیں۔ انتظار کرنے کی عادت تو ویسے ہی یہاں نہیں ہے البتہ آج کے جدید ترین دور میں بھی ماضی کی یادیں سر اٹھاتی رہتی ہیں کہ اس میں ٹھہرائو بھی تھا اور سکون بھی۔ ایسی نفسانفسی کا عالم کبھی نہ تھا۔ روزانہ نہ سہی ہفتے بعد ہی سہی چار لوگ مل کر ضرور بیٹھتے تھے۔ گپ شپ لگاتے۔ ایک دوسرے کا حال چال معلوم کرتے۔ ادبی نشستیں ہوتیں۔ پھر اس وقت باغات اور کھیل کے میدان آباد تھے۔ بلڈ پریشر اور شوگر کے مریض خال خال تھے۔ خوشی کے چھوٹے مواقع کو بھی دل بھر کے انجوائے کیا جاتا تھا۔ بچے زیرو کاٹا اور پکڑاً پکڑائی کھیل کر ہی خوش ہو جایا کرتے تھے اور آج نت نئے پلے سٹیشنز سے بھی خوشی نہیں ہوتے کیونکہ آج ترجیحات اور فکریں ہی بدل گئی ہیں۔ باغات ویران پڑے ہیں اور لوگ موبائل لیے صوفوں پر اوندھے پڑے ہیں۔ دوست ساتھ بیٹھا ہوتا ہے‘ ماں باپ ایک ہی چھت تلے ہوتے ہیں اور انسان موبائل پر دنیا کے دوسرے کونے میں بیٹھے کسی انجان سے راہ و رسم بڑھانے کی کوشش کررہا ہوتا ہے۔ انٹرنیٹ آیا تو مسئلہ یہ تھا کہ کیسے اس میں سے مطلوبہ معلومات تلاش کریں۔ اب معلومات کا سیلاب اتنا شدید ہے کہ اسے روکنا مسئلہ بنا ہوا ہے۔ کس کی سنیں کس کی نہ سنیں‘ کون سچ کہہ رہا ہے کس پر اعتبار کریں‘ کون سی ویڈیو اصلی ہے کون سی تصویر کون سی خبر فوٹو شاپ کی گئی ہے‘ زیادہ وقت تو یہی چیزیں لے جاتی ہیں۔ ایسے میں سکون کے چند لمحات شاید تب ہی آتے ہیں جب عالمی سطح پر انٹرنیٹ یا اس سے جڑی سروسز کچھ دیر کیلئے بند ہوتی ہیں اور ایسا ہوتا ہے تو ماضی کے اوراق میں جھانکنے کا نادر موقع بھی میسر آ جاتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں