"ACH" (space) message & send to 7575

Me vs Me, You vs You

ہمارا اصل مقابلہ ہے کس سے‘یہ ہمیں سمجھ آ جائے تو ہمارا بڑا مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔ ہم میں سے ہر کوئی دوسرے کے ساتھ مقابلے بازی میں لگا ہے۔وہ وہاں کیسے پہنچا‘ اس نے یہ مقام کیسے حاصل کیا‘ وہ ایسے کرتا ہے مجھے بھی ایسے کرنا چاہیے‘ وہ فلاں کام نہیں کرتامجھے بھی نہیں کرنا چاہیے‘ اس نے فلاں جگہ سے سیکھا مجھے بھی وہیں جانا چاہیے‘ دیکھا دیکھی کی اس دوڑ میں ہم ایسے لگے ہیں کہ اپنا مقصد تو دُور کی بات اپنے گھر کا رستہ ہی بھول جاتے ہیں۔دنیا میں جتنے بھی لوگ زمین سے اٹھے اورآسمان کی بلندیوں تک پہنچے‘ کسی ایک نے بھی یہ کام نہیں کیا ہو گا جو ہم کرتے ہیں۔ ان کی اپنی زندگی تھی۔ ان کا اپنا دماغ‘ اپنا جسم‘ اپنے جذبات اور اپنے مقاصد تھے۔ ان کا سب سے بڑا حریف وہ خود تھے۔ ان کا حریف ان کا اپنا گزرا ہوا کل‘ گزرا ہوا مہینہ اور گزرا ہوا سال تھا۔ وہ دیکھتے تھے انہوں نے کل کا دن کیسے گزارا‘کیا نیا کیا‘کیا حاصل کیا‘ کیا کھویا اور کیا غلطیاں کیں۔ پھر اگلا دن آیا‘ انہوں نے اس کا گزرے ہوئے دن سے موازنہ کیا۔ دیکھا کوئی امپروومنٹ ہوئی ہے یا پھر سب کچھ ویسا ہی چل رہا ہے؟ کوئی نوٹس بھی کر رہا ہے یا نہیں؟ ان کے پورٹ فولیو میں کچھ اضافہ ہو رہا ہے یا نہیں؟ جب مہینہ گزر گیا تو اس کا گزشتہ ماہ سے موازنہ کیا۔ کسی اور انسان کے گزرے ہوئے ماہ سے نہیں بلکہ اپنے گزارے ہوئے وقت سے۔ اسی طرح جب سال گزر گیا تب بھی دیکھا کہ میرے پاس کیا ہے جو پچھلے سال نہیں تھا۔ اس سے پچھلے سال کیا تھا۔ یہ موازنہ کرتے کرتے پھر ایک دن ایسا آیا کہ ان کی زندگی میں واضح تبدیلی آنا شروع ہو گئی ‘ دنیا کو ان کا کام ان کا نام دکھائی دینے لگا۔ فیس بک کے بانی مارک زکر برگ جب فیس بک کو بنانے میں لگے تھے تو انہوں نے اپنا مقابلہ گوگل یا مائیکروسافٹ کے ساتھ کبھی نہیں کیا تھا۔ وہ اپنا ہر دن پہلے سے بہتر بنا رہے تھے۔ اپنی کمپیوٹر پروگرامنگ میں دن بدن نئی چیزیں متعارف کروا رہے تھے۔ آج بھی جب وہ دن کا آغاز کرتے ہیں تو یہ نہیں دیکھتے کہ فلاں کمپنی کل کیا تھی اور آج کہاں پر ہے‘ بلکہ یہ دیکھتے ہیں کہ گزرتے ہوئے کل میں ان کے پلیٹ فارم کو کتنے نئے لوگوں نے جوائن کیا‘ کون سی نئی چیزیں فیس بک نے اپنے صارفین کے لئے متعارف کروائیں اور صارفین پرسوں ان کے بارے میں کیا سوچ رہے تھے اور آج کیا سوچ رہے ہیں‘ ان معلومات کی بنیاد پر وہ دن شروع کرتے ہیں اور اسی کے حساب سے آگے کی پلاننگ کرتے ہیں۔
دنیا میں ہر کوئی دوسرے سے مختلف ہے۔ سات آٹھ ارب لوگ ہیں لیکن کسی کی دوسرے سے شکل تک نہیں ملتی۔ اگر ایک ہی گھر میں دو بھائی یا بہنیں ہُوبہُو پیدا ہو بھی جائیں تو ایک ہی والدین کے بچے اور ایک ہی گھر میں ہوتے ہوئے بھی ان کے خیالات‘ ان کی تقدیر ایک دوسرے سے نہیں ملتی۔ ان کی پسند بھی ایک جیسی نہیں ہوتی۔ ایک چھت تلے پیدا ہونے کے باوجود دونوں آگے چل کر اپنی اپنی تقدیر کا لکھا حاصل کرتے ہیں۔اسی طرح دنیا کے ہر خطے میں لوگوں کو مختلف ماحول اور مختلف سہولیات ملتی ہیں۔ ایک ہی یونیورسٹی سے پڑھے ہوئے ایک ہزار لوگوں میں سے ایک ایسا ہوتا ہے جس کے نمبر سب سے زیادہ ہوتے ہیں لیکن عملی زندگی میں وہ معمولی نوکری ہی لے پاتا ہے‘ دوسری جانب اسی یونیورسٹی میں ایک اوسط نمبر لینے والا ہوتا ہے جو اسی کی کمپنی کا سی ای او بن جاتا ہے۔ اگر یہی شخص یہ سوچتا ہوا پریشان رہتا کہ وہ یونیورسٹی میں اول یا نمایاں پوزیشن نہیں لے سکا اس لئے شاید وہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکے گا اور اگر وہ یہ سوچتا کہ اس میں وہ خوبیاں نہیں ہیں جو اول آنے والے طالب علم میں تھیں تو پھر وہ سی ای او بننا تو دُور کی بات ایک عام اور نارمل زندگی بھی نہ گزار پاتا۔ اچھی زندگی گزارنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم صرف اپنی کمزوریوں اور اپنی ہی کامیابیوں پر نظر رکھیں کیونکہ جب ہم دوسروں کی خامیاں دیکھنے میں لگ جاتے ہیں تو اپنی کامیابیوں سے توجہ ہٹا لیتے ہیں حتیٰ کہ ہمیں خود کو بہتر بنانے کے لئے وقت ہی نہیں ملتا۔انسان میں دو قسم کی صلاحیتیں ہوتی ہیں‘ ایک خداداد اور دوسری جو انسان خود اپنے اندر پیدا کرتا ہے۔ ان دونوں کی تلاش اور ان کا استعمال بہت بڑا فن ہے۔ان صلاحیتوں پر خدا کا شکر ادا کریں جو آپ کو ورثے میں ملی ہیں۔ یہ اچھی آواز بھی ہو سکتی ہے۔اچھی تحریر‘ گفتگو کا سلیقہ‘عمدہ یادداشت بھی ہو سکتی ہے۔ انہیں تلاش کرنا آپ کا کام ہے ‘ لیکن اگر آپ دوسروں کی کامیابیوں یا ناکامیوں پر ہی تبصرہ کرنے میں لگے رہیں گے تو اپنی خوبیوں اور صلاحیتوں کو کب وقت دے پائیں گے؟ کئی لوگ جنہیں خدا نے کروڑوں لوگوں سے بہتر عطا کیا ہوتا ہے اس کے باوجود وہ اس طرح کے احساس کمتری کا شکار رہتے ہیں مثلاًفلاں کے پاس بڑا گھر ہے‘ وہ پوش علاقے میں ہے جبکہ میرا عام آبادی میں ہے۔اسی طرح بعض لوگ یہ سوچتے دبلے ہوئے جاتے ہیں کہ فلاں شخص کا ڈیل ڈول اور قدوقامت انتہائی جاذب نظر ہے جبکہ میں ایسا نہیں ہوں۔کچھ لوگوں کو یہ غم کھائے جاتا ہے کہ فلاں کے سوشل میڈیا پر لاکھوں فالورز ہیں‘ ہزاروں لائکس انہیں ملتی ہیں لیکن مجھے کوئی فالو نہیں کرتا۔ اس طرح کے موازنے انسان کو ذہنی دبائو کے علاوہ کچھ نہیں دے سکتے۔ پھر یہ بھی ہوتا ہے کہ بعض اوقات بظاہر ایک انسان کو دوسرے کے بارے میں جو کچھ دکھائی دے رہا ہوتا ہے ویسا اصل میں ہوتا نہیں۔ جس شخص کے پاس اگر تین مرلے کا مکان ہے تو چار کنال کے عالیشان بنگلے کو دیکھ کراسے یہی خیال آتا ہے کہ یہ بڑا گھر ہے تو یقینا یہ لوگ بہت زیادہ خوش ہوں گے۔ یہ اس لئے ضروری نہیں کہ ہر شخص کے بکھیڑے بھی اسی حساب سے بڑھتے جاتے ہیں۔ ایسے بہت سے بڑے گھروں کے مکین اپنے کوارٹر میں موجود ڈرائیو یا خانساماں کی فیملی کو آپس میں ہنستے کھیلتے دیکھتے ہیں تو سوچتے ہیں کہ ہمارے پاس تو اتنا بڑا بنگلہ ہے‘ گاڑیاں اور زمینیں ہیں لیکن ہم تو کبھی مل کر بھی نہیں بیٹھے اور نہ ہی اس طرح کھل کر ہنس پاتے ہیں جیسے یہ غریب لوگ خوش ہیں؛چنانچہ کسی دوسرے کے ساتھ مقابلہ یا موازنہ کرنے سے انسان بلاوجہ ٹینشن کا شکار رہتا ہے۔ قدرت کا یہ نظام اصولوں کے تحت ہی چل رہا ہے۔ ہر شخص کے پاس ایسے کچھ نہ کچھ وسائل یا ذرائع ہوتے ہیں جنہیں استعمال کر کے وہ آگے بڑھ سکتا ہے تاہم دوسروں کے بارے میں بہت زیادہ سوچنے سے انسان کی مت ماری جاتی ہے اور وہ اپنے سرہانے پڑی کسی ایسی نعمت کو بھی پہچان نہیں پاتا جس کے ذریعے وہ خود کو بہتر بنا سکتا ہے اور اپنا آج بہتر کل میں تبدیل کر سکتا ہے۔
اگر دوسروں کے بارے میں غور کرنا چاہیے تو ایک چیز پر اور وہ ہے وقت۔ ہم جن لوگوں کے بارے میں بیٹھے بٹھائے رائے قائم کر دیتے ہیں ان کے پاس بھی دن کے چوبیس گھنٹے ہوتے ہیں اور ہمارے پاس بھی۔ ہم ان چوبیس گھنٹوں میں کیا کرتے ہیں ہمیں اس کا موازنہ ان سے ضرور کرنا چاہیے۔ ہم کتنا وقت ضائع کرتے ہیں‘ کتنا سوتے ہیں‘ کتنا پڑھتے ہیں‘ کتناسوشلائز کرتے ہیں اور کتنا وقت سیکھنے میں لگاتے ہیں‘ اس بارے میں البتہ ہم اپنا موازنہ دوسروں کے ساتھ ضرور کر سکتے ہیں کیونکہ وقت کا بہترین استعمال کامیابی کی پہلی سیڑھی ہے اور بدقسمتی سے ہم میں سے اکثر پہلی سیڑھی پر ہی پائوں نہیں جما پاتے‘ ہم پہلی سیڑھی سے ہی پھسل جاتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں