وقت کے ساتھ صحافت جہاں جدید دور میں داخل ہو چکی ہے اور رپورٹنگ اور نیوز کے نئے اور جدید ذرائع سامنے آ رہے ہیں وہاں صحافیوں کی تعداد اور ان کو درپیش خطرات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ صرف پاکستان کی بات نہیں بلکہ ان خطرات کا سامنا دنیا بھر کے صحافیوں کو ہے کیونکہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے آنے کے بعد صحافت کی شکل یکسر تبدیل ہو چکی ہے اور نوجوانوں کی بڑی تعداد صحافت سے منسلک ہو رہی ہے۔ کیمروں والے موبائل فون اور تیز ترین انٹرنیٹ کی وجہ سے ایسے مقامات سے بھی لائیو آڈیو ویڈیو رپورٹنگ ممکن ہو چکی ہے جہاں سے گمان بھی نہیں کیا جا سکتا تھا اور ایسے واقعات کی رپورٹنگ بھی ہوتی ہے جن کا احاطہ کرنا ماضی میں ناممکن یا مشکل تھا؛ تاہم صحافت بالخصوص تجزیاتی صحافت اور رپورٹنگ آسان پیشہ نہیں۔
پاکستان کی بات کریں تو انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹ کی 2020ء کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ 30 سالوں میں دنیا بھر میں جو صحافی قتل ہوئے ان میں عراق، میکسیکو اور فلپائن کے بعد پاکستان چوتھے نمبر پر ہے جہاں اس عرصے میں 138 صحافیوں کو قتل کیا گیا۔ جان کو خطرات کے علاوہ بھی صحافیوں کے کئی مطالبات تھے جن میں سے اہم ترین ذرائع کو ظاہر کرنے یا نہ کرنے کے حوالے سے ان پر آنے والا ممکنہ دبائو تھا۔ صحافیوں کو دھمکیاں دی جاتی تھیں اور انہیں ناجائز مقدمات میں اس لیے پھنسایا جاتا تھا کہ انہیں اپنی خبر کا ذریعہ بتانے پر آمادہ کیا جائے۔ اسی طرح صحافیوں کو کام کرنے کی آزادی‘ ان کی تنخواہوں اور دیگر معاملات سے متعلق بھی ایک عرصے سے بحث جاری تھی اور مختلف حکومتوں میں کئی طرح کی تجاویز بھی سامنے آئیں‘ لیکن عملی طور پر کوئی ایسا متفقہ حل یا بل پیش نہ کیا جا سکا جس میں صحافیوں اور صحافت کو تحفظ دینے اور انہیں آزادیٔ اظہار رائے کا حق دینے کی بات کی گئی ہو۔ زیادہ تر حکومتوں کی تو یہی کوشش رہی کہ صحافیوں کو دبا کر رکھا جائے تاکہ وہ حکومتوں کے خلاف نہ تو سکینڈل بریک کر سکیں اور نہ ہی ان کی مرضی کے خلاف کوئی خبر دے سکیں۔ نائن الیون کے بعد ملک میں جب دہشت گردی کا سلسلہ شروع ہوا تو یہ ملکی اور غیر ملکی صحافیوں کیلئے ایک کڑا وقت تھا۔ انتہا پسند تنظیمیں اپنے خلاف چھپنے والے مواد یا ٹی وی ٹاک شوز کے تجزیوں اور خبروں پر بھی صحافیوں کو نشانہ بنانے لگیں۔ اس دوران درجنوں صحافی فرائض کی انجام دہی کے دوران جاں بحق ہوئے اور بہت سوں کو اغوا کرکے تشدد کیا گیا۔ ایک صحافی کو یہ پیغام موصول ہوا کہ آپ کی دنیا بھی خراب ہو گئی ہے اور آخرت بھی۔ اب اپنا بندوبست کر لیں۔ چند برس قبل ٹیلیفون کے ذریعے پشاور کے ایک صحافی کو ایک شدت پسند تنظیم سے یہ پیغام ملا تو اس کے بعد نہ چاہتے ہوئے بھی اس کو اس تنظیم کے سربراہ کے پاس جا کر اپنی پوزیشن واضح کرنا پڑی جس کے بعد اس کی جان بخشی ہوئی۔ یہ بات بھی مسلمہ ہے کہ صحافیوں کو جنگ کے میدان میں بھی ہر طرح کا تحفظ حاصل ہوتا ہے لیکن عملی طور پر خطرات مگرمچھ کی طرح منہ کھولے ان کی تاک میں ہوتے ہیں اور ان کے ساتھ کسی بھی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے۔
گزشتہ تین چار برس سے کہ جب سے یوٹیوب کو پاکستان میں نہ صرف کھول دیا گیا بلکہ اس پر مونیٹائزیشن اوپن ہو گئی یعنی یوٹیوبرز کو آمدنی بھی ہونے لگی ہے‘ تب سے میڈیا سے وابستہ صحافیوں اور عام شہریوں نے بھی اس پر سنجیدگی سے کام شروع کر دیا ہے۔ اس سے صحافت کا دائرہ اچانک کئی گنا وسیع ہو گیا ہے۔ اس کے بعد ضروری تھاکہ ہر قسم کے صحافیوں کیلئے ایک ایسا بل لایا جائے جو انہیں نہ صرف غیر جانبداری کے ساتھ کام کرنے کی آزادی دے بلکہ فرض کی ادائیگی کے دوران پیش آنے والے جبر‘ دھونس یا دھمکی کے خلاف کوئی ایسا ٹھوس پلیٹ فارم بھی مہیا کرے جہاں سے یہ صحافی اپنے خلاف ہونے والی یکطرفہ کارروائی پر اپنا مقدمہ لڑ سکیں۔ گزشتہ دنوں صدر ڈاکٹر عارف علوی نے ایسے ہی ایک ایکٹ پر دستخط کیے جس کا ملکی صحافیوں کو ایک عرصہ سے انتظار تھا۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ جرنلسٹس اینڈ میڈیا پروفیشنلز پروٹیکشن ایکٹ 2021ء کا وفاق اور صوبوں کی تمام صحافتی تنظیموں اور پریس کلبز نے خیر مقدم کیا ہے‘ جس کے بعد ان افواہوں نے دم توڑ دیا ہے کہ حکومت صحافیوں کو اس بل کے ذریعے نئے شکنجوں میں گرفتار کرنے جا رہی ہے۔ اس ایکٹ کے تحت صحافیوں اور میڈیا پروفیشنلز کو حق رازداری بھی حاصل ہو گیا ہے جس کا ایک عرصے سے مطالبہ کیا جا رہا تھا۔ اب انہیں نجی زندگی‘ گھر اور ذاتی خط و کتابت بشمول الیکٹرانک گفت و شنید کی پرائیویسی اپنی خبر کے ذرائع کو مخفی رکھنے کا حق اورکسی بھی فرد یا ادارے کی جانب سے جبر، تشدد، خوف و ہراس، دھونس، دھمکی اور جبری گمشدگی کے خلاف تحفظ حاصل ہو گیا ہے۔ مزید یہ کہ انہیں خبر کا ذریعہ بتانے کیلئے مجبور نہیں کیا جا سکے گا۔ اسی طرح اس بل کے تحت انسداد دہشت گردی اور قومی سلامتی کے قوانین کی میڈیا پروفیشنلز کی پیشہ ورانہ سرگرمیوں کو روکنے کے خلاف ناحق استعمال کی روک تھام کی جائے گی۔ یہ اس لیے بھی ضروری تھا کہ درجنوں یا شاید سینکڑوں صحافی ایسے ہیں جن پر خبر کو روکنے یا تردید کروانے کے لیے ناجائز مقدمات جیسے مختلف ہتھکنڈوں کا سہارا لیا جاتا تھا۔ چونکہ صحافت میں زیادہ تر رپورٹرز مالی طور پر بہت زیادہ مستحکم نہیں ہوتے اس لئے ان کے خلاف تھانوں میں بلا وجہ اور بلا جواز درخواستیں دے دی جاتیں اور یوں انہیں مقدمات میں پھنسا دیا جاتا۔ بل کے مطابق صحافیوں اور میڈیا پروفیشنلز کیلئے آزاد کمیشن قائم کیا جائے گا جس میں پاکستان بار کونسل‘ پی ایف یو جے‘ نیشنل پریس کلب‘ پی آر اے‘ وزارت انسانی حقوق اور وزارت اطلاعات و نشریات کے نمائندے شامل ہوں گے۔ وفاقی حکومت کمیشن کے چیئرپرسن کا دو سال کیلئے تقرر کرے گی جبکہ کمیشن میں کم از کم تین خواتین ارکان شامل ہوں گی۔ بل کے تحت آئین کے آرٹیکل 9 کے مطابق صحافیوں اور میڈیا پروفیشنلز کی زندگی اور سکیورٹی کے حق کو یقینی بنایا جائے گا اورکوئی شخص‘ سرکاری یا نجی ادارہ ایسا اقدام نہیں کر سکے گا جس سے کسی صحافی اور میڈیا پرو فیشنلز کے حق زندگی اور حفاظت کی خلاف ورزی ہو۔ حکومت صحافیوں اور میڈیا پروفیشنلز کو جبری یا رضا کارانہ گمشدگی، اغوا یا اٹھائے جانے کے خلاف تحفظ دے گی۔ وہ بلا خوف و خطر اپنا کام کر سکیں گے، اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ ان کا حق رازداری کوئی شخص، افسر، ایجنسی یا ادارہ پامال نہ کرے۔ جس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ سوشل میڈیا پر بالخصوص ہر کوئی اٹھ کر صرف چینل کے لائکس اور آمدنی کیلئے بلا تحقیق کسی جھوٹی خبر یا الزام کو بھی دھڑا دھڑ آگے پھیلانا شروع کر دیتا ہے تو اس حوالے سے بھی ایکٹ میں کچھ اہم نکات شامل کئے گئے ہیں تاکہ لوگوں یا اداروں کی پگڑی اچھالنے کا سلسلہ تھم سکے۔
حکومت نے ایکٹ تو پیش کر دیا ہے لیکن صحافیوں کو اپنے حقائق اور اپنے فرائض کا خود بھی ذمہ داری کے ساتھ خیال رکھنا ہو گا۔ انفرادی طور پر مائیک اٹھا کر یا یوٹیوب چینل کھول کر کسی کے خلاف کچھ بھی کہہ دینا صحافت نہیں۔ انہی باتوں نے صحافت اور صحافیوں کی ساکھ خراب کی ہے؛ چنانچہ سازشی تھیوریوں یا خواہشات کو خبر بنانے اور ان پر تجزیے تبصرے کرنے سے مکمل پرہیز کرنا ہو گا تبھی جا کر صحافیوں کی ساکھ میں بہتری اور معاشرے میں تحفظ حاصل ہو سکے گا۔