افغانستان گویا آسمان سے گرا ہے تو کھجور میں اٹک گیا ہے۔ جنگ کے بادل چھٹے ہیں تو اس ملک پر مہنگائی‘ بیروزگاری‘بھوک اور بیماری کے بادل منڈلانے لگے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق آنے والے چند ماہ میں دس لاکھ افغان بچے بھوک سے مر سکتے ہیں۔ افغان کرنسی بھی تیزی سے قدر کھو رہی ہے۔ جنگ ختم ہو چکی لیکن افغانستان کی معیشت بھی اپنے ساتھ ہی ختم کر گئی۔ حالات اس قدر خراب ہیں کہ دینے والا خال خال ہی نظر آتا ہے جبکہ لینے والوں کی ہر جانب قطاریں دکھائی دیتی ہیں۔ پھر وہ چاہے ہسپتال ہوں یا لنگر خانے‘ حالات جنگ سے کہیں زیادہ خراب ہو چکے ہیں۔ نیٹو فورسز کے جانے کے بعد وہاں آنے والے بیرونی فنڈز بھی بند ہو چکے ہیں۔ سرکاری ادارے تباہ حال کھنڈرات کا منظر پیش کر رہے ہیں۔ سرکاری عمال کو تنخواہیں دینے کیلئے افغان حکومت کے پاس پیسے نہیں۔ افراتفری کا عالم ہے۔ لوگ تنخواہ کے بغیر کام کر رہے ہیں۔ پڑھے لکھے لوگ پہلے ہی افغانستان چھوڑ چکے ہیں جو رہ گئے ہیں وہ معمولی نوکریوں حتیٰ کہ خاکروب تک بننے پر مجبور ہیں لیکن وہ بھی دو وقت کی روٹی پوری نہیں کر پا رہے۔ لوگوں کے پاس علاج کیلئے رقم ہے نہ اشیائے ضروریہ خریدنے کی استطاعت۔ مغربی ممالک فنڈز جاری کرنے سے کترا رہے ہیں۔ انہیں خدشہ ہے کہ فنڈزسے طالبان حکومت مضبوط ہو جائے گی۔ اس ساری صورتحال کا نقصان وہاں کے عام عوام کو ہو رہا ہے جو جنگوں میں بھی شدید نقصان اٹھاتے تھے اور اب جنگ کے بعد بھی ان کے حالات نہیں بدلے بلکہ مزید بدتر ہو چکے ہیں۔ اس پس منظر میں گزشتہ دنوں اسلام آباد میں منعقدہ اسلامی تعاون تنظیم کی وزرائے خارجہ کونسل کا غیر معمولی اجلاس بہت اہم قرار دیا جا رہا ہے۔ پاکستان کو اس بات کا کریڈٹ جاتا ہے کہ اس نے او آئی سی ارکان کو اکٹھا کرنے اور اس اہم مسئلے پر سوچ بچار کیلئے آمادہ کیا۔ اس موقع پر او آئی سی فنڈ کے قیام کا اعلان ہوا جبکہ سعودی عرب نے ایک ارب ریال کی امداد دینے کا اعلان کیا۔ اس موقع پر جو قرارداد متفقہ طور پر منظور کی گئی اگر اس کے نکات کو یکساں اہمیت دیتے ہوئے ان پر عمل کیا جاتا ہے تو افغانستان کو تباہی کے گڑھے میں گرنے سے بچایا جا سکتا ہے۔ متفقہ قرارداد میں یہ تسلیم کیا گیا کہ افغانستان میں معاشی بدحالی مہاجرین کے بڑے پیمانے پر انخلا کا باعث بنے گی۔ اگر وہاں غربت اور بیروزگاری بڑھی تو عدم مساوات اور عدم برداشت میں بھی بے پناہ اضافہ ہو گا جس سے یہ ملک ایک مرتبہ پھر انتہا پسندی اور دہشت گردی کا گڑھ بن جائے گا اور عدم استحکام کے فروغ کے سنگین نتائج علاقائی اور بین الاقوامی امن و استحکام پر بھی پڑیں گے اور اس سے پاکستان سمیت درجنوں ممالک براہِ راست متاثر ہوں گے۔ قرارداد میں اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ افغانستان کا مسئلہ علاقائی مسئلہ نہیں رہا بلکہ یہ عالمی مسئلہ بن چکا ہے اور اس کا حل بھی دنیا کو مل کر ہی نکالنا پڑے گا۔ قرارداد میں افغانستان کی مدد کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے انسانی امداد کی فوری فراہمی کیلئے بین الاقوامی برادری‘ پڑوسی ممالک‘ڈونر ایجنسیوں اور دیگر بین الاقوامی اداروں کو اپنی اپنی استطاعت کے مطابق کوششیں کرنے پر بھی زور دیا گیا۔ بحران پر قابو پانے کیلئے اقوام متحدہ ساڑھے چار ارب ڈالر امداد کی بڑی اپیل کرے گی۔
افغانستان کااس وقت سب سے اہم مسئلہ خوراک کی فراہمی کا ہے۔ اچھی خبر یہ ہے کہ اسلامک ڈویلپمنٹ بینک کے زیراہتمام ایک ہیومینٹیرین ٹرسٹ فنڈ قائم کرنے اور افغان تحفظ خوراک پروگرام شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جو خوراک کے بحران کو روکنے میں اہم کردارادا کرے گا۔ وزرائے خارجہ اجلاس میں پاکستان کی اس اجلاس کی میزبانی کو سراہا گیا کیونکہ پاکستان کا یہ بروقت اقدام لاکھوں افغان عوام کی زندگی بچا سکتا ہے۔ 2019 ء میں مکہ مکرمہ میں مسلم ورلڈ لیگ کی بین الاقوامی کانفرنس منعقد ہوئی تھی۔ موجودہ کانفرنس میں ورلڈ لیگ کے بارہ سو سے زیادہ نامور اسلامی سکالرز کی طرف سے اپنائے گئے مکہ اعلامیہ کا بھی اعادہ کیا گیا اور اس بات کا بھی اعتراف کیا گیا کہ ترقی‘امن‘ سلامتی‘استحکام اور انسانی حقوق ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ مسلمان ایک جسم کی طرح ہیں کہ ایک عضو کو تکلیف پہنچے تو سارا جسم اسے محسوس کرتا ہے۔ اقوام متحدہ اپنے تئیں اندازے لگا رہا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ افغانستان کی ساٹھ سے ستر فیصد آبادی کو ایک وقت کی روٹی کیلئے بھی جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ لاکھوں افراد شدید غذائی قلت کے خطرے کا شکار ہیں۔ نوزائیدہ بچے انتہائی کمزور پیدا ہو رہے ہیں۔ ان میں بڑی تعداد پیدائش کے چند روز بعد ہی خوراک اور علاج کی ضروری سہولتیں نہ ہونے کے باعث جان سے ہاتھ دھو رہی ہے۔ افغانستان کا دوسرا بڑا مسئلہ توانائی‘ ٹرانسپورٹ اور مواصلاتی منصوبوں کو جاری رکھنا ہے۔ بجلی کی ترسیل کا بھی کوئی باقاعدہ اور مناسب انتظام نہیں۔ گزشتہ دو عشرے جاری رہنے والی جنگ نے انفراسٹرکچر کو بری طرح نقصان پہنچایا ہے۔ امریکہ اور نیٹو فورسز کیلئے جو سڑکیں اور دیگر سہولتیں وضع کی گئیں وہ بڑھتی ہوئی افغان آبادی کیلئے ناکافی ہیں۔ او آئی سی اجلاس میں اقتصادی تعاون کو جاری رکھنے کی ضرورت پر زور دیا گیا اوردیگر ترقیاتی منصوبوں بشمول تاپی گیس پائپ لائن اور بجلی کی ترسیل پر عملدرآمد کیلئے نئے مواقع پیدا کرنے کی کوششیں جاری رکھنے پر اتفاق ہواتاکہ افغان عوام کی زیادہ سے زیادہ فلاح و بہبود ہو سکے۔ دنیا کے دیگر حصوں کی طرح افغانستان بھی کورونا وبا کی زد میں آیا اور دیگر ملکوں کے برعکس یہاں کورونا ویکسین کی ترسیل بھی اس رفتار سے ممکن نہ ہو سکی۔ یہی وجہ ہے کہ افغانستان کے صحت کا نظام بدحالی کی آخری حدیں عبور کر چکا ہے۔ بیماریوں میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے۔ لوگوں کو جب تک علم ہوتا ہے کہ وہ کس وبا کا شکار ہوئے ہیں ان کی جان حلق تک پہنچ چکی ہوتی ہے۔ بیماری کی تشخیص کیلئے ڈاکٹردستیاب ہیں نہ پیرامیڈیکس سٹاف کہیں نظر آتا ہے۔ بہت سے ہسپتال بند ہونے کے قریب ہیں۔ کچھ ہسپتالوں میں مخیر حضرات اپنی مدد آپ کے تحت ادویات اور علاج جاری رکھنے کی تگ و دو میں ہیں۔ شدید غذائی قلت کی وجہ سے افغان پناہ گزین ذہنی مریض بنتے جا رہے ہیں۔ ایسے میں انہیں امید کی کوئی کرن بھی دکھائی نہیں دیتی۔
اقوام متحدہ کے ہائی کمیشن برائے مہاجرین کے مطابق رواں سال جنوری اور ستمبر کے دوران پونے سات لاکھ افراد افغانستان کے اندر بے گھر ہوئے۔ اس کے علاوہ افغانستان میں تنازعات کی وجہ سے پہلے ہی اندرونی طور پر بے گھر ہونے والے افراد کی تعداد تیس لاکھ کے قریب ہے۔ لاکھوں افغان مہاجرین طویل تنازعات اور اس کے نتیجہ میں 40 برسوں پر محیط معاشی اور سماجی چیلنجوں کی وجہ سے پہلے ہی پڑوسی ممالک میں مقیم ہیں۔ پاکستان کی جانب بھی ایک عرصے سے افغان عوام کی بڑی تعداد رخ کر چکی ہے۔ وزرائے خارجہ اجلاس میں چار دہائیوں سے زائد عرصے سے لاکھوں افغان مہاجرین کی میزبانی کرنے پر پاکستان اور ایران کی مہمان نوازی کی تعریف کی گئی؛ تاہم یہاں اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ پاکستان اب مزید یہ بوجھ برداشت نہیں کر سکتا۔ اس کیلئے دیگر ممالک کو بھی آگے بڑھنا اور اپنا حصہ ڈالنا ہو گا۔ سب سے اہم یہ کہ افغان سرزمین کو کسی بھی دہشت گرد گروہ کے اڈے یا محفوظ پناہ گاہ کے طور پر استعمال نہیں ہونا چاہئے۔ اگربین الاقوامی عطیہ دہندگان‘ اقوام متحدہ کے فنڈز اور دیگر ادارے افغانستان کے فوڈ سکیورٹی پروگرام میں دل کھول کر حصہ ڈالیں تو افغانستان کو درپیش سنگین ترین بحران یعنی بھوک اور غذائی قلت پر بروقت قابو پایا جا سکتا ہے۔