جس طرح درخت جتنا پرانا ہوتا ہے اتنا ہی سایہ دار ہوتا ہے اسی طرح بزرگ اپنی زندگی کے طویل سفر میں پیش آمدہ واقعات اور تجربات کے باعث گھر والوں کو بہترین رہنمائی فراہم کر سکتے ہیں۔ بزرگو ں کا گھر میں ہونا باعث ِبرکت و رحمت ہے۔ نئی نسل چاہے کمپیوٹر ‘موبائل فون اور ٹیکنالوجی میں جتنی بھی ماہر ہو‘وہ زندگی کے بیشتر معاملات میں بڑوں اور بزرگوں کی رہنمائی کی محتاج رہتی ہے۔ بلکہ ٹیکنالوجی کے ضرورت سے زیادہ استعمال کی وجہ سے نوجوان جن ذہنی اور نفسیاتی مسائل کا شکار ہو رہے ہیں‘ ان کا علاج صرف اور صرف بزرگوں کی ان ہدایات اور اصولوں میں پنہاں ہے جن پر عمل کرنے سے انسان ذہنی و جسمانی طور پر چاق چوبند رہ سکتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ موبائل فون او ر کمپیوٹر کا غیر ضروری استعمال تو نقصان دہ ہے ہی لیکن چونکہ یہ زندگی کے ہر شعبے میں سرایت کر چکا ہے اس لیے اس کا ضروری استعمال بھی اتنا وقت لے جاتا ہے کہ انسان لامحالہ ذہنی دبائو کا شکار ہوئے بغیر نہیں رہتا۔ اگر ہم فیس بک یا سوشل میڈیا کو استعمال نہ کریں تب بھی واٹس ایپ تو ہر کسی کے استعمال میں ہے۔دوسرے نمبر پر جو چیز سب سے زیادہ نقصان دہ ہے وہ سکرین ٹائم ہے۔ یعنی وہ وقت جو آپ روزانہ سکرین پر دیکھتے ہوئے گزارتے ہیں۔ ہر سمارٹ فون کے اندر ہی یہ آپشن ہوتی ہے جس میں یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ آپ نے موبائل کو کال کرنے یا سننے کیلئے کتنی دیر استعمال کیا‘ اسی طرح آپ نے جس جس ایپلی کیشن پر جتنا وقت گزارا ہو گا آپ کو روزانہ‘ ہفتہ وار تمام رپورٹس خلاصہ کی صورت میں مل جائیں گی۔ حیرانی کی بات ہے کہ ہر شخص کا سکرین ٹائم وقت کے ساتھ بڑھ رہا ہے اور ہم اس سے لا علم ہیں۔ ایک سروے رپورٹ کے مطابق امریکی باشندے اوسطاًساڑھے تین گھنٹے روانہ موبائل کی سکرین کو دیکھتے ہیں۔اسی طرح جس شخص کے پاس سمارٹ فون ہے وہ ایک دن میں اٹھاون مرتبہ اسے اٹھا کردیکھتا ہے۔جس میں ستر فیصد دورانیہ دو منٹ سے کم ہوتا ہے جبکہ پچیس فیصد دورانیہ دو سے دس منٹ اور پانچ فیصد دورانیہ دس منٹ سے زائد ہوتا ہے۔ ایسے لوگ بھی ہیں جو دس دس گھنٹے سے زیادہ سکرین کو دیکھتے ہیں۔ ایسے لوگ مختلف عوارض کا آسان شکار ہوتے ہیں۔ گئے وقتوں میں چونکہ موبائل فون تھا ہی نہیں اس لئے کم از کم مسائل اس حد تک سنگین نہیں ہوئے تھے جتنے کہ آج ہیں۔ گھر میں ایک ٹی وی ہوتا تھا جس پر زیادہ سے زیادہ ایک ڈیڑھ گھنٹہ روزانہ صرف ہوتا۔ آہستہ آہستہ ہر کمرے میں ٹی وی آگیا اور پھر ہر ہاتھ میں موبائل فون۔اب تو بچے کھانا بھی موبائل پر کوئی ویڈیو لگائے بغیر نہیں کھاتے حتیٰ کہ باتھ روم میں بھی ساتھ لے جاتے ہیں۔ موبائل مرمت کرنے والے ایک شخص نے بتایا کہ اس کے پاس بہت سے فون ایسے فون آتے ہیں جن میں پانی چلا جاتا ہے۔کہتے ہیں موبائل کو باتھ روم میں لے گئے تھے اوروہاں پانی کے چھینٹے پڑ گئے۔ موبائل فون کی قربت کی وجہ سے ہم کھیلوں اور ورزش وغیرہ سے بہت دور ہو چکے ہیں۔ باقی کسر کورونا نے نکال دی ہے۔ اسی طرح سال میں کئی ماہ اب سموگ کی وجہ سے پارکوں میں جا کر کھیلنا بھی ممکن نہیں رہا۔ دیکھا جائے تو ہم یا تو انتہا کی طرح جا رہے ہیں یا پہنچ چکے ہیں کہ اس سے زیادہ افسوس کی بات کیا ہو گی کہ گھر کے بڑوں‘ بزرگوں کے ہوتے ہوئے بچے ان سے بات کریں نہ ان سے قصے کہانیاں سنیں بلکہ اپنی ہی دنیا میں مگن رہیں۔
مجھے یاد ہے میرے نانا جان جنہوں نے ستانوے برس کی عمر پائی‘ وہ زندگی کن اصولوں کے تحت گزارتے تھے جو انہوں نے اتنی طویل اور صحتمند عمر پائی۔ آج کل تو لوگ پچاس ساٹھ کے قریب ہی گرنے پڑنے لگتے ہیں لیکن انہوں نے ریٹائرمنٹ کے بعد گائوں میں جوڈو کراٹے‘ یوگا اور ورزش کیلئے ایک اوپن جم قائم کیا جہاں نواحی دیہات سے بھی بچے اور بڑے آتے ۔ اسی طرح ان کی عادات بھی ہم سے بہت مختلف تھیں۔ وہ اپنی زندگی سنتِ نبویؐ کے مطابق گزارتے۔ احادیث پر عمل کرتے۔ پانی بیٹھ کر پیتے۔ کھانے کے فوراً بعد او رآدھ گھنٹے تک پانی نہ پیتے۔ بھوک رکھ کر کھاتے۔ کھانے کا وقت نہ ہوتا تو سامنے ان کی پسندیدہ ڈش بھی ہوتی تو آنکھ اٹھا کر نہ دیکھتے۔ پانی کا ایک گھونٹ بھی پیتے تو کمرے میں دو تین چکر لگاتے۔ صبح کی نماز کے بعد کئی میل واک کر تے۔ تازہ ہوا میں لمبے سانس لیتے۔ بازاری اشیا سے پرہیز کرتے۔ڈھیلے ڈھالے اور صاف ستھرے کپڑے پہنتے۔ انہیں سیاحتی پرفضا مقامات بہت پسند تھے اورمیری ان سے دوستی ایسی تھی کہ ہم ہر سال مری کا پروگرام بناتے اور سیر کو نکل جاتے۔ مری کی مال روڈ ہنی مون کیلئے آئے نو بیاہتا جوڑوں یا ہم عمر نوجوانوں سے بھری ہوتی‘ ایسے میں لوگ ہمارا کمبی نیشن دیکھ کر حیران رہ جاتے۔ ہماری عمر میں پورے پچاس سال کا فرق تھا۔ اس کے باوجود ہم جب بھی ملتے دوستوں کی طرح ملتے۔ وہ اپنی نو دہائیوں پر مشتمل زندگی کے دلچسپ واقعات اور قصے سناتے اور ہم ایک دوسرے کے ہاتھوں پر ہاتھ مار کر یوں قہقہے لگاتے جیسے برسوں پرانے دوست آن ملے ہوں۔ کبھی فارغ نہ بیٹھتے بلکہ میل ملاقات یا دیگر مصروفیات کے بعد جو وقت بچتا وہ مطالعے میں صرف کرتے۔ نئی نئی کتابیں پڑھتے۔ کچھ نہ کچھ لکھنے کی بھی کوشش کرتے۔ ہر گزرنے والے کوچاہے وہ چھوٹا ہو یا بڑا‘ خود سلام کرتے‘ حال چال پوچھتے اور گھر آنے کی دعوت دیتے۔ کھیلوں کے مقابلے کرواتے تو ان میں معروف شخصیات کو مدعو کرتے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک آگاہی پھیلے۔ ان کی یہی مصروفیات ان کے کام آئیں اور میں نے کبھی انہیں بلڈ پریشر ‘ شوگر یا ذہنی تنائو جیسی بیماریوں کا شکار ہوتے نہیں دیکھا۔ آخری وقت تک مسجد پیدل چل کر جاتے۔ قرآن کی تلاوت کرتے۔ ترجمہ اور تفسیر پڑھتے۔ گائوں کے بچوں کو قرآن کی تعلیم دیتے اور دین و دنیا ساتھ لے کر چلنے کی تاکید کرتے۔
متذکرہ بالا عادات اگر آج کے بچے اور نوجوان اپنا لیں تو ان کی زندگی بھی سُکھی ہو سکتی ہے۔ ابھی نہیں اپنائیں گے تو وقت کے ساتھ مسائل بڑھتے جائیں گے۔ جتنا قدرت سے دُور ہوں گے اتنی ہی بیزاری اور بے چینی بڑھے گی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جن گھروں میں بڑے اور بزرگ موجود ہیں وہاں بھی نوجوان اور بچے اپنے روز مرہ کے مسائل کے حل کیلئے موبائل فون کا ہی سہارا لے رہے ہیں۔ شہر تو شہر دیہات بھی اس بیماری کی بری طرح لپیٹ میں آ چکے ہیں۔ سوچتا ہوں کہ دیہات میں بزرگوں کا خلا کون پُر کر پائے گا۔ آج کا انسان معلومات بہت زیادہ سن رہا ہے لیکن اس کے دماغ میں جو کچھ بھر چکا ہے وہ باہر نہیں نکل پا رہا۔ کتھارسس بہت ضروری ہے وگرنہ ایک لاوا اندر ہی اندر اُبلتا رہتا ہے ۔ اگر آپ کی طبیعت میں بے چینی رہتی ہے اور آپ کے گھر میں بزرگ نہیں ہیں تو کسی رشتہ دار کے گھر چلے جائیں اور وہاں ہر ہفتے کچھ منٹ‘ گھنٹے بزرگوں کی صحبت میں ضرور گزاریں‘ ان سے سوالات کریں‘زندگی کیاہے‘ ہم کون ہیں‘ یہاں کیوں آئے ہیں‘ ہمیں کیسے رہنا چاہیے‘کیسے بولنا‘ کیسے کھانا ‘کیسے پینا اور کیسے ملنا جلنا چاہیے یہ چھوٹے چھوٹے سوالات کریں‘ان سے زندگی کی حقیقت جاننے کی کوشش کریں اور سب سے اہم یہ کہ بزرگوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے سادہ زندگی اپنائیں تاکہ کم سے کم ذہنی اور جسمانی مسائل کا سامنا کرنا پڑے۔