وقت کے ساتھ بہت کچھ بدل رہا ہے۔ دنیا بھر میں اب کھیلوں کا تصور بھی بدل چکا ہے۔ کھیلوں کا نام سنتے ہی صحت مند جسمانی سرگرمیاں ذہن میں آتی ہیں لیکن وقت‘ ٹیکنالوجی اور پیسے کی دوڑ نے کھیل کا مطلب اور اس کے حقیقی معانی اب تبدیل کر دیے ہیں۔ ویسے تو وڈیو گیمنگ انڈسٹری اُس وقت بھی موجود تھی جب موبائل فون بلکہ شاید کمپیوٹر تک ایجاد نہیں ہوا تھایا ابتدائی مراحل میں تھا۔ تب ٹی وی کے ڈیوائس ساتھ لگا کر مختلف کمپنیوں کی وڈیو گیمز کھیلی جاتی تھیں یا پھر بازار میں وڈیو گیمز کی دکانیں ہوتی تھیں جہاں پچاس پیسے‘ ایک روپے یا دو روپے کا ٹوکن لے کر بچے اور نوجوان اپنا دل بہلاتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ اس وقت کراٹے‘ ریسلنگ‘ پزل‘ جہازوں کی گولہ باری وغیرہ ایسی گیمیں تھیں جو بہت زیادہ پسند کی جاتی تھیں۔ تب بھی کئی والدین کو یہ مسئلہ درپیش رہتا تھا کہ ان کے بچے کئی کئی گھنٹے گھر واپس نہیں آتے تھے اور پڑھائی پر دھیان نہیں دیتے تھے۔پھر آہستہ آہستہ ہوم گیمنگ کا دور شروع ہوا اور متمول گھرانوں نے بچوں کے لیے گھروں میں ہی گیمز کھیلنے کا انتظام کر دیا۔ بٹنوں والا موبائل فون آیا تو اس میں بھی دو چار گیمیں پہلے سے موجود ہوتی تھیں کیونکہ موبائل میں انٹرنیٹ نہ ہونے کے باعث گیمز کو آن لائن ڈائون لوڈ کرنا ممکن نہ تھا۔ جب انٹرنیٹ والے موبائل فون آئے تو گیمنگ انڈسٹری کو نیا عروج ملا۔ ایپل اور اینڈرائڈ پلے سٹور میں روزانہ سینکڑوں‘ ہزاروں کی تعداد میں نئی گیمیں ملنے لگیں اور وہ بھی بالکل مفت۔ یوں گیمنگ انڈسٹری رئیل اسٹیٹ اور دیگر شعبوں کی طرح ایک میگا انڈسٹری کی شکل اختیار کر گئی۔
ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت وڈیو گیمنگ ملٹی بلین ڈالر انڈسٹری بن چکی ہے اور اس کا سالانہ حجم 173ارب ڈالر تک جا پہنچا ہے، اندازہ ہے کہ محض پانچ سال بعد یہ314ارب ڈالر کو کراس کر جائے گا۔ اس وقت چین گیمنگ انڈسٹری میں سب سے آگے ہے اور وہ اس سے 46ارب ڈالر ریونیو کما رہا ہے۔ امریکا 41ارب ڈالر کے ساتھ دوسرے ‘جاپان 22 ارب ڈالر کے ساتھ تیسرے ‘جنوبی کوریا 8 ارب ڈالر کے ساتھ چوتھے اور جرمنی 6 ارب ڈالر کے ساتھ پانچویں نمبر پر ہے۔چین کی آدھی آبادی یعنی تقریباً لگ بھگ 70کروڑ افراد باقاعدگی سے گیمیں کھیلتے ہیں۔امریکا کا بھی یہی حال ہے اور انیس کروڑ شیدائی گیموں سے چپکے رہتے ہیں۔ وڈیو گیم کس قدر ریونیو کماتی ہیں‘ اس کا اندازہ آپ کو ''آنرز آف کنگ‘‘ نامی ایک گیم سے ہو جائے گا جو محض تین‘ چار برس میں تیرہ ارب ڈالر سے زائد ریونیو کما چکی ہے۔
گیمنگ انڈسٹری کو اب ای سپورٹس کا نام دیا جا رہا ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ روایتی سپورٹس کی طرف لوگوں کا رجحان کم ہے اور ایسے کھیل کھیلنا بھی آسان نہیں رہا۔ پاکستان جیسے ملک میں موسم تو موافق ہے لیکن یہاں پلے گرائونڈز ہیں نہ ہی حکومتی سرپرستی۔ سوائے کرکٹ کے کوئی بھی کھیل یہاں پروان نہیں چڑھ سکا بلکہ ہاکی اور سکواش جیسے کھیل جو پروان چڑھے ہوئے تھے‘ وہ بھی ہماری اپنی کارگزاریوں کے باعث زمین پر اوندھے منہ پڑے ہیں۔ فٹ بال کا کھیل ایسا ہے جس میں پاکستان علاقائی طور پر بھی نام پیدا نہیں کر سکا۔ اب شاید یہاں کے کھلاڑیوں کے گوڈے‘ گٹے جواب دے چکے ہیں یا پھر انہیں مشقت بھرے کھیل ویسے ہی پسند نہیں رہے۔ اب وڈیو گیموں کا دور آیا ہے تو دیگر ملکوں کی طرح پاکستان کے بچے اور نوجوان بھی اس فیلڈ میں اپنی مہارت دکھا رہے ہیں۔ گزشتہ سال دسمبر میں امریکی ریاست فلوریڈا میں گیموں کے عالمی مقابلے کے فائنل رائونڈ میں پاکستانی نوجوان ارسلان ایش نے امریکی حریف کو شکست دے کر پہلی پوزیشن حاصل کی تھی۔اس سے قبل وہ جاپان میں بھی ایسے ہی ایک بڑے مقابلے کا فاتح ٹھہرا تھا۔
2015ء میں دنیا بھر کے دو ارب افراد ویڈیو گیمز کھیلتے تھے جبکہ آج ان کی تعداد میں پچاس فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔ چھ سال بعد‘ اب یہ تعداد تین ارب ہو چکی ہے۔ کورونا کے دوران جن صنعتوں کو عروج ملا ان میں گیمنگ انڈسٹری بھی تھی۔ لوگ گھروں میں بیٹھے تھے‘ باہر نکلنے پر پابندی تھی اس لیے لامحالہ دیکھا دیکھی وہ لوگ بھی اس طرف آ گئے جنہیں اس سے رغبت نہ تھی۔کہا جا رہا ہے کہ اگر نیم لاک ڈائون کا سلسلہ مزید چلتا رہا تو 2028ء تک دنیا کی تین چوتھائی آبادی وڈیو گیموں پر لگ چکی ہو گی۔
ہمارے یہاں بہت سے دوستوں کو یہ بھی معلوم نہیں کہ وڈیو گیمنگ میں پیسہ آتا کیسے ہے۔ وڈیو گیمز تین طرح سے پیسے کماتی ہیں۔ ایک تو جب وڈیو گیمز ڈائون لوڈ کی جاتی ہیں تو ہر گیم کے ایک مرتبہ ڈائون لوڈ ہونے پر گیم ڈویلپر کو ایک ڈالر مل جاتا ہے۔ بظاہر ایک ڈالر چھوٹی رقم محسوس ہوتی ہے لیکن جب آپ بڑی گیمز کی ڈائون لوڈ تعداد دیکھیں گے تو آپ کے چودہ طبق روشن ہو جائیں گے۔ دنیا میں کئی درجن گیمیں ایسی ہیں جن کے ایک ارب سے زیادہ ڈائون لوڈز ہیں۔ اب آپ ایک ارب کو ڈالر کے ریٹ سے ضرب دے کر اس ریونیو کا حساب لگا لیں۔ یہ تو بڑی گیموں کی بات تھی‘ اگر کوئی گیم ایک لاکھ مرتبہ بھی ڈائون لوڈ ہوتی ہے تو اس پر ایک لاکھ ڈالر یعنی ڈیڑھ کروڑ روپے مل جائیں گے۔ اس کے بعد اس گیم کو کھیلتے ہوئے جب گیمر آگے بڑھتا ہے تو گیم میں نئے کریکٹرز‘ نئے ٹولز‘ نئے ہتھیاروں اور نئی چیزوں کے حصول کے لیے بھی پیسے دینا پڑتے ہیں جو کمائی کا الگ ذریعہ ہیں۔ پھر گوگل وغیرہ کے اشتہار اور سپانسرز کی کمائی الگ سے ہوتی ہے۔پاکستان میں بھی کئی گیم ڈویلپنگ کمپنیاں ہیں اور وہ اچھا خاصا کما رہی ہیں۔ یہاں کی ایک کمپنی کی ایک گیم دس لاکھ مرتبہ ڈائون لوڈ کی جا چکی ہے۔ اگر صرف ڈائون لوڈز سے ہی ملنے والی رقم کا حساب لگایا جائے تو یہ پونے دو ارب روپے بنتے ہیں۔یہ گیم اتنی مقبول ہوئی کہ اسے ایک عالمی کمپنی نے اربوں روپے میں خریدنے کی آفر کر رکھی ہے لیکن کمپنی تاحال اسے فروخت کرنے پر آمادہ نہیں۔ ایسی سینکڑوں گیمز یہ کمپنی بنا چکی ہے۔ اس سے آپ خود اندازہ لگا لیں کہ یہ کمپنیاں کس قدر منافع میں ہیں۔پاکستان میں اب ای سپورٹس کو فروغ دینے کے لیے کئی ایونٹس کرائے جا رہے ہیں۔ اسلام آباد میں حال ہی میں گیمنگ کا ایک مقابلہ منعقد ہوا جس میں ملک بھر سے گیمرز نے شرکت کی۔
یہ ریونیو‘ یہ ڈالراور یہ ٹرینڈ اپنی جگہ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ رجحان نئی نسل کی جسمانی اور ذہنی صحت کیلئے ٹھیک ہے؟ جو گیمر ہیں یا جو اس سے ریونیو کما رہے ہیں وہ اسے کبھی بھی برا نہیں کہیں گے کیونکہ پیسہ آتا کسے چبھتا ہے؟ لیکن ضرورت سے زیادہ موبائل فون دیکھنا یا گیمیں کھیلنا بہرحال صحت کیلئے اتنا ہی مضر ہے جتنا کہ سگریٹ نوشی یا کوئی اور بری عادت۔ چین جو اس انڈسٹری سے سب سے زیادہ کما رہا ہے‘ وہ خود پریشان ہے اور چینی حکومت نے بچوں کو اس کے منفی اثرات سے بچانے کے لیے کئی طریقے اپنا رکھے ہیں جن میں گیم کے لیے رجسٹریشن کرانا بھی شامل ہے۔ نئی پالیسی کے تحت بچے ہفتے میں دو یا تین روز‘ تین گھنٹے روزانہ سے زیادہ گیم نہیں کھیل سکتے۔یہ مسئلہ دنیا بھر کے ممالک کو درپیش ہے۔ معاشرے میں ضرورت سے زیادہ موبائل فون اور گیمنگ سے آنکھیں وقت سے کافی پہلے کمزور ہو رہی ہیں اور دیگر نفسیاتی عارضے بھی بڑھ رہے ہیں۔اگر بڑے سوشل میڈیا سے چپکے رہیں گے اور بچے گیموں میں سر دے کر بیٹھے رہیں گے تو زندگی کا کیا خاک مزہ رہ جائے گا؟گیمنگ انڈسٹری کو ای سپورٹس کا نام دیں یا کچھ اور‘ یہ بات ذہن میں رکھیں کہ بچوں اور نوجوانوں کی رہنمائی بھی اتنی ہی ضروری ہے جتنا کہ پیسہ اور ڈالر کمانا۔ زندگی کے ایسے اہم معاملات میں توازن رکھیں گے تو ہی پیسہ استعمال کر پائیں گے وگرنہ یہی پیسہ اور گیمنگ انڈسٹری کا سونامی ایک دن وبالِ جان بن جائے گا۔