طاقتور معاشی ممالک کی فہرست میں امریکا کے بعد چین کا نمبر ہے ۔چین شروع سے اتنا امیر ملک نہیں تھا بلکہ انیس سو اسّی تک چین غریب ممالک میں شمار ہوتا تھا۔ وہاں غربت عام تھی اور اسّی فیصد آبادی دو وقت کی روٹی بمشکل پوری کرتی تھی؛ تاہم ان تیس سے پینتیس برسوں میں چین نے ایسا کمال کیا کہ دنیا دنگ رہ گئی۔ چین نے صرف تین‘ چاردہائیوں میں خود کو دنیا کا دوسرا کامیاب ترین ملک بنا کر یہ ثابت کیا ہے کہ ترقی کرنے کی نیت ہو تو وقت کی دیواریں بھی ریت کا ڈھیر ثابت ہوتی ہیں۔ آج ہمارے ملک میں جو بھی حکمران آتا ہے اور جو بھی سیاسی جماعت ایوانِ اقتدار میں وارد ہوتی ہے‘ وہ پانچ سال میں ملک کی تقدیر بدلنے کے دعوے کرتی ہے جو حقیقت میں ممکن نہیں ہو پاتے اور پانچ سال بعد جب کچھ بھی نہیں ہو پاتا تو وہ ملبہ سابق حکومتوں اور ان کی پالیسیوں پر ڈال کر خود کو بری الذمہ قرار دینے کی کوشش کرتی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ انیس سو نوے کی دہائی میں مسلم لیگ نون کو دوسری مرتبہ حکومت ملی تو اس وقت کے وزیرخزانہ نے ''وژن دو ہزار بیس‘‘ کے نام سے ایک معاشی پلان بنایا تھا کہ کس طرح بیس‘ بائیس سالہ طویل منصوبہ بندی کے ذریعے ملک کو خوش حال بنا دیا جائے گا۔ یہ وژن کتنا پائیدار تھا اس کا پتا تو تب چلتا اگر یہ حکومت اگلے بیس سال رہتی یا پھر اگلی حکومتیں اس طرح کے منصوبوں کو آگے بڑھاتیں لیکن پھر بارہ اکتوبر 1999ء آ گیا اور پرویز مشرف نے اس وژن سمیت پوری حکومت کو ہی لپیٹ کر رکھ دیا۔ اگلے آٹھ‘ نو سال ایسے ہی گزر گئے۔
پرویز مشرف دور میں بھی ایک ''پلان 2020ء‘‘ پیش کیا گیا تھا جس میں پاکستان کے غیر ملکی قرضے اتارنے کی حکمتِ عملی دی گئی تھی اور بتایا گیا تھا کہ اس طرح 2020ء تک پاکستان غیر ملکی قرضوں کے بوجھ سے مکمل آزاد ہو جائے گا۔ آج ہم کہاں کھڑے ہیں‘ خود ہی دیکھ لیجیے۔ اس دور کے مقابلے میں قرضوں کا حجم دو بلکہ تین گنا ہو چکا ہے۔ پرویز مشرف دور کے بعد پہلے پیپلزپارٹی‘ پھر مسلم لیگ نون اور اب تحریک انصاف اپنی اننگز کھیل رہی ہے۔ اس سارے کھیل میں مگر کوئی ایسی مستقل منصوبہ بندی دکھائی نہیں دیتی جو ملک کو دور رس نتائج دے سکتی ہو اور چین ‘سنگاپور اور دیگر ممالک کی طرح اس ملک کو زمین سے اٹھا کر آسمان کی بلندیوں پر لے جائے۔ سوال یہ ہے کہ آخر چین کے پاس ایسا کیا تھاجس نے اسے سپر پاور بنا دیا۔
حقیقت یہ ہے کہ چین کو 'چین‘ بنانے میں وہاں کی لیڈر شپ نے بنیادی کردار ادا کیا ہے۔قانون کو سخت اور ہر خاص و عام پر لاگو کیا گیا۔ ہر شخص کو ہنر اور علم سکھا کر کام پر لگا دیاگیا جس سے فی کس آمدنی کی شرح بڑھنے لگی۔ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق 1981ء سے 2021ء کے دوران اسّی کروڑ لوگ غربت کی لکیر سے اوپر آ گئے۔ چین میں مینوفیکچرنگ اتنے وسیع پیمانے پر ہونے لگی کہ آج سوئی سے لے کر خلائی جہاز تک‘ سب کچھ چین میں بن رہا ہے۔ یہ دنیا میں مینوفیکچرنگ کا لیڈر بن چکا ہے۔ آج دنیا کی سب سے زیادہ پچیس فیصد بجلی اکیلا چین پیدا کرتا ہے ۔ کوئلے کی پیداوار میں بھی چین پہلے نمبر پر ہے۔دنیا کا لگ بھگ پچاس فیصد کوئلہ چین پیدا کرتا ہے۔ دنیا کی 48 فیصد سمارٹ فون مارکیٹ پر چینی سمارٹ فون کمپنیوں کا قبضہ ہے ۔ دنیا کے ستر فیصد موبائل فون چینیوں کے ہاتھوں میں تیار ہوتے ہیں۔ دنیا کا پچاس فیصد لوہا بھی چین ہی بناتا ہے۔ دنیا میں جتنی کاریں بنتی ہیں‘ اس میں سے تینتیس فیصد چین بناتا ہے۔ دنیا کا پچاس فیصد سیب بھی چین میں ہی پیدا ہوتا ہے اس کے مقابلے میں امریکا میںدنیا کا صرف چھ فیصد سیب پیدا ہوتا ہے۔ یہاں سے دونوں کے مابین فرق کا اندازہ لگا لیں جو چوالیس فیصد تک ہے۔ اس کی وجہ چین کی زراعت میں جدید تحقیق اور مصنوعی ذہانت کا استعمال ہے۔یہ پھلوں اور سبزیوں کے ایسے بیج بنا چکا ہے جو ہر موسم میں اگائے جا سکتے ہیں اور جنہیں دھوپ ‘موسم اور جگہ کی بھی محتاجی نہیں۔جتنا پھل ہم دس ایکڑ کا باغ لگا کر حاصل کرتے ہیں‘ چین میں وہی پھل بہترین معیار کے ساتھ ایک ایکڑ میں‘ کم وقت اور کم لاگت میں حاصل کیا جاتا ہے۔
دنیا کا ساٹھ فیصد سیمنٹ اکیلا چین بنا رہا ہے۔ 2011ء سے 2013ء کے دوران چین نے اپنے ملک میں جتنا سیمنٹ استعمال کیا‘ امریکا نے اتنا سیمنٹ پوری ایک صدی میں بھی استعمال نہیں کیا۔ چین نے ان تین سالوں میں عمارتوں کے پہاڑ کھڑے کر دیے بلکہ کئی نئے شہر بسا دیے۔دنیا میں سب سے زیادہ بحری جہاز بھی چین تیار کر رہا ہے۔ دنیا میں سونا پیدا کرنے میں بھی چین صف اول پر ہے۔دنیا کا تیرہ فیصد سونا چین سے نکلتا ہے۔چین جس کام اور جس چیز میں ہاتھ ڈالتا ہے‘ وہ اس میں نمبر ون بن جاتا ہے۔وہ اتنے وسیع پیمانے پر اس کی پیداوار کرتا ہے کہ پوری دنیا اس کا مقابلہ نہیں کر پاتی، مثلاً دنیا میں اگر کوئی چیز سو روپے میں بن رہی ہے تو چین اس چیز کو اتنی زیادہ تعداد میں بنائے گا اور اس کی پیداواری لاگت اتنی کم کر دے گا کہ کسی اور کے لیے اس لاگت میں وہ چیز بنانا اور بیچنا ممکن نہیں رہے گا لیکن چین اس چیز کو بیچ کر منافع اتنا ہی کمائے گا جتنا کوئی دوسرا کما رہا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ چین کی کوئی کمپنی جب کسی دوسرے ملک میں جاتی ہے تو اس کی مارکیٹ کو پوری طرح اپنی جکڑ میں لے لیتی ہے کیونکہ دوسرے ممالک چین کی کم لاگت کا مقابلہ ہی نہیں کر پاتے۔ آج دنیا کے ستر فیصد سے زائد کھلونے چین بنا رہا ہے جبکہ دوسرے نمبر پر امریکاہے جو صرف دو فیصد کھلونے بناتا ہے۔ یہاں سے آپ چین اور امریکہ کے مابین فرق ملاحظہ کر سکتے ہیں اور یہ بھی اندازہ کر سکتے ہیں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔
ہم کئی ملکوں کو چند عشروں میں ترقی کی سیڑھیاں چڑھتے دیکھ چکے ہیں لیکن ان سے سیکھنے کی کوشش نہیں کرتے۔ ہمارے اکثر دانشور آبادی کا رونا روتے رہتے ہیں ۔ وہ سمجھتے ہیں کہ آبادی میں بے تحاشا اضافے نے ہمارے ملک کا بیڑہ غرق کیا ہے۔ یہ بالکل غلط مفروضہ ہے۔ آبادی تو چین کی بھی زیادہ ہے اور دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے۔ چین کی آبادی ڈیڑھ ارب کے قریب ہے۔اگر آبادی ہی کسی ملک کی ترقی کا پیمانہ ہے تو اس لحاظ سے چین کو دنیا کا سب سے غریب اور پسماندہ ملک ہونا چاہیے تھا۔ چین نے اپنی اس کمزور یعنی اپنی آبادی کو ہی اپنی سب سے بڑی طاقت بنایا ہے۔ اس نے مین پاور کو معاشی طاقت میں بدل دیا۔آپ دنیا کے ان ممالک کو دیکھیں جو وسیع رقبے پر پھیلے ہیں لیکن وہاں آبادی خاصی کم ہے۔ کینیڈا اس کی بہترین مثال ہے۔ کینیڈا رقبے میں پاکستان سے دس گنا بڑا اور آبادی میں دس گنا چھوٹا ملک ہے۔ اسے اپنے ملک کا سسٹم چلانے کے لئے مین پاور کی ضرورت ہے جو وہ دنیا کے دیگر ممالک سے حاصل کرتا ہے۔ لوگ امیگریشن کے شوق میں وہاں جا رہے ہیں اور اس ملک کو جدید تر بنانے میں لگے ہوئے ہیں جبکہ ہمارے پاس جو بہترین دماغ ہیں‘ ہم ان کا یہیں پر بہترین استعمال کر کے اپنے ملک کو ترقی یافتہ بنا سکتے ہیں۔ چین کی طرح ہم بھی آبادی کا بہتر استعمال کر سکتے ہیں۔
آج دنیا کو ٹیکنالوجی کی کمپنیاں لیڈ کر رہی ہیں اور ان سب کے بانی نوجوان ہی ہیں۔ فیس بک کا بانی مارک زکر برگ سینتیس برس کا ہے اور وہ محض تئیس سال کی عمر میں ارب پتی بن گیا تھا۔ اس کی وجہ سے آج دنیا میں کروڑوں لوگ ارب پتی بن چکے ہیں اور وہ خود دنیا کے امیر ترین افراد میں سے ایک۔ پاکستان کی یہ خوش نصیبی ہے کہ یہاں کی تریسٹھ فیصد آبادی تیس برس سے کم عمر نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ یہی وہ عمر ہوتی ہے جب انسان اپنے دماغ اور اپنی توانائی کا بہترین استعمال کر سکتا ہے۔ اگر ہم چاہیں تو ہم بھی چین کی طرح اپنی کمزوریوں کو اپنی طاقت بنا کر طاقتور بن سکتے ہیں۔