خدا خدا کرکے کورونا سے خلاصی ہو رہی ہے تو اب یوکرائن اور روس میں جنگ کا الائو روشن ہو گیا ہے جو کورونا کی عالمی وبا سے بھی زیادہ تباہ کن نظر آ رہا ہے۔ کورونا نے تو آہستہ آہستہ تباہی پھیلائی تھی لیکن اس چپقلش کی خبریں آنے سے ہی عالمی معیشتوں کے کڑاکے نکلنا شروع ہو چکے ہیں۔ کورونا میںعالم گیر سطح پر ہلاکتیں ہوئیں‘ تمام بڑے چھوٹے ممالک کی معیشتیں گھٹنوں پر آ گئیں اور مہنگائی نے گزشتہ ایک صدی کے ریکارڈ توڑ دیے‘ اب ایسے ہی اثرات اس جنگی تنازع کے بعد پیدا ہونا شروع ہو چکے ہیں۔ جنگ کی خبریں آنے کے ساتھ ہی عالمی مارکیٹ میں خام تیل کی قیمتوں کو پَر لگ گئے۔ کسی بھی ملک کی معیشت کا تیز ترین زوال تبھی ہوتا ہے‘ جب اس کی کرنسی قدر کھو بیٹھے یا پھر تیل کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں۔ یہ سطور لکھنے تک خام تیل کی قیمت ایک سو چار ڈالر فی بیرل کی حد پار کر چکی ہیں۔ پاکستان میں پٹرول کی فی لٹر قیمت اس وقت ایک سو ساٹھ روپے کی بلند ترین سطح پر ہے‘ اگر یہ جنگ شدت اختیار کرتی ہے تو تیل کی قیمت میں کمی تو دُور کی بات‘ اس میں مزید اور بے تحاشا اضافے کا خدشہ ہے جس کے بعد ملک میں مہنگائی کہاں جائے گی‘ اس کا اندازہ لگانا قطعاً مشکل نہیں۔ ہر روز باقاعدگی کے ساتھ اگر کوئی خبر آ رہی ہے تو یہی کہ فلاں شے کی قیمت میں اتنا اضافہ کر دیا گیا‘ فلاں کی قیمت اتنی بڑھا دی گئی اور ساتھ ہی وجہ پٹرول کا مہنگا ہونا بتا دی جاتی ہے۔ گزشتہ روز آٹے کی فی بوری قیمت میں پچاس روپے کا اضافہ کر دیا گیا۔ آٹا امیر بھی کھاتا ہے اور غریب بھی‘ لیکن امیر کو پچاس روپوں سے فرق نہیں پڑتا جبکہ غریب‘ جس کی دیہاڑی یا تنخواہ میں برسوں سے کوئی اضافہ ہی نہیں ہوا‘ وہ سر پکڑ کر بیٹھ جاتا ہے۔ اب جبکہ یوکرائن سے خبریں آ رہی ہیں کہ روس نے اس پر باقاعدہ حملہ کر دیا ہے تو پاکستان سمیت دنیا بھر کی سٹاک ایکسچینجوں میں مندی کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ سرمایہ کار پیسہ لگانے سے گھبرا رہے ہیں۔ چھوٹے موٹے واقعات ہوں تو مارکیٹ چند دنوں یا ہفتوں بعد دوبارہ سنبھل جاتی ہے لیکن ایک ایسی جنگ‘ جس سے یورپ کے براہ راست اور خلیجی اور وسطی ایشیا کے ممالک کے بالواسطہ متاثر ہونے کا خدشہ ہے‘ اگر طول پکڑتی ہے تو ایک بڑا عالمگیر معاشی بحران جنم لے گا جس کے اثرات کئی عشروں تک دنیا کو بھگتنا پڑیں گے، دوسری طرف اندرون ملک یہ تحریک انصاف کی حکومت کے لیے کورونا کے بعد دوسرا بڑا دھچکا ثابت ہو گا۔ حکومت جتنی چاہے وضاحتیں کرے‘ دلیلیں دے اور دیگر ممالک کو پہنچنے والے معاشی نقصان اور مہنگائی میں اضافے کی مثالیں دے‘ عام لوگ بلکہ پڑھے لکھے لوگ بھی یہی کہیں گے کہ یہ سب حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ اب جبکہ روس اور یوکرائن میں باقاعدہ جنگ چھڑ چکی ہے‘ اوپن مارکیٹ میں ڈالر ایک ہی دن میں ایک روپے بیس پیسے مہنگا ہوا ہے۔ یہ بہت بڑا فرق ہے۔ روس کے خلاف اس وقت امریکا اور یورپ متحد ہو چکے ہیں۔ یورپی یونین اور نیٹو روس پر سیاسی‘ عسکری اور معاشی پابندیاں لگانے کا اعلان کر چکی ہیں۔ روس کو تنہا کرنے کے لیے ہر ممکن اقدام کیے جا رہے ہیں۔ گزشتہ روز یورپی یونین کی پریس کانفرنس میں کہا گیا کہ روس کو جدید جنگی ٹیکنالوجی کے حصول سے روکا جائے گا تاکہ یوکرائن کے عوام کو تباہی سے بچایا جا سکے۔
روس اور یوکرائن کی سرحد 23 سو کلومیٹر طویل ہیں۔ اس میں سے تقریباً دو ہزار کلومیٹر زمینی سرحد جبکہ تین سو کلومیٹر آبی سرحد ہے۔ گلوبل فائر پاور اور آئی آئی ایس ایس ملٹری پاور دنیا بھر میں عسکری قوت اور دفاعی ساز و سامان کے اعتبار کے ملکوں کی درجہ بندی جاری کرنے والا عالمی ادارہ ہے۔ اس کے اعداد و شمار کے مطابق روس دنیا کی دوسری بڑی فوجی طاقت ہے جبکہ یوکرائن کا نمبر 22واں ہے۔ روس کے فوجیوں کی مجموعی تعداد تقریباً 29 لاکھ ہے جبکہ یوکرائن کے پاس 11 لاکھ کے قریب فوجی موجود ہیں۔ ان میں سے روس کے فعال فوجیوں کی تعداد 9 لاکھ جبکہ ریزرو دستوں کی تعداد 20 لاکھ ہے۔ اسی طرح یوکرائن کے فعال فوجیوں کی تعداد محض 2 لاکھ جبکہ ریزرو دستوں کی تعداد 9 لاکھ ہے۔ اگر دونوں ملکوں کے پاس موجود جنگی طیاروں کا ذکر کیا جائے تو یہاں زمین آسمان کا فرق نظر آتا ہے۔ روس کے پاس تقریباً 1511 جنگی طیارے موجود ہیں جبکہ یوکرائن کے پاس موجود طیاروں کی تعداد محض 98 ہے۔ ہیلی کاپٹرز کے میدان میں بھی روس یوکرائن سے بہت آگے ہے۔ یوکرائن کے پاس صرف 34 ہیلی کاپٹرز ہیں جبکہ روس کے فلیٹ میں 544 ہیلی کاپٹرز موجود ہیں۔ موجودہ دور میں جنگ کے دوران ٹینکوں کا کردار ماضی جیسا اہم تو نہیں لیکن ان کی افادیت بہرحال موجود ہے۔ روس کے پاس موجود ٹینکوں کی تعداد ساڑھے بارہ ہزار ہے جبکہ یوکرائن کے پاس محض چوالیس ٹینک ہیں۔ روس کے پاس موجود بکتربند گاڑیوں کی تعداد 30 ہزار جبکہ یوکرائن کے پاس 12 ہزار بکتربند گاڑیاں ہیں۔ روس کے پاس ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے والی تقریباً 7571 توپیں موجود ہیں جبکہ یوکرائن کے پاس اس طرح کی 2040 توپیں ہیں۔ پھر جو سب سے بڑا فرق آتا ہے وہ ایٹمی ہتھیاروں کا ہے۔ روس ایک بڑی ایٹمی طاقت ہے جس کے پاس پوری دنیا میں سب سے زیادہ ایٹمی ہتھیار ہے۔ اندازہ ہے کہ اس کے پاس مختلف نوعیت کے جوہری ہتھیاروں کی تعداد 6 ہزار سے زائد ہے۔ امریکا کے پاس بھی تقریباً اتنے ہی ایٹمی ہتھیار موجود ہیں۔ ایٹمی ہتھیار اگر دو حریف ملکوں کے پاس ہوں تو یہ طاقت کا توازن قائم کرنے میں مدد دیتے ہیں جیسا کہ پاکستان اور بھارت کے معاملے میں ہے۔ اگر پاکستان بروقت ایٹمی صلاحیت حاصل نہ کرتا اور اور ایٹمی دھماکے نہ کیے جاتے تو بھارت کوئی سنگین شرارت کر سکتا تھا۔ یوکرائن بظاہر روس کے مقابلے میں نہایت کمزور ملک ہے لیکن امریکا اور یورپ اس کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔ یوکرائن کا رقبہ‘ پاکستان سے کچھ کم‘ تقریباً چھ لاکھ مربع کلومیٹر‘ ہے۔ آبادی سوا چار کروڑ ہے۔ یہ دنیا بھر میں سب سے زیادہ گندم برآمد کرنے والے ممالک میں شامل ہے اس کے باوجود یورپ میں سب سے غریب ملک شمار کیا جاتا ہے۔ اسی کی وجہ کرپشن ہے جو یہاں بہت زیادہ ہے۔ یہ اپنی ضرورت کی اسّی فیصد گیس روس سے درآمد کرتا ہے۔ یوکرائنی شہریوں کی اوسط ماہانہ تنخواہ پانچ سو پچیس ڈالر ہے؛ تاہم روس کے ساتھ تنازع نے اس کی معیشت کو مزید گراوٹ کی طرف دھکیل دیا ہے۔
جب روس نے یوکرائن پر حملہ کیا‘ وزیراعظم عمران خان اس وقت روس کے دورے پر تھے۔ بعد ازاں روسی صدر ولادیمیر پوتن سے ان کی طویل ملاقات بھی ہوئی۔ بھارت اس ملاقات کو منفی رنگ دینے کی کوشش کر رہا ہے۔ امریکا بھی اس دورے کو ''باریک بینی‘‘ سے دیکھ رہا ہے۔ دنیا دیکھ رہی ہے کہ ان حالات میں روس کے دورے سے پاکستان کیا حاصل کرنا چاہتا ہے اور روس اس سے کیا توقع کر رہا ہے؛ تاہم پاکستان کا موقف یہی ہے کہ وہ کسی بھی قسم کی جارحیت کی حمایت نہیں کرے گا‘ تمام مسائل مذاکرات کی میز پر حل ہونے چاہئیں۔ ہم روس کے اس بلاجواز حملے کی حمایت کر بھی نہیں سکتے۔ سفارتی تعلقات بہرحال ہمیں تمام ممالک سے مضبوط رکھنا ہیں۔ روس طاقت کے لحاظ سے یوکرائن سے جتنا چاہے بھاری ہو لیکن حقیقت یہ ہے کہ روس کی اپنی معیشت جنگ برداشت کرنے کے قابل نہیں ہے۔ یہ بھی کورونا کے اثرات بھگت چکا ہے‘ بلکہ اب بھی بھگت رہا ہے۔ اس وقت بھی روس میں ہر روز لاکھوں نئے کیسز سامنے آ رہے ہیں جبکہ سینکڑوں افراد ہر روز ہلاک ہو رہے ہیں۔ اس لیے یہ جارحیت روس سمیت دیگر ممالک کے لیے بھی نقصان کا باعث بنے گی۔ اب وہ دور نہیں رہا کہ دنیا کے ایک کونے میں جنگ لگے تو دوسرے میں امن رہے۔ گلوبل ویلیج بننے کے بعد‘ دنیا میں تباہی کے اثرات انتہائی سرعت کے ساتھ ایک کونے سے دوسرے کونے تک پھیل جاتے ہیں جن کا خمیازہ بہرحال عوام اور کمزور معیشتوں کو ہی بھگتنا پڑتا ہے۔ پہلے کورونا اور اب روس‘ یوکرائن جنگ۔ آسمان سے گرے تو کھجور میں اٹک گئے۔ کورونا نے کیا کم قیامت ڈھائی تھی جو اس جنگ کی کسر باقی تھی!