لاہور کے ایک پسماندہ علاقے میں سات سالہ زمان کے ساتھ جو ہوا‘ اس پر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ زمان اپنی گلی کے باہر کھیل رہا تھا کہ ایک آوارہ کتا اُدھر آ نکلا اور بچے پرجھپٹ پڑا۔ کتا زمان کی جانب بڑھا تو اس نے ڈر کربھاگنا چاہا تاہم خوف کے باعث گر پڑا ۔ اس دوران دو تین مزید کتے ادھر آ گئے اور زمان پر بری طرح جھپٹ پڑے۔ یہ منظر دیکھ کر دیگر بچوں نے شور مچانا شروع کر دیا۔ کتوں نے زمان کو بری طرح کاٹ کھایا تھا۔ زمان کی دل ہلا دینے والی چیخیں اور دیگر بچوں کا شورسن کر محلے کے لوگ بھی جمع ہو گئے۔ زمان کو قریبی ہسپتال لے جایا گیا لیکن ہسپتال میں کتے کے کاٹے سے بچائو کی ویکسین موجود نہ تھی۔ بچے کو ایمبولینس میں ڈال کر ایک اور ہسپتال لے جایا گیا کہ شاید کہیں اور ویکسین مل جائے۔ راستے میں جب زمان کو ہوش آتا تو چیخوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جاتا۔ جیسے تیسے کر کے وہ اگلے ہسپتال پہنچے لیکن وہاں بھی کتے کے کاٹے کی ویکسین دستیاب نہ تھی۔ مجبوراً زمان کا والد اسے واپس لے آیا۔کچھ لوگوں نے مشورہ دیا کہ دوسرے ہسپتال لے جائو اس دوران اس کی حالت غیر ہونے پراسے ایک نجی ہسپتال لے جایا گیا تاہم بدقسمتی نے یہاں بھی پیچھا نہ چھوڑا۔ یہاں بھی ویکسین موجود نہ تھی۔ ہسپتال کے عملے نے صاف جواب دے دیا۔ ڈاکٹروں نے خبردار کیاکہ اگر بچے کو فوری طور پر ویکسین نہ دی گئی تو اس کی جان کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ اس دوران زمان کی حالت مزید بگڑ چکی تھی۔ اس کی ماں سے اپنے جگرگوشے کی حالت دیکھی نہیں جاتی تھی۔دیگر لوگ بھی بے بسی سے بچے کو دیکھتے اور آنسو بہاتے چلے جاتے۔ زہر زمان کے جسم میں پوری طرح سرایت کر چکا تھا۔ اسی شام زمان نے اپنی ماں کو کاٹنا شروع کر دیا۔ زمان گلا پھاڑ کر اتنی زور دار اورخوفناک آوازیں نکالنے لگتا کہ اس کے باپ کو زمان کا منہ اپنے ہاتھوں سے بند کرنا پڑتا۔ یہ منظر دیکھ کر زمان کی ماں کو غشی کے دورے پڑنے لگے۔ موت کے سائے زمان کے گھر کے بہت قریب پہنچ چکے تھے۔ زمان کا رنگ نیلاپڑ نے لگا تھا۔ اس نے خون کی قے کر دی۔ منہ سے سفید جھاگ نکلی تو سب دھاڑیں مار کر رونے لگے۔ زمان کی ماں اپنے جگر کے ٹکڑے کو بانہوں میں لئے زار و قطار روتی رہی‘وہ بار بار اپنے بچے کا چہرہ چومتی‘کبھی اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتی‘کبھی اس کے گالوں کو سہلاتی کبھی آسمان کی طرف منہ کر کے اپنے بچے کی زندگی کی بھیک مانگتی اور کبھی حکمرانوں کو دہائیاں دیتی۔ قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ کچھ دیر تڑپنے کے بعد زمان کی گردن ایک طرف ڈھلک گئی۔ اس نے اپنی ماں کی گود میں جان دے دی۔زمان ہر قسم کی تکلیف سے آزاد ہو چکا تھا۔
یہ کوئی ایک واقعہ نہیں ہے اور نہ ہی پہلا اور آخری ہے۔ اس طرح کے واقعات آئے روز شہروں اور دیہات میں ہو رہے ہیں اور ہر ماہ سینکڑوں بچے کتوں کے کاٹنے سے جان سے جا رہے ہیں یا ان کی حالت انتہائی خراب ہوجاتی ہے لیکن کسی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ سندھ میں ایسے واقعات اتنے بڑھ چکے ہیں کہ معاملہ سندھ ہائی کورٹ تک جا پہنچا ۔ دو برس قبل اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ سو ا ارب روپے کا منصوبہ تیار کر لیا گیا ہے جس کے تحت آوارہ کتوں کو کنٹرول کیا جائے گا لیکن یہ معاملہ ابھی حل نہیں ہوا۔ آج بھی کتوں کے کاٹنے سے سب سے زیادہ ہلاکتیں سندھ میں ہو رہی ہیں۔ گزشتہ برس ایک لاکھ بائیس ہزار سے زائد افراد سندھ میں کتوں کے کاٹنے سے زخمی ہوئے جن میں سے بیشتر جان سے ہاتھ دھو بیٹھے جبکہ زندہ بچ جانے والوں کی زندگی موت سے بھی بدتر ہو گئی۔ پنجاب میں بھی صورتحال مختلف نہیں۔ بیشتر ہسپتالوں میں اینٹی ریبیز ویکسین دستیاب نہیں اور لوگ اپنے پیاروں کو اپنے سامنے سسکتے‘ مرتے دیکھنے پر مجبور ہیں۔
ایسا ہی ایک واقعہ جب کچھ عرصہ قبل امریکہ میں چھ سالہ جیمز کے ساتھ پیش آیا تو اسے فوری طبی امداد بھی ملی اور مکمل صحت یابی بھی۔ نیویارک کا چھ سالہ جیمز اپنے دوستوں کے ہمراہ گھر کے باہر کھیلنے میں مصروف تھا۔ اس کی ماں گھر کی صفائی کر رہی تھی کہ اچانک اسے جیمز کی چیخ سنائی دی۔ پہلے تووہ سمجھتی رہی کہ بچے شرارتیں کر رہے ہیں لیکن جیمز کی چیخیں بڑھتی گئیں۔ مجھے بچائو‘ میں مر جائوں گا ۔ یہ سنتے ہی وہ گھر کے دروازے کی طرف دوڑی۔ باہر پہنچی تو کیا دیکھتی ہے کہ ایک خونخوار کتا اس کے تیس پائونڈ وزنی بچے کو بری طرح بھنبھوڑ رہا ہے۔ اتنی دیر میں کچھ اور لوگ بھی جمع ہو گئے۔ بچے کے چہرے سے خون رس رہا تھا جبکہ ایک کان اور ہونٹ کٹ کر گرنے والا تھا۔ چند ہی منٹ میں ایمبولینس بچے کو لے کر مقامی ہسپتال پہنچ گئی۔ تقریباً سات گھنٹے کے آپریشن کے بعد ڈاکٹرز آپریشن تھیٹر سے باہر نکلے۔ جیمز کی ماں ان کی طرف بڑھی۔ ایک ڈاکٹر نے چہرے سے ماسک ہٹاتے ہوئے کہا : ''ہی از فائن نائو‘‘ یہ سن کرجیمز کی ماں کی جان میں جان آئی ۔ جیمز کو کتے کے کاٹے سے بچائو کی طاقتور ویکسین بھی دی گئی جبکہ چالیس کے قریب ٹانکے لگے ۔ جیمز کا باپ بھی ہسپتال پہنچ چکا تھا۔ اس نے فوراً اپنے وکیل سے رابطہ کیا۔کچھ دیر بعد وکیل بھی وہاں پہنچ گیا۔ اس نے جیمز کی ماں اور دیگر عینی شاہدین کے بیانات لکھے۔ جیمز کے زخموں کی تصاویر بنائیں۔کتے کا مالک صرف دو گھروں کے فاصلے پر رہتا تھا۔وکیل نے لیپ ٹاپ نکالا۔ ایک لیگل نوٹس تیار کیا۔ اس کا پرنٹ لیا۔ کمپنی کی مہر لگائی‘ جیمزکی والدہ‘ والد اور دیگر گواہوں کے دستخط کروائے اور کتے کے مالک کویہ نوٹس بھجوا دیا۔ نوٹس کے تحت کتے کے مالک کو چھ لاکھ ستر ہزار ڈالر بطور ہرجانہ ادا کرنا تھا بصورت دیگر وہ کئی سالوں کیلئے جیل کی سلاخوں کے پیچھے جا سکتا تھا۔ وکیل نے اپنی فیس اپنے کلائنٹ سے اس وقت تک وصول نہیں کی جب تک مخالف پارٹی نے جرمانہ ادا نہیں کر دیا۔ جیمزکی پلاسٹک سرجری ہوئی۔ اس کا چہرہ بھی ٹھیک ہو گیا۔ چند ہفتے ہسپتال میں رہنے کے بعد جیمزدوبارہ زندگی میں واپس آ گیا۔
ایک طرف نیویارک کا چھ سالہ جیمزہے دوسری طرف لاہور کا سات سالہ زمان۔ ایک واقعہ امریکہ میں پیش آیاجبکہ زمان کاسانحہ نئے پاکستان میں رونما ہوا۔ جیمز ایک ایسے معاشرے میں پیدا ہوا تھا جہاں سب کو مساوی حقوق حاصل ہیں۔ اس لئے نہ صرف جیمز کو مکمل طبی امداد ملی بلکہ امدادی رقم بھی حاصل ہوئی۔جبکہ زمان کا معاشرہ اُس جیسے غریب اور نادار لوگوں کو قبول کرنے کو تیار نہیں؛ چنانچہ اسے موت کا جام پینا پڑا۔ شاید ایسے لوگوں سے اس لئے نفرت کی جاتی ہے کہ ان کے ساتھ غریب کا لفظ جڑا ہوا ہوتا ہے اور اسی لئے ان کی قسمت میں دھکے‘ ذلت‘ محرومیاں اورگالیاں پیدائش کے دن سے لکھ دی جاتی ہیں۔جس لمحے زمان کا جسم ساکت ہوا‘ اس کی والدہ کے منہ سے ایک زوردار چیخ نکلی تھی‘ یہ چیخ جس کسی نے سنی‘ اس کا دل چیرتی چلی گئی۔ نہ جانے کتنے زمان اس ملک میں اس بے بسی سے مرجاتے ہوں گے لیکن ان کی چیخیں حکمرانوں اور ان کے ایوانوں تک کبھی نہیں پہنچ سکیں گی۔ سات سالہ زمان اس لحاظ سے بھی بدقسمت تھا کہ وہ نیویارک کے بجائے پاکستان کے ایک پسماندہ علاقے میں پیدا ہوا تھا۔ امریکہ میں توکتوں کے بھی الگ ہسپتال موجود ہیں‘ تفریحی پارکس ہیں‘ ڈاکٹر ہیں‘ وکیل ہیں اور انہیں قانونی تحفظ بھی حاصل ہے لیکن زمان کے معاشرے میں کتے تو دور کی بات انسان بھی جانوروں کی طرح مرجانے پر مجبور ہیں اور معاشرہ انسانوں کی کتے جتنی قدر کرنے کو بھی تیار نہیں۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ یہ ملک انہی سیاستدانوں انہی حکمرانوں کا ہے جو یہیں پیدا ہوئے‘ یہیں پلے بڑھے اور پھر ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے ایسے مقام پر پہنچ گئے جہاں سے زمان جیسے معصوموں کی گمنام آہیں اور سسکیاں سنائی نہیں دیتیں‘ اُن کے زخم اور اُن کے جنازے دکھائی نہیں دیتے۔