اتحادی حکومت کے ساتھ یہی ہوتا ہے جو موجودہ حکومت کے ساتھ آج‘ کل ہو رہا ہے۔ اکثریتی مینڈیٹ کے ساتھ پی ٹی آئی اقتدار میں آتی تو شاید یہ دن دیکھنے نہ پڑتے کہ وہی عمران خان‘ جو کبھی ایم کیو ایم کا نام بھی سننا پسند نہیں کرتے تھے‘ انہیں اُن کے در پر جا کر انہیں منانا پڑا۔ ماضی میں نون لیگ یا پیپلزپارٹی کے وزرائے اعظم اور وزرائے اعلیٰ بھی یہی کرتے رہے تھے۔اس منظر پر یقین کرنا مشکل تھا کیونکہ وزیراعظم صاحب اس قسم کی سیاست کو پسند نہیں کرتے تھے لیکن اسے بدقسمتی کہیں یا اقتدار کی مجبوری کہ انہیں وہ سب کچھ کرنا پڑ رہا ہے جو کوئی بھی وزیراعظم اپنی حکومت کو بچانے کیلئے کرتا ہے۔غالباً خان صاحب نے یہ کہا بھی تھا کہ میں ایسی حکومت میں شامل نہیں ہوں گا جو اتحادیوں کی کمزور بنیادوں پر کھڑی ہو؛ تاہم اقتدار کا موقع کون ہاتھ سے جانے دیتا ہے۔ یہاں تو سیاستدانوں کو ایک مہینے کیلئے بھی وزیراعظم کی شیروانی پہننا پڑے تو موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ خان صاحب نے تو پھر بیس‘ پچیس برس اس مقام تک پہنچنے کے لیے تگ و دو کی ہے۔ ویسے بھی اب اصولی سیاست کرتا کون ہے۔ خان صاحب ہوں یا کوئی اور‘ سب کیلئے ایک ہی اصول اہمیت رکھتا ہے اور وہ ہے کرسی کا حصول۔اقتدار ایک ایسا نشہ ہے جسے ایک بار لگ جائے‘ آسانی سے نہیں چھوٹتا۔ ہاں! کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اصولی سیاست کرتے کرتے منظر نامے سے ہی غائب ہو گئے۔ چودھری نثار اس کی ایک بڑی مثال ہیں۔ اس طرح کے لوگ پارٹی میں کم ہی ہوتے ہیں لیکن نون لیگ کو بہرحال اس بات کا کریڈٹ دینا پڑے گا کہ انہوں نے چودھری نثار کی باغیانہ سوچ اور افکار کے باوجود انہیں رگڑے نہیں لگائے۔ دوسری طرف تحریک انصاف نے اپنے ان سیاستدانوں یا ہمدردوںکو‘ جو پارٹی سے یا تو علیحدگی اختیار کرتے ہیں یا پھرا س کی پالیسیوں پر جائز و ناجائز تنقید کرتے ہیں‘ خوب رگڑے لگاتی نظر آتی ہے۔
دیکھا جائے تو سردار عثمان بزدار کو وزیراعلیٰ بنانا میری نظر میں وزیراعظم عمران خان کا غلط فیصلہ نہیں تھا اور اس کی وجہ آج کی سیاسی کشیدگی اور کھینچا تانی کی صورت میں ہمیں نظر آ جائے گی۔خان صاحب جانتے تھے کہ اگر انہوں نے کسی ایک بڑے نام کو وزیراعلیٰ کے منصب پر بٹھا دیا تو دیگر تگڑے سیاستدان اسے تسلیم نہیں کریں گے اور پنجاب حکومت میں شروع دن سے ہی ٹانگیں کھینچنے کا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔ وجہ یہ تھی کہ علیم خان ہوں یا جہانگیر ترین‘میاں اسلم اقبال ہوں یامحمود الرشید‘ یا اتحادیوں میں چودھری پرویز الٰہی‘ یہ آپس میں ایک دوسرے کو اپنے سے اوپر برداشت کرنے پر تیار نہیں ہو سکتے تھے۔اگر صرف تحریک انصاف کی بات کی جائے تو اس میں بھی وزارتِ اعلیٰ کے دو درجن سے زائد امیدوار موجود ہیں۔ وزیراعظم عمران خان ان سب کی خوبیوں‘ خامیوں سے واقف تھے۔ ممکن ہے کہ یہ سب اپنی اپنی جگہ وزارتِ اعلیٰ بہتر انداز میں چلا سکتے ہوں لیکن مسئلہ ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا تھا‘ جو ہماری سیاسی تاریخ کی روشنی میں لگ بھگ ناممکن نظر آتا تھا۔ وزیراعظم نے فیصلہ کیا کہ بجائے اس کے کہ تحریک انصاف کے کسی ایک تگڑے بندے کو وزیراعلیٰ بنایا جائے اور اس کے بعد سارا وقت اپنے ہی لوگوں سے اس کے خلاف شکایتیں سنی جائیں‘ بہتر ہو گا کہ کسی نئے یا سادہ اور نیوٹرل بندے کو پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ سونپ دی جائے اور پنجاب کا سارا انتظام وفاق خود ہی سنبھال لے۔اس صورت میں اگر وزیراعلیٰ پنجاب پر کسی نے انگلی اٹھائی تو اس کا دوسرا مطلب یہ ہو گا کہ وہ شخص وفاق پر انگلی اٹھا رہا ہے۔ اس طرح بڑی سمجھداری سے وزیراعظم عمران خان نے یہ پتا کھیلا۔ آج کے سیاسی حالات کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ اقدام کوئی اتنا غلط بھی نہیں تھا۔ زیادہ تر یا شاید ہمیشہ‘ یہی ہوتا آیا ہے کہ جس سیاسی جماعت کی پنجاب میں حکومت بنتی ہے‘ وہی مرکز میں برسراقتدار آتی ہے اور وہی عملاً پنجاب کو بھی چلاتی ہے۔اس فارمولے کی رُو سے دیکھیں تو بھی وزیراعظم صاحب کا فیصلہ درست معلوم ہوتا ہے۔ وہ چاہتے تھے کہ ان کے وزیر اپنے اپنے محکموں پر توجہ دیں ‘تمام شعبوں میں اصلاحات لائیں‘ ان خامیوں کو دُور کریں جن پر ماضی میں غور نہیں کیا گیا اور یوں مل جل کر پنجاب کو آئیڈیل صوبہ بنانے کے لیے کام کریں۔یہ سلسلہ اب تک ٹھیک چل رہا تھا۔ پنجاب کے تمام وزیر اپنے اپنے شعبوں میں ہی مصروف تھے کہ یکایک اپوزیشن کی جانب سے تحریک عدم اعتماد کا شوشہ چھوڑ دیا گیا۔ یہ تحریک نہ آتی تو پنجاب میں اس وقت جو شورش برپا ہے‘ کم از کم یہ نہ ہوتی۔ ایسے مواقع پر وہ لوگ بھی کھل کر سامنے آ جاتے ہیں جنہیں پارٹی سے کسی قسم کی شکایات ہوتی ہیں یا وہ دوسرے لفظوں میں بھرے بیٹھے ہوتے ہیں اور انتظار میں ہوتے ہیں کہ اپنے دل کا غبار نکال سکیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ عبدالعلیم خان اور جہانگیر ترین کی تحریک انصاف کے لیے بہت زیادہ خدمات ہیں۔ دونوں شخصیات کو اپوزیشن جماعتیں تحریک انصاف کی اے ٹی ایم کے القابات سے پکارتی رہیں لیکن یہ پھر بھی پارٹی کے ساتھ کھڑے رہے۔ صرف یہ دو ہی نہیں‘ تحریک انصاف کو تحریک انصاف بنانے میں درجنوں اور اہم لوگ بھی تھے‘ جو اب پس پردہ جا چکے ہیں۔ جسٹس (ر)وجیہ الدین کو کون بھول سکتا ہے؟ وہ پارٹی کے بانیوں میں سے ایک تھے۔ جہانگیر ترین ‘عبدالعلیم خان‘ اسلام آباد دھرنے اور دیگر معاملات کو کامیاب بنانے میں پیش پیش تھے‘ عمران خان کو وزیراعظم بنانے میں سب سے زیادہ کردار جہانگیر ترین کا ہی تھا مگر بعد ازاں انہیں سائیڈ لائن کر دیا گیا۔ یہ کس نے کیا‘ یہ سوال عبدالعلیم خان خود بھی وزیراعظم سے پوچھ رہے ہیں۔ وہ جیل میں بھی رہے‘ ان پر مقدمات بھی بنے۔ بالآخر انہوں نے استعفیٰ دے دیا اور کچھ عرصہ ترین صاحب کی طرح سیاسی خاموشی اختیار کئے رکھی مگر اب دونوں سرگرم ہیں۔ وزیراعظم صاحب اگر پارٹی میں اتحاد و اتفاق قائم رکھتے اور تمام مخلص ساتھیوں کو لے کر آگے چلتے تو کسی کو بھی ان کی طرف انگلی اٹھانے کی جرأت ہوتی‘ نہ ہی آج پارٹی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتی۔ آج تحریک انصاف کا عام ورکر بھی ملک اور جماعت کی حالت دیکھ کر گومگو کا شکار ہے۔ سوال یہ ہے کہ آج اگر حکومت بچانے کے لیے خان صاحب ایم کیو ایم ‘قاف لیگ اور دیگر سیاسی جماعتوں کے دروازوں پر جا رہے ہیں تو پھر اپنی پارٹی کے ان ساتھیوں کو وہ کیوں اہمیت نہیں دے رہے؟ ان کے گھروں پر ملنے کیوں نہیں گئے؟ کیوں ان کی ناراضی دُور کرنے کی کوشش نہیں کی؟ یہ تو اُن کی اپنی جماعت کے لوگ ہیں۔ آخر وہ کون لوگ ہیں جو انہیں ایسا کرنے سے روک رہے ہیں؟ وزیراعظم صاحب کو سوچنا چاہیے کہ کیا ایسا کرنے والے‘ جو ملک کی مقبول ترین سیاسی جماعت میں کامیابی سے دراڑیں ڈال رہے ہیں‘ ان سے مخلص ہیں؟ انہیں یہ بھی سوچنا چاہیے کہ کیا تحریک انصاف کو ایسے لوگوں کی آئندہ ضرورت نہیں پڑنی؟ کیا یہ آخری الیکشن تھا جو پی ٹی آئی نے لڑنا تھا کہ اس نے اپنوں‘ غیروں سب سے دشمنی مول لے لی۔
اس صورتحال میں سب سے زیادہ مایوسی ان نوجوانوں کو ہوئی ہے جو یہ سمجھ رہے تھے کہ شاید اب کی بار واقعی حقیقی تبدیلی آئے گی‘ سٹیٹس کو ختم ہو جائے گا‘ چھانگا مانگا اور مفاد کی سیاست کا خاتمہ ہو گا‘ پرانے حکومتی پروگراموں کو نئے پروگراموں سے تبدیل نہیں کیا جائے گا‘انصاف دہلیز پر اور جلد ملے گا‘روزگار کے نئے در کھلیں گے اور پارٹی کے حقیقی نمائندوں کو آگے بڑھنے اور کام کرنے کا موقع دیا جائے گا۔ اس افراتفری کی سیاست میں کسی کا نقصان نہیں ہو گا سوائے عوام اور ملک کے‘ کہ سیاستدانوں کے یہ ٹولے تو اِدھر سے اُدھر اور اُدھر سے اَدھر ایڈجسٹ ہو جائیں گے‘ ان کا دال دلیا پہلے کی طرح چلتا رہے گا لیکن اس سیاسی کھچڑی کی وجہ سے عوام اور ملک پھر کہیں پیچھے رہ جائیں گے۔