نوبیل ایوارڈ کو دنیا کا سب سے بڑا ایوارڈ مانا جاتا ہے۔ امریکہ 383ایوارڈز کے ساتھ دنیا میں سب سے زیادہ نوبیل ایوارڈ لینے والا ملک بن چکا ہے۔ برطانیہ 132ایوارڈز کے ساتھ دوسرے‘ جرمنی 108ایوارڈز کے ساتھ تیسرے ‘ فرانس 68ایوارڈز کے ساتھ چوتھے اور سویڈن 32ایوارڈز کے ساتھ پانچویں نمبر پر ہے۔ بھارت میں 12افراد نوبیل انعام یافتہ ہیں جبکہ پاکستان میں دو افراد کو یہ اعزاز حاصل ہوا ہے ۔پروفیسر عبدالسلام کو 1979ء میں فزکس کے شعبے میں یہ ایوارڈ دیا گیا جبکہ 2014میں ملالہ یوسف زئی کو امن کے نوبیل ایوارڈ سے نوازا گیا۔ اب تک943 افراد اور 25تنظیمیں غیرمعمولی کاوشوں پر یہ انعام حاصل کر چکی ہیں۔
نوبیل ایوارڈ کا بانی الفریڈ نوبیل 21 اکتوبر 1833ء کو سویڈن کے شہر سٹاک ہوم میں پیدا ہوا۔یہ پانچ بھائیوں میں تیسرے نمبر پر تھا‘ یہ بھائیوں کی نسبت تیز‘ ذہین اور شرارتی بھی تھا اور تعلیم میں ان سے آگے بھی۔ اس کا والد روس کی اسلحہ سازکمپنی کیلئے کام کرتا تھا‘ اٹھارہ برس کی عمر میں وہ امریکہ چلا گیا اور کیمسٹری میں مہارت حاصل کرنا شروع کی‘ اس کا استاد جان ایرکسن تھا جس نے پہلا جدید امریکی بحری جنگی جہاز ڈیزائن کیا تھا‘ وہ چار برس کیمسٹری پڑھتا رہا اور سویڈن واپس آ کر خود کو دھماکہ خیز مواد کی تحقیق کیلئے وقف کر دیا۔ وہ روزانہ بیس بائیس گھنٹے کتابوں اور تجربات میں الجھا رہتا۔ اس کی لیب میں انتہائی خطرناک کمپائونڈز اور آلات ہوتے۔ وہ خطرناک ترین دھماکہ خیز مواد بنانے کا شوقین تھا اور یہ سب وہ موت سے صرف چند سنٹی میٹرز کے فاصلے پر کر رہا تھا۔ 3ستمبر 1864ء کے روز اس کی لیب دھماکے سے گونج اٹھی اور اس کے پانچ معاون ہلاک ہو گئے ان میں الفریڈ کا چھوٹا بھائی بھی تھا لیکن یہ موت بھی اسے جنون سے باز نہ رکھ سکی اور چند ہی برسوں میں اس نے خطرناک ترین ہتھیار بنا ڈالا‘ اس کا نام ''ڈائنا مائٹ‘‘ رکھا گیا اور اس ڈائنامائٹ نے اسے دولت اور شہرت کی بلندیوں پر لا کھڑا کیا۔ دنیا بھر کے ممالک اور اسلحہ ساز کمپنیاں اس کے گھر پہنچ گئیں۔ اس نے درجنوں ممالک سے ایک معاہدہ کیا اور دنیا کے سینکڑوں کارخانوں میں بیک وقت ڈائنا مائٹ کی تیاری شروع ہو گئی۔ اس نے کل تین سو پچپن ایجادات کیں لیکن ڈائنامائٹ اس کی سب سے معروف ایجاد تھی۔ 1888ء تک اس کی پہچان ایک موت کے سوداگر کی تھی لیکن پیرس کے ایک سفر نے اس کی زندگی بدل دی‘ کینز فرانس کا ایک خوبصورت شہر ہے‘ یہ سیاحوں کی جنت ہے اور ہر سال یہاں ورلڈ فلم فیسٹول بھی منعقد ہوتا ہے‘ وہ 1888ء میں تفریح کیلئے یہاں آیا اور یہاں اخبارات میں جب اپنی موت کی خبر پڑھی تو اپنا امیج تبدیل کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ یہ خبریں اسے احساس دلا رہی تھیں یہ کتنا برا شخص ہے اور دنیا اسے مرنے کے بعد کن لفظوں میں یاد کر رہی ہے۔ یہ خبریں اخبارات نے جان بوجھ کر شائع نہیں کی تھیں بلکہ یہ ایک غلط فہمی کا نتیجہ تھا‘ اسی وقت اس نے ایک تاریخی فیصلہ کر لیا‘ اس نے تباہی کی مزید تخلیق سے توبہ کر لی‘ اسی وقت بارود اور جنگی مواد کے سارے کے سارے آرڈر کینسل کیے ‘ قلم اٹھایا اور وصیت لکھ ڈالی‘ اس نے لکھا‘ مرنے کے بعد اس کی ساری دولت ان ذہین لوگوں کے نام کر دی جائے جو دنیا میں امن کیلئے کام کریں اور دنیا کا جو بھی شخص فزکس‘ کیمسٹری‘طب‘ ادب میں غیرمعمولی کارکردگی دکھائے گا اسے ایوارڈ اور خطیر رقم دی جائے گی۔ اپنی زمینوں اور ڈائنامائٹ سے کمائی گئی دولت کے باعث 1896ء میں اپنے انتقال کے وقت نوبیل کے اکاؤنٹ میں 90 لاکھ ڈالر کی رقم تھی۔نوبیل ایوارڈ ہر سال اس شخص کو ملتا ہے جو فزکس‘ کیمسٹری‘ طب‘لٹریچر اور امن پر کام کرے اور نوبیل پرائز دینے کا جو سلسلہ 1901ء سے شروع ہوا تھا آج تک جاری ہے۔
نوبیل ایوارڈ محض ایک انعام نہیں اور یہ صرف اس شخص یا ایک ادارے کیلئے اعزاز نہیں جسے یہ ملتا ہے بلکہ اس ملک کی ویلیو ایڈیشن‘ اس کی پذیرائی اور اس کی عزت میں بھی انتہائی اضافے کا باعث بنتا ہے۔ نوبیل انعام یافتہ شخص کو دنیا بھر کی اہم تقریبات میں مدعو کیا جاتا ہے ‘ وہ گاہے گاہے مختلف پلیٹ فارمز پر اپنے خیالات کا اظہار کرتا ہے اور دنیا کو درپیش چیلنجز کو اجاگر کرنے اور ان کے حل کے لئے بھی آواز اٹھاتا ہے اور یہ آواز بہر حال ایک عام آواز سے کئی گنا توانا اور پراثر ہوتی ہے کیونکہ عالمی میڈیا اسے بھرپور کوریج دیتا ہے اور ہر کوئی ایسے شخص سے ملنے ‘ اس کا آٹو گراف لینے اور اس کے خیالات جاننے کیلئے بے تاب بھی رہتا ہے۔ پاکستان کی خوش قسمتی ہے کہ ملک میں دو دہائیوں سے بلاسود قرضہ فراہم کرنے والی فلاحی تنظیم اخوت کے بانی ڈاکٹر امجد ثاقب کو اب تیسرے نوبیل انعام کیلئے نامزد کیا گیا ہے۔دس ہزار روپے سے شروع ہونے والا یہ ادارہ اب تک تقریباً 160ارب روپے بطور قرض دے چکا ہے۔ ڈاکٹر امجد ثاقب نے کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج یونیورسٹی سے ایم بی بی ایس کرنے کے بعد سول سروس جوائن کی اور وہاں بھی اپنی انتظامی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ تاہم وہ روایت اور معمول سے ہٹ کر کچھ ایسا کرنے کے خواہش مند تھے جس سے پاکستان میں غربت بھی کم ہو اور لوگ جائز طریقے سے آمدن کما کر اپنے پائوں پر کھڑے بھی ہو سکیں۔ سرکاری ملازمت سے مستعفی ہوئے اور دو ہزار ایک میں اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ مل کر چھوٹی سی رقم سے بلاسود قرضہ سکیم شروع کی ۔ اخوت کی بنیاد مواخات مدینہ پر رکھی گئی ہے اور یہ آج دنیا میں بلا سود قرض دینے والا دنیا کا سب سے بڑا ادارہ بن چکا ہے۔پاکستان جیسے ملک میں جہاں کرپشن اور دھوکہ دہی عام ہے اور لوگ اور ادارے قرضے لے کر ہڑپ کر جاتے ہیں‘ نقصان ظاہر کرتے ہیں اور قرضوں کو کئی دہائیوں کیلئے ری شیڈول کروا لیتے ہیں وہاں حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس سکیم میں قرضہ واپسی کی شروع ننانوے فیصد سے بھی زیادہ ہے۔ قرآن میں سود کے لین دین کے حوالے سے سخت ترین احکامات آئے ہیں اور سود کو اللہ اور اس کے رسول ؐ کے خلاف اعلان جنگ بھی قرار دیا گیا ہے؛ چنانچہ ایک ایسے ملک اور ایسے ماحول میں جب پوری دنیا کا معاشی نظام سود نے جکڑ رکھا ہو وہاں پر اس طرح کی بلاسود سکیم شروع کرنا کسی جہاد سے کم نہیں۔یہ بنیادی طور پر اسلامی ممالک کی حکومتوں کے کرنے کے کام تھے جو یہ تنظیم اپنے طور پر کر رہی ہے۔ 1973ء کا آئین قرآن و سنت کے احکامات کے تحت بنایا گیا ہے تو پھر یہاں سود کے لین دین پر بھی پابندی ہونی چاہیے۔ سود پر قرض لینے والا تو پھنستا ہی ہے دینے والے کو بھی روز حشر اپنا حساب دینا پڑے گا۔ اسلامی ممالک میں ایک شخص کا اکیلے سود کے خلاف کھڑے ہونا بہت بڑی بات ہے۔
نوبیل امن انعام 2022 کے لیے دنیا بھر سے 343 امیدواروں کا انتخاب کیا گیا ہے جس میں 251 انفرادی شخصیات اور 92 ادارے شامل ہیں۔ ان میں ڈاکٹر امجد ثاقب کا نام غربت کے خاتمے کیلئے کوشش اور انسانیت کی خدمت پر نوبیل امن انعام کے لیے نامزد کیا گیا ہے۔اگرچہ وہ جس نیت کے ساتھ یہ کام کر رہے ہیں انہیں کسی ایوارڈ کی ضرورت نہیں اور ان کی تسکین تو اس وقت ہو جاتی ہے جب کوئی شخص یا کوئی خاندان غربت اور بے روزگاری کے باعث خودکشی کرنے کی بجائے قرض لیکر چھوٹا موٹا کام کرتا ہے اور اپنی زندگی کو باعزت انداز میں گزارنے لگتا ہے۔ جو خوشی اور جو طمانیت ایسے محروم طبقے کی خدمت سے ہو سکتی ہے اس کے سامنے دنیا کا ہر اعزاز ہیچ ہے۔پوری قوم ڈاکٹر کے لئے دعا گو ہے اللہ انہیں ان کے نیک مقاصد میں کامیاب کرے۔