کچھ رشتے ایسے ہوتے ہیں جن کے جانے کے بعد ان کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے اور زندگی بھی پہلے جیسی نہیں رہتی۔ ان میں سب سے اہم رشتہ ماں کا ہے۔ بچے کی پیدائش سے لے کر ماں کے خود دنیا سے چلے جانے تک اس کے بچوں کی کوئی مسلسل فکر کرتا ہے تو وہ ماں ہی ہوتی ہے۔ باقی سب اپنے اپنے کاموں اور اپنی اپنی مصروفیاتِ زندگی میں مگن ہو جاتے ہیں لیکن ماں بچوں کو کبھی نہیں بھولتی ‘ چاہے بچے پچاس ساٹھ برس کے ہی کیوں نہ ہو جائیں اور مائیں اسی نوے برس کی عمر کو ہی پہنچ جائیں۔ وہ بچوں کو مسلسل اٹھنے بیٹھنے‘ کھانے پینے ‘ گھروں میں آنے جانے اور لوگوں سے ملنے جلنے کے آداب بتاتی اور دہراتی رہتی ہیں۔ ان کی صحت کا مسلسل خیال رکھتی رہتی ہیں ‘گھر سے باہرنکلنے سے واپس آنے تک ان کے لیے دعائیں بھی کرتی ہیں اور ان کے انتظار میں دروازہ بھی تکتی رہتی ہیں‘ جب تک وہ گھر کی دہلیز پر قدم نہیں رکھ دیتے۔ چونکہ ماں نے بچوں کو اس وقت سے پالا ہوتا ہے جب وہ چلنے پھرنے کے قابل نہ تھے تو انہیں بچوں کی پسند نا پسند‘ ان کی کمزوریاں کوتاہیاں سب کچھ دوسروں سے زیادہ معلوم ہوتی ہیں۔ انہیں پتہ ہوتا ہے کہ میرا بچہ کب اور کس بات پر افسردہ ہوتا ہے‘ کس بات پر راضی اور خوش ہوتا ہے اور کس بات پر ناراض اور غصے میں آ جاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں بچوں میں جو سافٹ ویئر ہوتا ہے اس سے خدا کے بعد مائیں ہی واقف ہوتی ہیں ۔ ایک ہی گھر میں اگر چار پانچ یا زیادہ بچے بھی ہوتے ہیں تو ان سب کی الگ الگ پسند‘ الگ الگ ضد اور عادات و سکنات ہوتی ہیں۔ ناشتے کی میز ایک ہوتی ہے لیکن بچے ایک جیسا ناشتہ نہیں کرتے۔ سب کے لیے برس ہا برس ایک اکیلی ماں روزانہ صبح سے لے کر رات تک طرح طرح کے ناشتے‘ کھانے اور دیگر مزیدار ڈشیں بناتی ہے لیکن مجال ہے کہ اس کے ماتھے پر کبھی کوئی بل آتا ہو۔یہی نہیں بچوں کے سکول کی تیاری‘ اس کے بعد گھر کی صفائی ستھرائی‘ کپڑوں کی دھلائی‘ دوپہر کا کھانا اور پھر رات تک اگر کوئی مسلسل اولاد کی خدمت کرتا ہے تو وہ ماں ہے۔ باپ بھی اپنی جگہ انتہائی کٹھن زندگی گزارتا ہے اور دنیا کی کڑوی کسیلی باتیں‘ طوفان اور پتھر اپنے دل پر سہہ لیتا ہے ۔ ساری زندگی بیوی بچوں کے لیے دوڑ دھوپ کرتا ہے اور کولہو کے بیل کی طرح رزق کی تلاش میں سرگرداں رہتا ہے۔ تاہم قدرت کا اپنا نظام ہے کہ نہ باپ ماں کی جگہ لے سکتا ہے نہ ماں باپ کی۔ باپ تو ماں کی جگہ ایک دن بھی ذمہ داری ٹھیک سے ادا نہیں کر سکتااور چھٹی کے دن پورے ہفتے کی تھکن سو کر اتار نے کا خواہشمند رہتا ہے لیکن مائوں کو تو عید کے دن بھی چھٹی نہیں ملتی۔باپ کو ایک دن گھر میں رہ کر بچوں کو سنبھالنا پڑے تو اس کی چیخیں نکل جاتی ہیں اور یہ حقیقت ہے کہ قدرت نے برداشت کی جو قوت اور صبر کی جو نعمت مائوں میں رکھی ہے وہ کسی اور میں نہیں ہے۔ اسی لئے تو ماں کا حق باپ کی نسبت تین گنا قرار دیا گیا ہے۔
بچپن میں سنتے تھے ماں کے بغیر گھر قبرستان ہے۔ اب آ کر پتہ چلا کہ ماں نہ ہو تو پوری دنیا ‘پوری زندگی ہی ویران اور بے رنگ ہو جاتی ہے۔ وہی لوگ ‘ وہی تہوار اور وہی کامیابیاں ہوتی ہیں لیکن ان میں پہلے والی کشش ‘ذائقہ اور خوبصورتی باقی نہیں رہتی۔ ہر چیز برائے نام ‘ مصنوعی اور بے معنی محسوس ہوتی ہے۔آج آٹھ مئی ہے۔ آج سے ٹھیک سات برس قبل آٹھ مئی کو جمعہ کا دن تھا۔ والدہ ایک ماہ سے دل کے آپریشن کے بعد ہسپتال میں داخل تھیں۔ اس دوران ڈاکٹر ہسپتال سے باہر نکلتے ہوئے جب نہر کے بائیں جانب پھولوں کی خوبصورت کیاریوں پر نظر پڑتی تو پھول رنگ برنگے اور کِھلے کِھلے دکھائی دیتے۔ یوں لگتا جیسے پھول کہہ رہے ہوں کہ والدہ ٹھیک ہو جائیں گی اور میں گاڑی میں بٹھا کر انہیں گھر لے جائوں گا۔ لیکن ایک ماہ کے دوران جب دوسری بار ان کا بائی پاس ہوا تو اس روز وہی پھول بے رنگ‘ مرجھائے اور آنسو بہاتے دکھائی دیے ۔ پھول ان کی کمزوری تھے۔ مارچ میں ہر سال ریس کورس میں پھولوں کی نمائش لگتی توہم وہاں ضرور جاتے۔ وہ اٹھائیس دن ہسپتال میں رہیں تو اس دوران مجھ میں اتنی ہمت نہیں ہوئی کہ میں سڑک کنارے اور کیاریوں میں لگے خوبصورت پھولوں کو ٹھیک سے دیکھ سکوں۔ مجھے ہر پھول میں ان کا چہرہ دکھائی دیتا۔ ایک روز پھولوں کا گلدستہ بنا کر ہسپتال لے گیا لیکن آئی سی یو میں اندر لے جانے کی اجازت نہیں ہوتی۔ پھر ایک دن مصنوعی سجاوٹی پھول لئے تو اجازت مل گئی ‘ دبے پائوں ان کے پاس پہنچا ۔ وہ غنودگی میں تھیں۔ میں نے سوچا ہر طرح کی ادویات دے کر دیکھ لیں۔ ایک ماہ میں دو آپریشن بھی ہو گئے۔ اس سے تین چار ماہ قبل سٹنٹ بھی ڈالے گئے مگر ان کی صحت بحال نہ ہو سکی۔ خیال آیا پھول دیکھ کر شاید ان کی طبیعت بہل جائے تاہم انہوں نے آنکھیں نہ کھولیں ۔ نرس نے تھوڑا بلند آواز میں کہا‘ اٹھیں ماں جی آپ کا بیٹا آپ کے لیے پھول لایا ہے۔ میں تھوڑا قریب گیا۔ ان کے ماتھے پر ہاتھ رکھا تو انہوں نے گردن اٹھانے کی کوشش کی لیکن کمزوری اور بیماری کی نقاہت کی وجہ سے دوبارہ بے سدھ ہو گئیں۔ پھر چند لمحوں کے لیے آنکھیں کھولیں تو میں پھول ان کی آنکھوں کے بہت قریب لے گیا۔ انہوں نے پھولوں کو دیکھا لیکن انہیں ان میں کوئی کشش محسوس نہ ہوئی اور انہوں نے گردن دوسری طرف ڈھلکا کر دوبارہ آنکھیں بند کر لیں۔ میں خود پر قابو نہ رکھ سکا اور آئی سی یو سے باہر نکل آیا۔ میں سمجھ گیا خدا کو شاید کچھ اور منظور ہے۔ آٹھ مئی کو اسی شام ڈاکٹروں نے خون کی دو بوتلیں مانگیں۔ انتظام بھی ہو گیا لیکن پھر وہ ہوا جو کبھی سوچا تو تھا لیکن یقین نہیں آتا تھا کہ ایسا واقعی ہو گا اور ماں ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر چلی جائے گی۔
دنیا میں مائوں کا عالمی دن ہر مئی کی دوسرے اتوار کے دن منایا جاتا ہے۔ آج آٹھ مئی بھی ہے اور مائوں کا عالمی دن بھی۔ یہ دن اور یہ لمحات قیامت سے کم نہیں لگتے کہ جب ہر جانب مائوں کا ہی ذکر ہو رہا ہوتا ہے ۔ ان راستوں اور ان جگہوں سے گزرنا بھی اب مشکل لگتا ہے جن راستوں پر ماں کے ہمراہ جایا کرتے تھے۔ اب محسوس ہوتا ہے جن کی مائیں زندہ ہیں وہ دنیاکے امیر اور خوش قسمت ترین انسان ہیں کہ مائوں کے بعد انسان زندگی ایسے گزارتا ہے جیسے پیاسا صحرا میں پانی کیلئے تڑپتا ہے۔ پیاسے کو تو پھر پانی مل سکتا ہے لیکن ماں تو دوبارہ نہیں آتی۔ صرف یادیں اور باتیں باقی رہ جاتی ہیں۔ انسان ان لمحات کو یاد کرتا ہے کہ جب ماں کے ہوتے ہوئے وہ اپنا وقت گھر سے باہر دوستوں اور غیروں کے ساتھ گزارتا تھا۔ سوچتا ہے کاش وہ وقت بھی ماں کو دیا ہوتا۔ اس کے قدموں‘ اس کی آغوش میں بیٹھ کر جی بھر کے باتیں کی ہوتیں۔ اس کی سنی ہوتی‘ کچھ اپنی سنائی ہوتی۔کچھ نہیں تو خاموشی کے ساتھ ماں کے آنچل کی ٹھنڈی چھائوں میں ہی وہ وقت گزارا ہوتا‘ جو وقت اِدھر اُدھر سیرو تفریح اور دوستوں یاروں کی محفلوں میں ضائع کیا۔اب پتہ چلا ہے جس گھر میں ماں موجود ہو وہاں خوشیاں ڈھونڈنے کے لیے باہر جانے کی بھلا کیا ضرورت ہے کہ ماں سے بڑی کوئی خوشی ہے نہ ہی نعمت ۔
آسمان تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے