پاکستان اور بھارت جیسے ممالک کا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں کا سیاسی نظام عدم توازن اور عدم مساوات کا شکار ہے۔ ملک کے جن دس پندرہ فیصد لوگوں کے پاس سب سے زیادہ دولت ہے وہ سب سے کم ٹیکس دیتے ہیں جبکہ کم آمدن والے طبقے کو بھی جگہ جگہ ٹیکس دینا پڑتا ہے۔ پھر آئے روز پٹرول‘ بجلی اور دیگر اشیا کی قیمتیں بڑھنے سے جو اس پر اضافی بوجھ پڑتا ہے اس سے نمٹنے کا بھی اس کے پاس کوئی علاج نہیں ہوتا۔ حکومت نے تنخواہ دار افراد پر جو نیا انکم ٹیکس لگایا ہے‘ اس پر بہت سے لوگوں کو اعتراض ہو سکتا ہے کہ ٹیکس تو لگائے جا رہے ہیں لیکن بدلے میں عوام کو سہولیات نہیں دی جاتیں۔ حکمرانوں کی بات سنیں تو وہ کہتے ہیں کہ ہمارا خزانہ خالی ہے۔ بیرونی قرضے‘ بجٹ خسارہ اور حکومتی مشینری چلانے کے لیے بھی حکومت کے پاس پیسہ نہیں ہے تو وہ کس طرح عوام کو بلند معیار کی سہولیات مہیا کرے۔ اگرچہ پاکستان میں ٹیکس کی شرح دیگر ملکوں سے بہت کم ہے لیکن براہِ راست اور بالواسطہ ٹیکسوں کو دیکھیں تو شہریوں کی بڑی تعداد اپنی تنخواہ کا پچاس فیصد سے زائد ٹیکسوں میں دے دیتی ہے۔ گزشتہ روز حکومت نے انکم ٹیکس نئی شرح کے ساتھ نافذ کیا ہے۔ پچاس ہزار روپے ماہانہ کمانے والوں پر ڈھائی فیصد ٹیکس عائد ہے جو بظاہر برائے نام ہے لیکن یہ وہ لوگ ہیں جو بالواسطہ شاید سب سے زیادہ ٹیکس دیتے ہیںکیونکہ پچاس ہزار ماہانہ یا اس سے کم کمانے والوںکی تعداد ملک میں سب سے زیادہ ہے۔ یہ لوگ ایک سو روپے کا موبائل کارڈ لوڈ کرتے ہیں تو اس میں سے کٹوتی کی جاتی ہے۔ کوئی بھی چیز‘ ادویات‘ پٹرول کچھ بھی خریدتے ہیں تو اس پر سیلز ٹیکس بھی دے رہے ہوتے ہیں۔ جبکہ سیلز ٹیکس صرف دکاندار حضرات پر عائد ہونا چاہیے لیکن یہاں ہر شخص کو دکاندار سمجھ کر اس سے ٹیکس لیا جا رہا ہے۔ اسی طرح موٹر سائیکل خریدنے‘ بیچنے‘ اپنے نام کروانے‘ اس کے پرزے خریدنے پر بھی روزانہ کروڑوں اربوں روپے بھی ایسے ہی کمزور طبقے سے لیے جا رہے ہیں ۔ آئے روز پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں جو اضافہ کیا جاتا ہے‘ اس سے بھی ملک کا ستر اسی فیصد سے زیادہ یہ نچلا اور درمیانہ طبقہ ہی متاثر ہوتا ہے اور اپنی آدھی کمائی کسی نہ کسی ٹیکس اور سرکاری فیس کی مد میں دے رہا ہوتا ہے لیکن اس کے گھر کے باہر جب سرکاری سٹریٹ لائٹ نہیں جلتی‘ جب اس کی گلی میں برسوں گٹر ابلتے رہتے ہیں‘ جب وہ علاج کے لیے سرکاری ہسپتال جائے اور اسے دوا اور علاج نہ ملے‘ جب اس کے بچے کو سرکاری کالج میں فیس میں رعایت نہ ملے‘ ٹرانسپورٹ پر سفر میں رعایت میسر نہ ہو‘ بچوں کی شادی کے وقت اسے کوئی سرکاری فنڈ سے معاونت نہ حاصل ہو سکے تو پھر اس طبقے کا یہ سوچنا بنتا ہے کہ وہ سب سے کم آمدنی کما رہا ہے اور اس آمدنی کے حساب سے سب سے زیادہ ٹیکس دے رہا ہے لیکن سماج میں اس کی حیثیت کیڑے مکوڑوں سے زیادہ نہیں ہے تو پھر اس کا غصہ اور اس کی پریشانی سو فیصد بجا ہے اور حکومتوں کو ان کا مداوا کرنا چاہیے جبکہ حکومتوں کے پاس بھی ایسے درجنوں جواز ہوتے ہیں کہ جن کو دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ان کے ہاتھ میں بھی کچھ زیادہ اختیار نہیں ہے۔ پھر سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب اسی طرح چلتا رہے گا۔ ایک حکومت جائے گی دوسری آئے گی تو وہ سابق حکومت کی غلطیوں اور پالیسیوں کو وجہ بنا کر عوام پرمزید بوجھ ڈال دے گی‘ پرانے قرضے اور سود اتارنے کے لیے نئے قرضے لے گی اور یہ سارا بوجھ آئی ایم ایف کے حکم پر عوام پر منتقل کر دے گی اور وہ بھی ان عوام پر جو دو وقت کی روٹی کمانے اور کھانے کے قابل بھی نہیں رہے۔ پٹرول کی قیمتیں اگر مزید بڑھتی رہیں تو پھر گاڑی تو ماضی کا قصہ بن جائے گی اور موٹر سائیکل بھی بہت سے لوگوں کی پہنچ سے دور ہو جائے گی۔ لاہور شہر کی بات کریں تو کسی بھی شخص کو شہر میں ایک سے دوسرے مقا م پر جانے کے لیے اوسطاً بیس سے تیس منٹ لگتے ہیں۔ اگر کسی کے پاس عام پٹرول گاڑی ہے تو اس وقت اس بندے کا کسی بھی جگہ تیس منٹ جانے اور آنے کا اوسطاً سولہ سو روپے کا پٹرول لگ رہا ہے۔ جبکہ رائیڈ ہیلنگ ایپ کے ذریعے اگر تیس منٹ کا فاصلہ طے ہوتا ہے تو ایک ہزار روپے کا بل بن رہا ہے۔ موٹر سائیکل پر بھی اب سفر سستا نہیں رہا۔ ایک لٹر میں عموماً موٹرسائیکل بھی تیس چالیس کلومیٹر ہی کرتی ہے۔ یوں ساٹھ کلومیٹر اگر کسی نے روزانہ شہر میں دفاتر و دیگر کاموں کے لیے سفر کرنا ہے تو اس کا دو اڑھائی لٹر تو خرچ ہو ہی جائے گا یعنی پانچ سے چھ سو روپے روزانہ۔ اب جس بندے کی تنخواہ پچاس ہزار سے کم ہے اس کا مہینے کا پندرہ سے بیس ہزار روپیہ موٹر سائیکل کے پٹرول پر خرچ ہو رہا ہے جو انتہائی الارمنگ ہے۔ کورونا کی وجہ سے پہلے ہی معیشت زبوں حال ہے۔ روزگار کے نئے مواقع تو دُور کی بات‘ پرانے بھی ختم ہو رہے ہیں۔ سابق حکومت نے کنسٹرکشن انڈسٹری کو چلانے کے لیے کئی طرح کے پیکیج اور ریلیف دیے جن میں انتہائی مایوس کن ایمنسٹی ریلیف بھی تھا جس کے تحت گھر خریدتے یا بناتے وقت انکم سورس نہیں پوچھا جاتا تھا جس کی وجہ سے بیرون ملک اور یہاں سے بھی ناجائز پیسہ رکھنے والوں نے اپنے پیسے وائٹ کر لیے جس سے پراپرٹی کی قیمتیں بھی آسمان کو چھونے لگیں اور عام آدمی کی پہنچ سے گھر دور ہو گیا۔ اب موجودہ حکومت آئی ہے تو رئیل سٹیٹ کا گلا دبایا جا رہا ہے۔ پلاٹوں پر بھی ٹیکس لگایا جا رہا ہے حالانکہ خالی پلاٹ پڑا پڑا کوئی انکم نہیں دے رہا ہوتا اور کئی لوگ اپنے زیور بیچ کر اور کمیٹیاں ڈال کر پلاٹ خریدتے ہیں کہ بچوں کی شادی وغیرہ کے وقت فروخت کر دیں گے۔ یہ شق حکومت کو واپس لینی چاہیے کیونکہ یہ شق انکم ٹیکس کی روح کے ہی خلاف ہے کہ جب کسی چیز سے کسی کو آمدنی آہی نہیں رہی تو اس سے کیسے آمدنی ٹیکس کا تقاضا کیا جا سکتا ہے۔ ہاں گین ٹیکس ٹھیک ہے اس پر پراپرٹی سیکٹر کو بھی زیادہ اعتراض نہیں ہونا چاہیے کیونکہ یہ منافع کے اوپر لگتا ہے۔ اگر آپ کو منافع ہوا ہے اور آپ پہلے ہی سال میں پلاٹ خرید کر بیچ دیتے ہیں تو منافع کا پندرہ فیصد بطور ٹیکس ادا کریں۔ یہاں ایسے لوگوں کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے جو عام عوام نہیں ہیں بلکہ کم از کم پانچ سے دس کروڑ روپے ہر سال رئیل اسٹیٹ میں انویسٹ کرنے والے لوگ ہیں جو سارا منافع خود لے جاتے تھے جبکہ حکومت کو سوائے ود ہولڈنگ ٹیکس کے کچھ نہیں ملتا تھا۔
ہمارے ہاں ٹیکس کا نظام آہستہ آہستہ بہتر ہو رہا ہے لیکن بیرونی قرضے اتنے زیادہ ہیں اور ایکسپورٹس اتنی کم ہیں کہ جتنا بھی ٹیکس اکٹھا ہوتا ہے‘ وہ عوام پر لگنے کی بجائے قرضے اور دیگر اخراجات کی نذر ہو جاتا ہے۔ سیاسی جماعتیں بھی اپنی پوائنٹ سکورنگ کے لیے معیشت کے اعداد و شمار کو استعمال کرتی ہیں۔ سب کو حقیقت کا پتا ہوتا ہے کہ ہمارے پلّے اصل میں ہے کیا لیکن حقیقت کوئی نہیں بتاتا۔ اپوزیشن میں رہ کر جو جماعت حکومت پر جس طرح کی تنقید کرتی ہے‘ وہ تنقید اُسی اپوزیشن کو اگلی مرتبہ اس جماعت سے سننا پڑتی ہے جو پہلے حکومت میں تھی۔ یوں یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے‘ معیشت اسی بھنور یا گرداب میں گھومتی رہتی ہے‘ عوام کے دن نہیں بدلتے لیکن عوام کے مسائل اور معیشت کی خرابی کا چورن بیچنے والے سیاستدانوں کی اپنی تقدیریں سنور جاتی ہے‘ ان کے ستارے چمک اٹھتے ہیں۔