"ACH" (space) message & send to 7575

مسائل کا سیلاب!

اس وقت پاکستان سمیت دنیا کے متعدد ممالک کی کرنسی جس تیزی کے ساتھ اپنی قدر کھو رہی ہے‘ اس سے ایسا لگنے لگا ہے کہ کچھ عرصے بعد عملی طور پر ڈالر ہی ہر ایسے ملک کی کرنسی بن جائے گا کیونکہ اب ہر چیز ڈالر کے حساب سے کیلکولیٹ کی جانے لگی ہے۔ خام تیل ‘ سونا ‘ امپورٹ ڈیوٹی‘ یہ سب کچھ ڈالر کے ساتھ اوپر نیچے ہوتا ہے اور ملکی معیشت کو بھی اوپر نیچے کر دیتا ہے۔ ایسے میں ملکی کرنسی کی کیا اہمیت رہ جاتی ہے۔ ویسے بھی ملکی کرنسی کی جو حالت ہو چکی ہے اس کے ساتھ زندگی گزارنا عملی طور پر ناممکن ہو چکا ہے۔ جس طرح کے حالات بن چکے ہیں اس میں صرف وہ لوگ ہی آسودہ زندگی گزار سکتے ہیں جن کا کوئی عزیز کمانے کے لیے بیرونِ ملک گیا ہوا ہے یا جن کا یہاں کوئی تیر تُکا لگا ہوا ہے، یا پھر وہ بھی‘ جو رہتے تو اس ملک میں ہیں لیکن یہاں بیٹھ کر روپوں کے بجائے ڈالروں میں کما رہے ہیں۔ یہ تیسری قسم کے لوگ سب سے زیادہ نفع میں ہیں کیونکہ پاکستان رہنے کے لحاظ سے ایسے لوگوں کے لیے اب بھی بہت سستا ملک ہے جن کی آمدنی ڈالروں میں ہے۔
حال ہی میں بہت سے معروف یوٹیوبرز اور سوشل میڈیا سٹارز‘ جو کینیڈا جیسے پُرآسائش ممالک میں رہتے تھے‘ پاکستان میں صرف اس لیے شفٹ ہوگئے ہیں کیونکہ وہ کینیڈا جیسے ملکوں میں کمائی تو کر رہے تھے لیکن نہ تو وہاں ایسی پُرتعیش زندگی گزارنے کا سوچ سکتے تھے جتنی اتنے ہی بلکہ اس سے بھی کم پیسوں کے ساتھ وہ پاکستان میں گزار سکتے ہیں اور نہ ہی انہیں ان ممالک میں ٹیکسوں میں وہ چھوٹ مل سکتی ہے جو یہاں مل جاتی ہے۔یہاں تو ایسے لوگوں کے لیے نان فائلر بن کر رہنا بھی گھاٹے کا سودا نہیں رہتا اور معمول سے تھوڑا زیادہ ٹیکس دینے سے بیش قیمت اثاثے اپنے نام کر ا لیتے ہیں۔ دنیا میں سب سے زیادہ کمزور کرنسی وینزویلا کا ''بولیوار‘‘ (Bolivar) سمجھی جاتی ہے۔ایک امریکی ڈالر میں 8لاکھ 18سو سے زائد بولیوار آ جاتے ہیں۔ دوسرے نمبر پر ایرانی ریال کمزور ترین کرنسی سمجھی جاتی ہے، ایک امریکی ڈالر میں بیالیس ہزار تین سو سے زائد ایرانی ریال آجاتے ہیں۔ تیسرے نمبر پر ویتنامی کرنسی ڈونگ ہے، چوتھے نمبر پر جنوبی افریقہ کے ملک Sierra Leone کی کرنسی لیون ہے، پانچویں نمبر پر انڈونیشین روپیہ ہے۔ ازبکستان، کمبوڈیا اور یوگنڈا کی کرنسیاں بھی دس کمزور ترین کرنسیوں میں شمار کی جاتی ہیں۔ بہت سے لوگوں کیلئے شاید یہ بات حیرانی کی ہو کہ دنیا میں ایسی کرنسیاں بھی ہیں جو ڈالر سے بھی زیادہ مضبوط ہیں۔ جیسے ایک کویتی دینار میں سوا تین ڈالر آ جاتے ہیں۔ اسی طرح بحرین اور عمان کے دینار اڑھائی ڈالرکے برابر ہیں۔برطانیہ کا پونڈ بھی ڈالر سے زیادہ مضبوط کرنسی ہے؛ تاہم ایک عالمی ادارے کے مطابق مقبولیت کے لحاظ سے دنیا میں امریکی ڈالر 47 فیصد کے ساتھ پہلے نمبر پر ہے۔ یورو 30 فیصد مقبولیت کے ساتھ دوسرے‘برطانوی پائونڈ 21 فیصد کے ساتھ تیسرے جبکہ بھارت کی کرنسی 13 فیصد مقبولیت کے لحاظ سے چوتھے نمبر پر ہے۔ پاکستان اس فہرست میں 32ویں نمبر پر ہے۔
پاکستان میں کرنسی کی قدر گرنے سے جو مہنگائی کی لہر آتی ہے اس کے اثرات جدید ممالک کی نسبت کہیں زیادہ شدت کے ساتھ محسوس کیے جاتے ہیں کیونکہ جدید ممالک میں پھر بھی ٹیکس کنندگان کو کہیں نہ کہیں سے سہولتیں مل رہی ہوتی ہیں، مثلاً امریکہ میں بھی مہنگائی کی شرح بہت زیادہ بڑھی ہے اور اگر ہم کورونا کی عالمی وبا کی بات کریں تو اس میں بھی لوگوں کو شدید مالی بحران کا سامنا کرنا پڑا تھا لیکن امریکی حکومت نے کھربوں ڈالر کا امدادی پیکیج جاری کیا تھا جس کی وجہ سے امریکی شہریوں کو خاصا ریلیف ملا تھا۔ امریکہ میں بارہویں جماعت تک تعلیم مفت فراہم کی جاتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ حکومت کئی اور طرح کی سہولتیں بھی ٹیکس کے بدلے دیتی ہے۔ امریکہ میں ''ٹیکس ریٹرنز‘‘ جمع کرانے کا کام خوشی خوشی کیا جاتا ہے کیونکہ لوگوں سے جو زائد یا اضافی ٹیکس وصول کیا گیا ہوتا ہے‘ وہ انہیں واپس کیا جاتا ہے اور ایک ٹیکس پیئر امریکی کو اوسطاً 800 ڈالر تک کی رقم ''ری فنڈ‘‘ کی جاتی ہے۔ برطانیہ میں دیکھیں تو وہاں بھی ٹیکس کے بدلے تمام بنیادی سہولتیں میسر ہیں۔اگرچہ وہاں بھی کورونا کے دنوں میں صحت کے حوالے سے پیچیدہ مسائل اور اموات دیکھنے کو ملیں لیکن حکومت عوام کے ساتھ کھڑی رہی اور جہاں جہاں ان کی سپورٹ کی جا سکتی تھی ‘کی گئی۔تاہم پاکستان جیسے ملک کیلئے مسائل مگرمچھ کی طرح منہ کھولے کھڑے رہتے ہیں۔ ابھی ہم کورونا کے کمر توڑ وارکے بعد سیدھے بھی نہیں ہو سکے تھے کہ سیلاب کا عذاب نازل ہو گیا۔ان دونوں بحرانوں کے درمیانی عرصے میں جو چند ماہ ملے‘ ان میں یوکرین اور روس نے جنگ شروع کر دی جس کی وجہ سے دنیا بھر میں‘ خاص طور پر ایشیا میں تیل کی قیمتیں آسمان پر چلی گئیں اور ساتھ ہی ڈالر بے قابو ہونے لگا جس کی وجہ سے مہنگائی کا ایک سیلاب آ گیا۔ پاکستان جیسے ملک میں صرف پٹرول مہنگا ہونے ہی سے ملک میں ہزاروں اشیا کی قیمتیں پل بھر میں آسمان کو چھونے لگتی ہیں۔ امپورٹڈ اشیا کی تو سمجھ آتی ہے لیکن چکن‘ دالیں‘چاول‘ بریڈ یہ سب چیزیں بھی ہاتھ سے نکلنے لگتی ہیں۔ ایک طرف لوگوں کی قوتِ خرید ختم ہو رہی ہے اور دوسری جانب اشیا کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ قلت کے خطرات بھی لاحق ہونا شروع ہو گئے ہیں۔
اس وقت سیلاب کی وجہ سے ملک کا ایک تہائی حصہ پانی میں ڈوبا ہوا ہے۔ اس جگہ پر جتنی بھی فصلیں‘ باغات‘ کارخانے اور فیکٹریاں تھیں‘ سب کچھ مکمل طور پر تباہ ہو گیا ہے۔ لاکھوں ایکڑ پر کھڑی چاول، مرچ اور چنے سمیت دیگر فصلوں کو نقصان پہنچا ہے جس کی وجہ سے ملک کے دیگر حصوں میں چیزوں کی قلت کے ساتھ ساتھ سپلائی کے مسائل بھی پیدا ہو گئے ہیں کیونکہ ان علاقوں کی رابطہ سڑکیں بھی پانی میں بہہ چکی ہیں۔ اب ایک طرف تو پاکستان قرضوں تلے ڈوبا ہوا ہے دوسری طرف اس کی کرنسی بھی روز بروز اپنی قدر کھو رہی ہے۔ پھر تین سے چار کروڑسیلاب زدگان اور انفراسٹرکچر کی بحالی بھی بہت بڑا چیلنج ہے۔ یہ اتنا بڑا بحران ہے جو پاکستان کی جگہ کسی مغربی ملک کو بھی درپیش ہوتا تو شاید اکیلے حل نہ کر پاتا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے گزشتہ دنوں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کیا۔ جہاں انہوں نے دنیا بھر کے ممالک کی توجہ اس طرف مبذول کرائی کہ وہ پاکستان کی مدد کیلئے آگے بڑھیں‘ وہیں انہوں نے یہ بھی باور کرایا کہ یہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی غلط پالیسیوں کا خمیازہ ہے جو ہمیں بھگتنا پڑ رہا ہے۔ سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ گزشتہ دنوں پاکستان کے دورے پر تھے تو انہوں نے یہ بات ڈنکے کی چوٹ پر کہی تھی کہ حالیہ سیلاب دراصل ترقی یافتہ ممالک کی نااہلی کے نتیجے میں پاکستان کو بھگتنا پڑا ہے۔ ان کی بات سو فیصد درست ہے۔
اب سیلاب کے بعد مسائل کئی گنا ہو چکے ہیں۔ یہ ڈینگی کا موسم ہے اور ملک کے دیگر حصوں کی طرح سیلاب زدہ علاقوں میں بھی لوگ ڈینگی کا شکار ہو رہے ہیں۔ ملیریا نے بھی لوگوں کو اپنی جکڑ میں لے لیا ہے۔ دیگر وبائی امراض کی طرح ہیضہ نے بھی زندگی اجیرن بنا دی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ ہر جانب ایک قیامت برپا ہے۔ سیلابی پانی اتنے وسیع رقبے پر پھیل چکا ہے کہ دریا اور خشک علاقوں میں تمیز ہی ختم ہو چکی ہے۔ دنیا کو یہ باور کرانے کی ضرورت ہے کہ وہ آگے بڑھے اور ان قیامت خیز لمحات میں پاکستان کا ہاتھ بٹائے۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات سے نمٹنے کیلئے نہ صرف پاکستان کو کوشش کرنی چاہیے بلکہ اس سے کہیں زیادہ ذمہ داری جدید ممالک پر عائد ہوتی ہے جن کی وجہ سے ہمیں اس بحران سے دوچار ہونا پڑا۔ ہماری کرنسی اور معیشت پہلے ہی زوال پذیر ہیں۔ سیاسی حالات بھی نارمل نہیں ہو پا رہے۔ ہر طرف ایک کھینچا تانی کا سلسلہ ہے۔ شور اتنا ہے کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔سیلاب کے المیے سے نمٹنا کسی ایک حکومت یا چند خیراتی اداروں کے بس کی بات نہیں۔ اس کیلئے بائیس کروڑ عوام کو اور تمام اداروں اور جماعتوں کو اپنے ذاتی مفادات ایک طرف رکھ کر مل کر جدوجہد کرنا ہو گی۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ مغربی ممالک اور عالمی اداروں کو یہ باور کرانا ہو گا کہ وہ پاکستان کے قرضے ری شیڈول کریں۔ اس بحران سے نمٹنے کیلئے مدد اس وقت تک جاری رکھی جائے جب تک سیلاب سے ہونے والی تباہی کا مکمل طور پر مداوا نہیں کر لیا جاتا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں