اسحاق ڈار نے لندن سے واپس آنے کے بعد وزارتِ خزانہ کا چارج سنبھال لیا ہے۔ اس وقت حکومت اسحاق ڈار سے خاصی امیدیں وابستہ کیے ہوئے ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ڈار صاحب عارضی طور پر ڈالر کو نیچے لے آئیں اور اس کی قیمتیں مستحکم کر لیں لیکن یہ حقیقت بھی پیشِ نظر رہنی چاہیے کہ وہ قلیل مدت میں اس مسئلے کا مستقل حل نہیں نکال سکیں گے۔ جب تک پاکستان کی برآمدات نہیں بڑھیں گی‘ یہ عفریت ہر چار‘ چھ مہینے بعد سر اٹھاتا رہے گا۔ روپے کو عارضی طور پر مستحکم کرنے کی گزشتہ چند ماہ میں کئی کوششیں کی جا چکی ہیں۔ ہر مرتبہ ڈالر کا ریٹ کچھ کم ہوتا ہے لیکن پھر دوبارہ سے سر اٹھا لیتا ہے۔ ڈالر جب تک برآمدات کے ذریعے ملک میں نہیں آئے گا‘ تب تک یہ بحران یونہی برقرار رہے گا۔ اس کے لیے ہمیں اپنا فوکس تبدیل کرنا ہو گا۔ ملکی برآمدات بڑھانے کے دو طریقے ہیں۔ ایک طریقہ روایتی ہے کہ آپ ٹیکسٹائل‘ سیمنٹ و دیگر کارخانے لگا کرمال ایکسپورٹ کریں اور بدلے میں ڈالر کما کر غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر کو بڑھائیں۔ پاکستان ٹیکسٹائل اور دیگر شعبوں میں خاطرخواہ آمدنی کما رہا ہے لیکن یہ ملکی معیشت کو سہارا دینے کے لیے ناکافی ہیں۔ اس روایتی انداز میں زرِمبادلہ کا حصول ایک طویل اور صبر آزما راستہ ہے۔ اس کے لیے بہت زیادہ سرمایہ کاری چاہیے۔ ایک کارخانہ لگانے میں کئی سال درکار ہوتے ہیں۔ پھر اس کی پروڈکشن شروع ہونے اور مال ایکسپورٹ ہونے میں بھی وقت لگتا ہے۔ اس میدان میں مقابلہ بھی بہت سخت ہے کہ اسی خطے میں چین جیسا ملک بھی موجود ہے جو سوئی دھاگے سے لے کر ہوائی جہاز تک کے پرزے بناکر پوری دنیا کو سپلائی کر رہا ہے۔ چین اتنے بڑے سکیل پر پروڈکشن کرتا ہے کہ پیداواری لاگت انتہائی کم ہو جاتی ہے۔ پھر بھارت اور بنگلہ دیش بھی اسی خطے میں واقع ہیں۔ یہ بھی برآمدات میں ہم سے کہیں آگے ہیں۔ہم ان کے مقابلے میں سستی اور اعلیٰ معیار کی چیزیں بنائیں گے تبھی کوئی روایتی منڈیوں کو چھوڑ کر ہمارے پاس آئے گا۔ پھر یہ بھی ایشو اہم ہے کہ ہمارے پاس اس وقت نہ بجلی ہے نہ گیس۔ صرف لیبر ہے لیکن یہ سستی لیبر جادو ٹونے سے تو مال تیار نہیں کر سکتی؛ چنانچہ برآمدات بڑھانے کا یہ روایتی طریقہ ملک کو اس معاشی دلدل سے نکالنے کے لیے کارآمد نظر نہیں آتا۔
دوسرا راستہ وہی ہے جس کی طرف ہم ابھی تک توجہ نہیں دے رہے حالانکہ دنیا انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ذریعے مالا مال ہو گئی ہے۔آج بھارت آئی ٹی کے ذریعے ڈیڑھ سو ارب ڈالر کما رہا ہے جبکہ ہماری آئی ٹی ایکسپورٹ دو ارب ڈالرز کے قریب ہیں۔ ہمارے سے تو بنگلہ دیش بھی کہیں آگے نکل چکا ہے۔ پاکستان دنیا کی چالیسویں بڑی معیشت ہے لیکن قوتِ خریدکے حوالے سے یہ دنیا میں 22 ویں نمبر پر آتی ہے۔ہماری فی کس آمدنی 1271 ڈالرز ہے جبکہ معاشی ترقی کی رفتار 0.4 فیصد پر کھڑی ہے۔اس کے مقابلے پر بنگلہ دیش کی معیشت کا حجم 338 ارب ڈالرز ہے اس حساب سے یہ دنیا کی 35ویں بڑی معیشت ہے۔ قوتِ خرید کے حوالے سے بنگلہ دیش پاکستان سے پیچھے یعنی دنیا میں 30ویں نمبر پر ہے اور اس کی فی کس آمدنی 2064 ڈالرزہے۔بنگلہ دیش کی برآمدات 34 ارب ڈالرز ہیں۔ پاکستان میں غربت کی شرح کورونا کے بعد سے 40 فیصد تک پہنچ چکی ہے جبکہ بنگلہ دیش میں یہ 20 فیصد ہے۔ بنگلہ دیش کا پاکستان سے موازنہ کیا جائے تو بنگلہ دیش پاکستان سے دس گنا آگے نظر آتا ہے۔ پاکستان میں فری لانسرز سالانہ ایک کروڑ ڈالر کما رہے ہیں۔ بنگلہ دیش کے ساڑھے چھ لاکھ فری لانسرز میں سے پانچ لاکھ باقاعدگی سے فری لانسنگ کر رہے ہیں اور سالانہ لگ بھگ دس کروڑ ڈالر کما رہے ہیں۔ دیکھا جائے تو پاکستان کے مقابلے میں بنگلہ دیش ایک پسماندہ ملک ہے‘ وہاں انٹرنیٹ کی سہولت بھی اتنی تیز تر نہیں اور لوگوں کا معیارِ زندگی بھی انتہائی کم تر ہے۔ اسی طرح بھارت بھی اس شعبے میں خاصی تیزی کے ساتھ ترقی کر رہا ہے۔ اسے امریکہ اوراسرائیل کی معاونت حاصل ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی تمام بڑی عالمی کمپنیاں بھارت کے ساتھ کاروبار کر رہی ہیں۔ کئی بھارتی شہری آئی ٹی کی عالمی کمپنیوں کے چیف ایگزیکٹو تک کے عہدے پر پہنچ چکے ہیں۔یہ سوشل میڈیا پر بھی اپنا کنٹرول مضبوط کرتے جا رہے ہیں۔
اب ہم پاکستان کی طرف آتے ہیں۔ پاکستان پر قرضوں کا بوجھ روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔ ڈالر ایک روپیہ بڑھتا ہے تو ہمارے قرضوں میں سینکڑوں ارب روپے کا اضافہ ہو جاتا ہے۔ پاکستان پر اس وقت غیرملکی قرضوں کا بوجھ تقریباً سوا سو ارب ڈالر کے قریب ہے۔ یہ رقم پہاڑ کی طرح بلند ہوتی جا رہی ہے اور اس سے بچنا ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ ان قرضوں پر بھاری بھر کم سود الگ سے ادا کرنا پڑتا ہے۔ اس وقت ہم اپنا ایک تہائی سے نصف تک بجٹ قرضوں اور ان پر سود کی مد میں مختص کرنے پر مجبور ہیں۔ اگر کچھ قرضہ واپس کرتے ہیں تو بھی اصل قرض وہیں رہتا ہے جبکہ صرف چند فیصد سود ہی ادا ہو پاتا ہے۔ پچھلے کچھ قرض اتارتے ہیں تو نئے قرض لے لیتے ہیں بلکہ اب تو نیا قرض ہی پچھلا قرض اتارنے کے لیے لیا جا رہا ہے۔ اس نازک صورت حال سے دیگر ایسے ممالک بھی دوچار ہیں جو آئی ایم ایف اور دوسرے عالمی اداروں کے قرضوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ ان سے نکلنے کے لیے یہ دوست ممالک سے قرض لیتے ہیں لیکن کوئی کب تک آپ کی مدد کرے گا۔ آپ کو یاد ہو گا کہ سابق حکومت میں بھی یہی مسئلہ آن پڑا تھا کہ ڈالر کو کیسے قابو میں رکھا جائے اور قرضے کیسے اتارے جائیں۔ شارٹ ٹرم حل یہی نکلا کہ نئے قرض لے کر پرانے قرض اتارے جائیں تاکہ عارضی طور پر معیشت بحال ہو جائے۔اسی مقصد کے لیے دوست ممالک سے قرضے لیے گئے اور آئی ایم ایف سے بھی ایک معاہدہ طے پایا جس کے تحت آئی ایم ایف نے پاکستان کو چھ ارب ڈالر کا قرض دینا تھے۔ آئی ایم ایف کی جانب سے ایک ارب ڈالر کی قسط ملی لیکن اس کی شرائط اتنی سخت تھیں کہ عوام کی چیخیں نکل گئیں اور آج تک مسلسل نکل رہی ہیں۔ سابق حکمرانوں نے آئی ایم ایف سے جو معاہدہ کیا تھا‘ جاتے جاتے انہوں نے اس معاہدے کی کچھ شرائط سے انحراف کیا جس کی وجہ سے مالی بحران شدید تر ہو گیا اور موجودہ حکومت کو آ کر بادلِ نخواستہ سخت فیصلے کرنا پڑے لیکن یہ ساری کڑوی گولیاں عوام نے ہی نگلی ہیں۔ثابت ہوا کہ عارضی علاج سے کوئی معاملہ ہمیشہ کے لیے ٹھیک نہیں ہو سکتا۔ ملکی قرضوں کا بوجھ کم کرنے کا راستہ یہی ہے کہ آئی ٹی کے شعبے میں زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کی جائے‘ انٹرنیٹ کو تیز ترین کیا جائے‘ ملک بھر میں پھیلایا جائے اور سستے داموں بینڈ وتھ فراہم کی جائے۔ سافٹ ویئر کمپنیوں کو ٹیکسوں میں چھوٹ دی جائے۔ اسی طرح بڑی آئی ٹی کمپنیاں جیسے گوگل‘ ایمازون‘ فیس بک اور ٹویٹر وغیرہ کو پاکستان میں دفتر بنانے کی دعوت دی جائے۔ پاکستان کے ہر بڑے شہر میں آئی ٹی پارکس بنائے جائیں جہاں بجلی‘ انٹرنیٹ سمیت اعلیٰ درجے کی سہولتیں مسلسل مہیا ہوں۔ اسی طرح کالجوں اور یونیورسٹیوں کے آئی ٹی کے ایسے گریجوایٹس تیار کیے جانے پر توجہ دی جائے جو مارکیٹ کی ڈیمانڈ پوری کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ آپ اندازہ لگائیں کہ پاکستان کا جتنا کُل جی ڈی پی ہے‘ امریکہ میں ایک موبائل ایپ یا سافٹ ویئر فروخت کر کے اتنی آمدنی حاصل ہو جاتی ہے۔ فیس بک کے صرف مالک کی آمدنی پاکستان کے بائیس کروڑ عوام اور اداروں کی آمدنی سے بھی زیادہ ہے۔
گزشتہ بیس سال میں ٹیکنالوجی نے پوری دنیا کی ہیئت کو تبدیل کر کے رکھ دیا ہے۔وہ روایتی کمپنیاں جو ایک عشرہ قبل دنیا میں سب سے زیادہ منافع کما رہی تھیں‘ وہ آج پندرہویں‘ سولہویں نمبر پر چلی گئی ہیں اور انفارمیشن ٹیکنالوجی سے متعلقہ وہ کمپنیاں جو بیسویں نمبر پر تھیں‘ وہ پہلے پانچ نمبروں پر آ گئی ہیں۔ ان میں گوگل‘ فیس بک‘ ایپل‘ سام سنگ و دیگر شامل ہیں۔ ان کمپنیوں نے ٹیکنالوجی سے جڑا ایسا جال پھیلایا کہ جو جو اس سے جڑتا چلا گیا‘ اس کے وارے نیارے ہوتے چلے گئے۔ آپ حساب لگائیں کہ اگر ایک موبائل ایپ کئی ارب ڈالر کی فروخت ہو سکتی ہے تو ایسی چند درجن ایپس کی فروخت سے ہی پاکستان کا سارا قرضہ اتر سکتا ہے۔ یہ کام پاکستان کے نوجوان ہی کر سکتے ہیں۔ آج پاکستان کا قرضہ سو ا ارب ڈالر ہے مگر جو ملکی حالات ہیں‘ ممکن ہے کہ یہ چند برس میں دو سو ارب ڈالر تک پہنچ جائے اور یہ اسی صورت میں کم وقت میں اتارا جا سکتا ہے اگر ہم آئی ٹی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیں۔ ڈالر اور معیشت کے بحران سے نکلنے کا فی الحال کوئی دوسرا راستہ دکھائی نہیں دیتا۔