فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی جانب سے پاکستان کو گرے لسٹ سے نکال کر وائٹ لسٹ میں داخل کرنا ملک اور قوم کی بڑی کامیابی ہے۔ ویسے بھی جس طرح کے ملکی حالات چل رہے ہیں اس طرح کی ناقابل یقین مگر خوش آئند خبروں کی اہلِ وطن کو اشد ضرورت ہے۔ پاکستان کو 2018ء میں گرے لسٹ میں ڈالا گیا تھا۔ 2020ء میں پاکستان دیگر ممالک کی طرح کورونا کا شکار ہوا جس نے معاشی بحران کو سنگین تر بنا دیا۔ امسال یوکرین اور روس کی جنگ کے باعث معاشی حالات عالمی مارکیٹ میں توانائی اور اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں اضافہ ہوا جس سے حالات مزید خرابی کی طرف لڑھک گئے۔ اس دوران ڈالر بھی قابو سے باہر ہو رہا تھا اور بیرونی سرمایہ کار بھی پاکستان میں پیسہ لگانے سے کترا رہے تھے۔ ایف اے ٹی ایف (فیٹف) کی گرے لسٹ سے نکلنے کے بعد اب حالات میں بہتری آنے کا قوی امکان ہے۔ گرے سے وائٹ لسٹ میں آنے کا ایک بڑا فائدہ یہ ہو گا کہ پاکستان کے لیے عالمی سطح پر ملکی معیشت کی بہتری کے لیے سرمایہ کاری کا دروازہ کھل سکے گا اور ملک میں براہِ راست سرمایہ کاری ممکن ہو سکے گی کیونکہ کوئی بھی عالمی کمپنی گرے لسٹ میں موجودگی کے سبب پاکستانی بینکوں پر اعتماد کرنے یا پاکستان میں سرمایہ لگانے سے ہچکچاتی تھی۔ فیٹف کی سفارشات پر عمل کرنے سے پاکستان بالآخر اس قابل ہوا کہ وہ گرے لسٹ سے نکلا اور اب اس کا بینکنگ کا شعبہ مزید تقویت اختیار کرے گا۔ گرے لسٹ سے نکلنے کا ایک فائدہ یہ ہوتا ہے کہ قدرتی آفات‘ جیسے کہ سیلاب وغیرہ‘ سے ہونے والی تباہی سے نمٹنے اور متاثرین کی آباد کاری کے لیے جو امدادی رقم درکار ہوتی ہے وہ بیرونِ ملک سے پاکستانی بینکوں میں آنے اور اس کی کلیئرنس میں بہت زیادہ آسانی ہو جائے گی‘ اس میں وقت بھی کم لگے گا اور آنے والی رقوم کا حجم بھی بڑھ جائے گا۔
پاکستان کی کمزور معیشت سیلاب اور دیگر قدرتی آفات سے ہونے والی تباہی کو برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتی۔ اس لیے فیٹف کی جانب سے گرے لسٹ سے نکالے جانے کا ایک مثبت اثر سیلاب زدگان کی امداد اور بحالی پر بھی پڑے گا۔ پاکستان نے فیٹف کی چونتیس سفارشات پر عمل درآمد کے لیے جس سنجیدگی سے کام کیا اس کے اثرات ملکی معیشت پر جلد نظر آئیں گے اور دہشت گردی کے حوالے سے بھی ملک کی سنجیدہ کاوشوں کو عالمی سطح پر قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے گا۔ بیرونِ ملک سرمایہ کار اسی ملک میں اپنا پیسہ لگاتے ہیں جہاں انہیں اپنا مستقبل اور اپنا لگایا گیا پیسہ محفوظ نظر آتا ہے۔ ایسے ممالک جہاں غیر ملکیوں کا آنا جانا خطرے سے خالی نہ ہو‘ جیسے کہ افغانستان‘ عراق اور شام وغیرہ‘ تو ان ممالک میں بیرونی سرمایہ کار تو درکنار‘ ان ممالک کے مقامی سرمایہ کار بھی ہاتھ کھینچ لیتے ہیں۔ عالمی طور پر ایسے ممالک کے لیے انتباہ بھی وقتاً فوقتاً جاری کیے جاتے ہیں اور ایسے ممالک کے سفری اور معاشی خطرات سے دنیا بھر کو آگاہ کیا جاتا ہے۔ یہاں یہ بات مدنظر رکھنا ہو گی کہ گرے لسٹ سے نکلنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ پاکستان کو ہمیشہ کے لیے وائٹ لسٹ میں ڈال دیا گیا ہے بلکہ ایسے وائٹ لسٹ میں شامل ہر ملک کے لیے فیٹف کی شرائط اور سفارشات کو مستقل طور پر اپنانا لازم ہوتا ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ دوبارہ لاپروائی کا مظاہرہ کیا جائے‘ بیرونِ ملک سے آنے والی رقوم کی جانچ پڑتال میں غفلت برتی جائے‘ دہشت گردی کی روک تھام کے لیے کیے جانے والے اقدامات میں کوتاہی دکھائی جائے اور ساتھ ہی وائٹ لسٹ کا سٹیٹس بھی برقرار رہے۔ ایسا ممکن ہی نہیں‘ نہ ہی یہ زمینی حقائق سے ہم آہنگ اقدام ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ ایک مسلسل عمل ہے اور اس میں موجود کمزوریاں اور کوتاہیاں مستقل طور پر دور کرنا ہوں گی۔ اس امر کی تصدیق اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ اس سے قبل بھی پاکستان کو دو مرتبہ گرے لسٹ میں ڈالا گیا تھا۔ فیٹف کی گرے لسٹ سے نکلنے کے لیے دو معاملات میں بہتری لانے کے لیے تگ و دو کی گئی۔ ان میں سے ایک مالیاتی نظام تھا جس کے تحت بینکنگ چینلز کو محفوظ بنانا اور رقوم کی اندرون و بیرون ملک ترسیل کو چینلائز کرنا تھا جبکہ دوسرا اہم اقدام ان تنظیموں کے گرد دائرہ تنگ کرنا تھا جو دہشت گردی میں معاونت کے لیے کسی طرح ملوث ہو سکتی تھیں۔ مستقبل میں بھی پاکستان کو ان دونوں معاملات کے حوالے سے خبردار رہنا ہو گا کیونکہ پاکستان کی دشمن قوتیں یہ کبھی نہیں چاہیں گی کہ پاکستان ایک مضبوط معیشت کا مالک بنے اور عالمی طاقتوں کی آنکھ کا تارا بن جائے۔ بھارت کو اس خبر کی جتنی تکلیف پہنچی ہے شاید ہی کسی دوسرے ملک کو پہنچی ہو۔ بھارت ویسے بھی عالمی لابنگ کے ذریعے پاکستان کو بدنام کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا اور فیٹف جیسے ادارے اگر اسے گرے لسٹ میں ڈالتے ہیں تو بھارت کے ہاتھ میں پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا کرنے کا ایک موقع آ جاتا ہے۔ ایف اے ٹی ایف کے گزشتہ اجلاس سے قبل ہی پاکستان اپنے تمام اہداف پورے کر چکا تھا مگر محض بھارتی لابنگ کے سبب پاکستان کو گرے لسٹ میں برقرار رکھتے ہوئے یہ فیصلہ کیا گیا کہ فی الحال پاکستان کی مانیٹرنگ کی جائے گی اور آئندہ اجلاس میں یہ فیصلہ کیا جائے گا کہ گرے لسٹ سے نکالنا ہے کہ لسٹ میں برقرار رکھنا ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ جو ملک گرے لسٹ میں چلا جائے اس کے حکمران یا معیشت دان عالمی برادری کے سامنے اپنے ملک کے لاکھ گُن گاتے رہیں‘ انہیں اس وقت تک قائل نہیں کر سکتے جب تک وہ انہیں ایسے انڈیکیٹرز نہیں دکھاتے جن کی بنا پر وہ ملک پُرامن اور سرمایہ کاری کیلئے سازگار نظر آتا ہو۔ دہشت گردی کو فروغ دینے کیلئے کالعدم تنظیموں کی جانب سے ایسے مواقع کا بھرپور فائدہ اٹھایا جاتا ہے جن میں کسی ملک میں کوئی قدرتی آفت آئی ہو جیسے کہ زلزلہ‘ سیلاب‘ طوفان اور اس جیسی دیگر تباہ کاریاں۔ پاکستان ان دس ممالک میں شامل ہے جو موسمیاتی تبدیلیوں اور ان کی تباہ کاریوں سے نہ صرف سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں بلکہ ان کے مستقبل کو بھی سنگین خطرات لاحق ہیں۔ اس لیے پاکستان میں تمام اداروں کو ہوشیار رہتے ہوئے ایسی تمام کارروائیوں کو ناکام بنانے کیلئے کمر بستہ رہنا ہو گا تاکہ ملکی معیشت کو ایک مستقل اور مضبوط بنیاد میسر آ سکے۔ وگرنہ اگر ہر عشرے میں پاکستان ایک بار گرے لسٹ اور ایک بار وائٹ لسٹ میں جاتا رہا تو یہ ایک قدم آگے اور دو قدم پیچھے جانے والا معاملہ بن جائے گا اور ہم کبھی بھی چین‘ جاپان‘ سنگاپور اور ان جیسے دوسرے ممالک کی طرح پائیدار معاشی ترقی کے اہداف حاصل نہیں کر سکیں گے۔ ہم نے اپنے مالیاتی نظام کو خاصی جدوجہد کے بعد ایف اے ٹی ایف کی سفارشات کے ساتھ ہم آہنگ کیا ہے‘ اس کامیابی کو برقرار رکھنا ہی اصل چیلنج اور اسی میں عافیت ہے۔
ملک کو فیٹف کی گرے لسٹ سے نکالنے میں سول اداروں اور انتظامیہ کے ساتھ ساتھ افواجِ پاکستان کا بہت اہم کردار رہا ہے۔ عسکری اداروں کی مکمل سپورٹ اور مکمل تعاون میسر نہ ہوتا تو یہ ہدف حاصل کرنا ممکن نہ ہو تا۔ جمعہ کی شب جب یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پورے ملک میں پھیل چکی تھی تو ہر جانب مسرت اور خوشی کا سماں تھا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے اپنے ٹویٹ میں اس کامیابی کو سول اور ملٹری لیڈر شپ کی سالہا سال پر مشتمل شبانہ روز کاوشوں کا نتیجہ قرار دیا۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ فیٹف کے سربراہ ٹی راجہ کمار نے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ پاکستان میں ان اصلاحات کو برقرار رکھنے کی صلاحیت موجود ہے اور پاکستان ایشیا پیسفک گروپ کے ساتھ مل کر اپنے انسدادِ منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی مالی معاونت کی روک تھام کے نظام کو مزید بہتر بنانے کیلئے کام کرتا رہے گا۔ اس طرح کے چیلنجز پاکستان کی طرح دیگر کئی ممالک کو بھی درپیش ہیں اور سبھی اپنے تئیں عالمی سفارشات اور اہم قانونی نکات اور اصول و ضوابط کو اپنا کر دنیا میں آگے بڑھنے کی کوششوں میں مصروفِ عمل ہیں۔ ہمیں بھی یہ تہیہ کرنا ہے کہ ہمیں بہر صورت آگے بڑھنا ہے‘ جدید ممالک کی طرح اپنے ملک اور اپنے عوام کو ترقی یافتہ بنانا ہے اور یہ تبھی ممکن ہے جب آئندہ بھی ایف اے ٹی ایف کی سفارشات اور اصولوں پر سنجیدگی سے عمل پیرا رہا جائے۔