"ACH" (space) message & send to 7575

اگر بچہ ڈاکٹر نہ بن سکے!

ًیوں تو اس ملک میں کوئی بھی شعبہ خرابی سے نہیں بچا‘ لیکن اب تو میڈیکل کا شعبہ بھی صاف لفظوں میں ''رُل‘‘ کر رہ گیا ہے۔ جو چارم آج سے پندرہ‘ بیس برس قبل ڈاکٹر بننے میں تھا‘ وہ اب نہیں رہا۔ اب ڈاکٹر بن کر اس معاشرے میں رہنا سراسر گھاٹے کا سودا معلوم ہوتا ہے کیونکہ جتنے ڈاکٹرز ہر سال تیار ہو رہے ہیں اتنی نوکریاں نہیں ہیں اور جن کو قسمت سے نوکری مل جاتی ہے‘ ان کی تنخواہ سے اگر بمشکل گھر کا کرایہ اور بجلی کا بل پورا ہو جائے تو غنیمت ہے۔ اب تو ڈاکٹروہی بن رہا ہے جس نے حقیقتاً مخلوقِ خدا کی خدمت کرنی ہے اور بدلے میں سوائے دعائوں کے اسے کچھ اور نہیں چاہیے یا پھر وہ جو ملک سے باہر چلا جائے گا اوروہاں اپنا مستقبل محفوظ بنا لے گا۔
آج سے دس‘ بیس برس قبل تک معاملات اتنے نہ بگڑے تھے لیکن جب سے مارکیٹ ڈیمانڈ سے زیادہ ڈاکٹرز مارکیٹ میں آ رہے ہیں‘ پاکستان میں بے روزگاروں کی فہرست میں ڈاکٹرز بھی شامل ہو چکے ہیں۔ پاکستان کے علاوہ دیگر ممالک مثلاً کرغزستان‘ چین وغیرہ سے بھی ہر سال سات سے آٹھ ہزار طلبہ گریجوایٹ ہوتے ہیں۔ اس طرح کل ملا کر تقریباً بیس ہزار ڈاکٹرز ہر سال ملک میں تیار ہوتے ہیں لیکن ان میں سے سرکاری نوکری بمشکل ہزار‘ پندرہ سو ہی کو مل پاتی ہے۔ اگر چند سو ایڈہاک سیٹیں آ جائیں تو اپلائی کرنے والوں کی تعداد پندرہ‘ بیس ہزار ہوتی ہے۔ سبھی ڈاکٹرز پینتالیس ہزار روپے کی عارضی نوکری کیلئے گھنٹوں قطاروں میں لگتے ہیں۔ گزشتہ دنوں فیصل آباد کے ایک سرکاری ہسپتال کی ایک تصویر بہت وائرل ہوئی جہاں پی پی ایس سی کی ایڈہاک سیٹوں پر بھرتی کے لیے ڈاکٹروں کے انٹرویو ہو رہے تھے اور باہر پورا ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ اوسطاً لگ بھگ پندرہ سو ڈاکٹرز ایک‘ ایک سیٹ کے لیے انٹرویو دے رہے تھے۔ سوال یہ ہے کہ اگر حکومت کے پاس اتنی کھپت اور گنجائش نہیں ہے تو پھر کیوں اتنے ڈاکٹرز تیار کیے جا رہے ہیں؟ مشکل ترین پڑھائی اور ڈگری حاصل کرنے کے بعد بھی نوجوانوں کو کسی کالج کے طالب علم کے ماہانہ جیب خرچ جتنی تنخواہ بھی نہیں ملتی جبکہ یہی ڈاکٹر جب پلیب (The Professional and Linguistic Assessments Board test) کا چھوٹا سا امتحان دے کر برطانیہ جاتے ہیں تو وہاں انہیں چار ہزار پائونڈ کی نوکری ملتی ہے اور ہفتے میں صرف تیس‘ چالیس گھنٹے ڈیوٹی کرنا ہوتی ہے۔ وہاں کوئی مریض دورانِ علاج ہسپتال میں انتقال کر جائے تو متوفی کے اہلِ خانہ ڈاکٹروں کو قصور وار قرار نہیں دیتے ہیں جبکہ پاکستان میں ہم ڈاکٹروں سے یہ توقع کرتے ہیں کہ وہ اگر ڈاکٹر بن ہی گئے ہیں تو انہیں نہ اپنا گھر چلانے کیلئے معقول تنخواہ کی ضرورت ہے‘ نہ مناسب آرام اور نیند کی۔ انہیں بس ہر صورت مریضوں کو چیک کرنا ہے اور کسی بھی طور ان کی جان بھی بچانی ہے خواہ ان کا آخری وقت ہی کیوں نہ آ چکا ہو۔
یہ جو آج ہم فصل کاٹ رہے ہیں یہ خودبخود نہیں اُگی بلکہ ماضی کی حکومتی پالیسیوں کا شاخسانہ ہے۔ اب جو شخص ڈاکٹر بن رہا ہے‘ وہ محض انسانی خدمت کے لیے تو ایسا نہیں کر رہا۔ اس نے اپنا گھر‘ اپنا کچن چلانا ہے۔ وہ والدین جو اپنے بچوں کو جیسے تیسے ڈاکٹر بناتے ہیں‘ ان کی بھی امیدیں ہوتی ہیں کہ بچہ ڈاکٹر بنتے ہی ان کی مالی حالت کو بہتر بنائے گا لیکن جب ایسا نہیں ہوتا تو سارے سپنے بکھر جاتے ہیں۔یہاں بچوں سے زیادہ والدین کی کونسلنگ کی ضرورت ہے جو موجودہ اور آنے والے دور کے حقائق سے پوری طرح واقف نہیں ہوتے اور اپنے بچوں پر بہرصورت ڈاکٹر بننے کا فیصلہ تھوپ دیتے ہیں۔ اکثر والدین بچوں کی پسند‘ نا پسند جاننے کی بھی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ اکثر افراد اپنی بیٹیوں کو محض اس لیے ڈاکٹر بنانا چاہتے ہیں کہ اس طرح ان کے لیے اچھا رشتہ مل جائے گا۔ شادی کے بعد ویسے ہی زیادہ تر لیڈی ڈاکٹرز پریکٹس چھوڑ دیتی ہیں۔
ایم بی بی ایس کرنے کے بعد ہر ڈاکٹر کو ایک سال تک ہائوس جاب کرنا ہوتی ہے لیکن سب کو سرکاری ہسپتالوں میں یہ موقع نصیب نہیں ہوتا۔ ستر‘ اسّی فیصد ڈاکٹرز نجی ہسپتالوں میں ہائوس جاب کرتے ہیں۔ ہائوس جاب کے بعد ہی ایک ایم بی بی ایس ڈاکٹر کسی سرکاری یا نجی ہسپتال میں ہائوس آفیسر یا میڈیکل آفیسر لگتا ہے۔ اگر کوئی وبا‘ جیسے ڈینگی؍ کورونا آتی ہے تو اس میں مسلسل کئی کئی دن اور راتیں ہسپتال میں گزارنا پڑتی ہیں ۔ سینئر ڈاکٹر بننے کے لیے میڈیسن یا سرجری کے شعبوں میں سپیشلائزیشن کرنا ہوتی ہے اور اس میں ایم بی بی ایس کے بعد مزید پانچ سے آٹھ سال لگ جاتے ہیں؛ تاہم سپیشلائزیشن کا اہل بننے کے لیے قسمت اور سفارش وغیرہ کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ سنٹرل انڈکشن سسٹم کے ذریعے محض چند ہی سیٹیں آتی ہیں۔ہر سال دو مرتبہ انڈکشن ہوتی ہے جن میں ہر مرتبہ پانچ‘ سات سو سیٹیں آتی ہیں جبکہ ہر سال بیس ہزار ڈاکٹر بنتے ہیں؛ چنانچہ ان میں سے پانچ سات فیصد ہی سرکاری یا نجی سیٹ اَپ میں ٹریننگ حاصل کر پاتے ہیں۔ایم بی بی ایس کے بعد سپیشلائزیشن کی ٹریننگ سیٹ حاصل کرنے میں بھی بالعموم دو‘ تین سال لگ جاتے ہیں اور جب ایک ڈاکٹر سپیشلائزیشن کر لیتا ہے تو وہ عملی طور پر تقریباً وہیں کھڑا ہوتا ہے جہاں سے اس نے آغاز کیا ہوتا ہے۔ اسے مجبوراً اسی نوکری کے لیے اپلائی کرنا پڑتا ہے جس سیٹ پر فریش ایم بی بی ایس گریجوایٹ اپلائی کر تے ہیں کیونکہ کنسلٹنٹ کی سیٹیں تھوڑی ہوتی ہیں اور مقابلہ سخت ہوتا ہے۔
گزشتہ دنوں میڈیکل کالجوں میں داخلے کے امتحان کا نتیجہ آیا۔ جو بچے اس میں پاس نہیں ہو سکے‘ ان میں سے اکثر ذہنی و سماجی دبائو کا شکار ہو جائیں گے۔ کئی بچے چار‘ چار سال سے امتحان دے رہے ہیں کہ کسی طرح پاس ہو کر ڈاکٹر بن جائیں۔ یہ رویہ کسی بھی طور دانشمندانہ نہیں ہے۔ اس سارے قضیے کا حل یہ ہے کہ جو ہو چکا‘ سو ہو چکا‘ کم از کم آگے کا قبلہ ہی درست کرلیا جائے۔کیریئر کونسلنگ کے بارے میں بے شمار وڈیوز انٹرنیٹ پر موجود ہیں۔ والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کی قسمت کا فیصلہ کرنے سے قبل یہ وڈیوز دیکھ لیں۔ اس پیشے میں بے انتہا صبر‘ وقت اور ذہنی دبائو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ اگر تو آپ کے بچے میں واقعتاً انسانیت کی خدمت کا جذبہ ہے اور وہ کم پیسوں میں بھی گزارا کر کے لوگوں کی بہترین انداز میں خدمت کر سکتا ہے تو ہی اسے اس فیلڈ میں آنا چاہیے لیکن اگر والدین اور بچے اس پروفیشن کو اس لیے اپنانا چاہتے ہیں کہ ایم بی بی ایس کرتے ہی ان کے مالی حالات بہتر ہونا شروع ہو جائیں گے تو یہ محض ان کی غلط فہمی ہے۔اگر کوئی محض اپنی مالی حالت کو بہتر بنانے کے لیے اس فیلڈ میں آ رہا ہے تو اسے کسی اور شعبے کا انتخاب کرنا چاہیے۔ اب سینکڑوں دیگر پروفیشنز ایسے ہیں جن میں بیس‘ پچیس برس کی عمر میں بچہ ڈاکٹروں سے کہیں زیادہ کمانا شروع کر دیتا ہے۔
وہ کون سے پروفیشنز ہیں‘ آج کے والدین اور بچوں کو کیریئر کے انتخاب سے قبل کن باتوں کو مدنظر رکھنا چاہیے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اگر بچہ ڈاکٹر نہ بن سکے تو کیا اس کی زندگی ختم ہو جاتی ہے‘ ان موضوعات پر کچھ مزید روشنی ڈالنے کی کوشش کی جائے گی مگر اگلے کالم میں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں