اس ملک میں اگر کسی ایشو پر سب سے کم کام ہوا ہے تو وہ عوام کی اخلاقیات سنوارنے اور معاشرے میں رہن سہن کے اصولوں کو اجاگر کرنے کا کام ہے کہ جس کے بارے میں کسی کو زیادہ علم ہے نہ جاننے کی دلچسپی۔ ہم جدید ممالک جیسا بننا تو چاہتے ہیں لیکن یہ نہیں جانتے کہ وہ اس مقام تک کیسے پہنچے اور وہاں کے عوام کا اس ترقی میں کیا کردار ہے۔ درحقیقت دبئی‘ لندن‘ پیرس اور نیویارک جیسے شہر اگر معروف ہوئے ہیں تو وہاں کے عوام کی وجہ سے‘ جو اپنے افعال و کردار سے اپنے شہروں اور ملکوں کو ممتاز بناتے ہیں۔ کوئی بھی پاکستانی جب ان ممالک میں سیر کو جاتا ہے تو جو سب سے پہلی اور اہم چیز سب سے زیادہ متاثر کرتی ہے وہ وہاں کی سڑکوں‘ بازاروں اور پبلک و تفریحی مقامات کی صفائی ستھرائی ہے۔ کھیل کا میدان ہو یا تفریح گاہ‘ بس سٹاپ ہو یا گزر گاہ‘ مجال ہے کہ آپ کو اِدھر اُدھر کوئی کچرا‘ شاپنگ بیگ‘ خالی بوتلیں یا ریپر وغیرہ بکھرے دکھائی دے جائیں۔ یہ درست ہے کہ ان ممالک میں کچرا پھینکنے پر جرمانہ بھی عائد کیا جاتا ہے لیکن وہاں کے لوگوں کو اس بات کی عادت ہو چکی ہے کہ کچرا وغیرہ سڑکوں کے بجائے ڈسٹ بن میں پھینکنا ہے۔ وہاں بچوں کو ابتدا ہی سے معاشرے کو صاف ستھرا رکھنے کی تعلیم دی جاتی ہے جبکہ ہمارے ہاں گلی محلے‘ سڑکیں‘ بازار‘ تعلیمی ادارے‘ دفاتر‘ تفریحی مقامات حتیٰ کہ موٹر ویز پر بھی لوگ کچرا گاڑی سے باہر پھینکنے سے گریز نہیں کرتے۔ وہ گھر‘ گاڑی کو اپنا اور سڑک کو پرایا سمجھ کر انتہائی بے رحمی سے بوتلیں اور خالی ڈبے وغیرہ گھر کی کھڑکی سے یا گاڑی سے باہر اچھال دیتے ہیں۔ اس کچرے کو ٹھکانے لگانا اور ری سائیکلنگ کرنا ایک اہم ترین اور مشکل مرحلہ ہے۔
دیکھا جائے تو ہمارے اصل ایشوز یہی ہیں اور انہی سے پتا چلتا ہے کہ ہم ایک منظم قوم ہیں یا ریوڑ کی مانند۔ ایسے ایشوز کو زیادہ وقت دیا جانا چاہیے اور انہی پر زیادہ بات ہونی چاہیے۔ لیکن یہاں تو ذرائع ابلاغ ہوں یا دوست عزیزوں کی بیٹھکیں‘ ہر جگہ ہر وقت گرما گرم سیاسی خبروں اور سیاسی مواد کا راج رہتا ہے۔ معاشرتی آداب اور سِوک سینس کے بارے میں اکا دُکا کوئی پروگرام ہو جائے‘ تو ہو جائے وگرنہ باقاعدگی سے کوئی بھی اس مسئلے پر توجہ دینے کو تیار نہیں۔ سوشل میڈیا پر بھی سنسنی خیزی ہی بیچی جا رہی ہے اور جو کوئی معاشرتی اخلاقیات کی بات کرتا ہے‘ لوگ فوراً اس کا مذاق اڑانا شروع کر دیتے ہیں۔
اپنے شہر کو کیسے صاف رکھا جا سکتا ہے‘ روزانہ کتنا کچرا اکٹھا کیا جاتا ہے‘ اسے کہاں پھینکا جاتا ہے‘ اس کچرے کا استعمال کیا ہو سکتا ہے اور اس شہر کو جدید ممالک کے شہروں جیسا کیسے بنایا جا سکتا ہے‘ ان سوالات کا جواب جانے بغیر شہر کی صفائی کا کام نہیں کیا جا سکتا۔ یہ وہ کام ہیں جن کو بہت پہلے شروع کر دیا جانا چاہیے تھا کیونکہ صفائی کا شعور اور پلاننگ کوئی نئی بات نہیں بلکہ یہ ہماری دینی کتابوں میں بھی موجود ہے اور سینکڑوں برس سے مسلمان یہ سب پڑھ اور سن رہے ہیں۔ ایسی باتوں پر اگر عمل کر لیا گیا اور شہریوں نے اپنی اپنی ذمہ داری محسوس کرنا شروع کر دی تو کوئی شک نہیں کہ ہم نہ صرف صاف ستھرا شہر بسا سکتے ہیں بلکہ سموگ‘ ڈینگی اور کورونا جیسی آفتوں سے بھی بچا جا سکتا ہے۔ اگر لاہور کی بات کی جائے تو لاہور میں صفائی کے ذمہ دار ادارے کے مطابق اس وقت لاہور میں روزانہ کی بنیاد پر پانچ ہزار ٹن کچرا اٹھایا جاتا ہے۔ اس کوڑے کو ٹھکانے لگانے کے لیے دو سائٹس ہیں۔ پہلے ''محمود بوٹی‘‘ پر یہ کچرا پھینکا جاتا تھا اور اب ''لکھو ڈیر‘‘ میں پھینکا جاتا ہے۔ ''لکھو ڈیر‘‘ میں اس وقت کم و بیش 19 ملین ٹن کچرا پڑا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ گزشتہ دس سالوں میں ان دونوں سائٹس پر جتنا بھی کچرا پھینکا گیا تھا‘ وہ سب ہم نے آج تک اکٹھا کر کے رکھا ہوا ہے۔ کھدائی کے دوران معلوم ہوا کہ تین چار فٹ نیچے تک بھی پلاسٹک بیگز اور ڈائپرز ویسے کے ویسے پڑے ہوئے ہیں۔
اس سارے منظر کو دیکھ کر یہ نتیجہ نکالا گیا کہ فقط کوڑا اٹھانا کوئی کمال نہیں ہے‘ اصل کام اس کچرے کوٹھکانے لگانا ہے۔ سب سے اہم کام کچرے کی پیداوار میں کمی ہے۔ یعنی کوڑا کم پیدا کرنا اور عوام میں اس بارے آگاہی پیدا کرنا۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں کسی بھی سطح پر‘ حتیٰ کہ تعلیمی سطح پر بھی اس موضوع پر کوئی بات نہیں کی جاتی۔ بچوں کو یہ بتایا ہی نہیں جاتا کہ آپ نے کچرے کو باہر روڈ پر، راستے میں یا گرائونڈز میں نہیں پھینکنا۔ یہاں تو معاملہ یہ ہے کہ ہر دکان کے باہر گتّے کے خالی ڈبے، ٹشو پیپرز اور پلاسٹک کے کپ پڑے ہوئے ملتے ہیں۔ دوسرا کام ہوتا ہے مختلف کچرے کو علیحدہ علیحدہ کرنا۔ یعنی خوراک والی چیزیں الگ، پلاسٹک اور گتے وغیرہ کو الگ اور لوہے‘ شیشے وغیرہ کو الگ الگ کرنا۔
اکثر ترقی یافتہ ممالک میں روزانہ کی بنیاد پر کچرا نہیں اٹھایا جاتا بلکہ وہاں ہفتے میں دو یا تین دن مقرر ہوتے ہیں۔ لوگ گھروں کا کچرا اسی دن اٹھا کر باہر رکھتے ہیں اور انہی مخصوص دنوں میں میونسپل اہلکار اس کو اٹھا لیتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں صورتحال اس کے برعکس ہے۔ لاہور میں دن میں تین بار کوڑا کرکٹ اٹھایا جاتا ہے‘ مگر پھر بھی یہ ختم ہونے ہی میں نہیں آ رہا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم بہت زیادہ کوڑا کرکٹ پیدا کر رہے ہیں اور جو کئی ملین ٹن پہلے سے ہمارے پاس موجود ہے، وہ ماحولیات پر بری طرح اثر انداز ہو رہا ہے۔ کچرے کے اس پہاڑ سے میتھین گیس پیدا ہو رہی ہے۔ یہ گیس نہ صرف شہر کے ماحول کو خراب کر رہی ہے بلکہ ہم باقی دنیا کے لیے بھی خطرہ بنتے جا رہے ہیں۔
دوسری بات یہ کہ کچرے کے جو پہاڑ اب تک کھڑے کیے گئے ہیں‘ ان سے جو گندا پانی رس رہا ہے‘ وہ انتہائی غلیظ اور زہریلا ہے اور وہ زیرِ زمین صاف پانی میں شامل ہو رہا ہے۔ ہم اگر یہ سوچ کر مطمئن ہو جائیں کہ محض ''لکھو ڈیر‘‘ کا پانی زہریلا ہو رہا ہے‘ علامہ اقبال ٹائون یا جوہر ٹائون کا پانی صاف ہے تو یہ سراسر ہماری غلط فہمی ہے، کیونکہ زہریلا پانی زیرِ زمین سفر کرتا ہے اور صاف پانی میں شامل ہوتا جاتا ہے۔ اس مسئلے کا جو حل ہے‘ وہ یہی ہے کہ کچرے کو تین حصوں میں تقسیم کر کے اٹھایا جائے۔ ایک کچرا وہ ہے جسے کچن ویسٹ کا نام دیا جاتا ہے‘ اس میں سبزی ، فروٹ، بچا ہوا کھانا، روٹی، چاول اور دیگر ایسی چیزیں شامل ہوتی ہیں۔ انہیں دیگر کچرے سے الگ کر دینا چاہیے کیونکہ یہ گل سڑ جاتا ہے‘ اس میں کیڑے پیدا ہو جاتے ہیں اور یہ کچرا آگے جاکر باقی کوڑے کو بھی خراب کر دیتا ہے۔ دوسرا عام قسم کا کوڑا کرکٹ ہے جس میں پلاسٹک، پیکنگ میٹریل، گتّا اور کپڑا وغیرہ شامل ہیں۔ تیسری قسم کے کچرے میں لوہا اور شیشہ وغیرہ آتے ہیں۔ اگر گھروں سے ہی کوڑا کرکٹ کو الگ الگ کر کے ویسٹ مینجمنٹ والوں کے حوالے کیا جائے تو اس کو بڑی آسانی کے ساتھ ڈمپ یا پھر ری سائیکل کیا جا سکتا ہے۔ قدرتی کچرے کو ری سائیکلنگ کر کے کھاد بنائی جا سکتی ہے۔ اسی طرح دنیا میں کچرے کو متبادل توانائی کی شکل میں بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔ صفائی کے محکمے کے مطابق روزانہ کی بنیاد پر دو سے تین ہزار ٹن کچرے سے ساٹھ سے ستر میگاواٹ تک بجلی پیدا کی جا سکتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کچرے میں جو گوبر آتا ہے‘ اس کو بھی استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔ اس سے بائیو گیس بنا کر لوکل آبادی کو سپلائی کی جا سکتی ہے جس سے توانائی کا مسئلہ کافی حد تک حل ہو سکتا ہے۔
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی جس کو اپنی حالت بدلنے کا خود خیال نہ ہو۔ زندگی کے معمولات میں تھوڑی سی تبدیلی لانے سے زبردست نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں‘ اس کیلئے عوام کو صرف ترجیحات اور لائف سٹائل کو بدلنا ہے اور اس شعور کو اپنے حلقۂ احباب تک پھیلانا ہے۔ جرمانے کے ڈر سے نہیں بلکہ ذمہ دار شہری ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے ہمیں اس صفائی مہم میں اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ جب ہمارا یہ معمول بن جائے گا کہ سڑک پر کچرا ہم اس وقت بھی نہیں پھینکیں گے جب کوئی ہمیں نہیں دیکھ رہا ہو گا یا جب ہم ٹریفک وارڈن کی عدم موجودگی میں رات کے پچھلے پہر بھی سرخ سگنل پر گاڑی روک لیں گے تو یقین کریں تب ہمارا ترقی یافتہ قوم بننے کے سفر کا آغاز ہو جائے گا۔