گزشتہ تین چار برس میں پوری دنیا میں جتنی تیزی سے تبدیلیاں آئی ہیں‘ اتنی تیزی سے پچھلے کئی عشروں میں بھی نہیں آئی ہوں گی۔ خاص طور پر کورونا‘ روس یوکرین عالمی جنگ‘ عالمی موسمیاتی تبدیلیاں اور ان کے اثرات‘ یہ سب دنیا بھر میں اشیا کی ترسیل میں رکاوٹ اور بے پناہ مہنگائی کا باعث بنے ہیں۔ روس یوکرین جنگ سے سارا یورپ متاثر ہے۔ برطانیہ میں شدید مہنگائی اور سہولیات کی عدم دستیابی کی وجہ سے برطانوی وزیراعظم کو عہدہ چھوڑنا پڑا۔ دیگر جدید ممالک کا بھی یہی حال ہے۔ توانائی کے مسائل شدت اختیار کر چکے ہیں۔ برطانیہ میں کئی عشروں بعد پیرا میڈیکل سٹاف اور ایمبولنس عملہ ہڑتال پر ہے اور تنخواہوں میں اضافے کا مطالبہ کر رہا ہے۔ گیس کی کمیابی کے باعث برطانوی عوام اب پورے گھر کو ہیٹر سے گرم کرنے کے قابل نہیں رہے بلکہ حکومت انہیں گرم کمبل خریدنے کی تاکید کر رہی ہے۔ یہ سب ایسے ملک میں ہو رہا ہے جس کا دارالحکومت لندن دنیا کا بزنس حب ہے اور یہ ملک دنیا کے پانچ طاقتور ترین ممالک میں سے ایک ہے۔ اگر برطانیہ جیسا ملک اس قسم کے سنگین بحران کا شکار ہو گیا ہے تو پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کے حالات کا اندازہ لگانا زیادہ مشکل نہیں۔ یہاں کی آبادی اور وسائل آپس میں میل نہیں کھاتے۔ اوپر سے حالیہ سیلاب نے ایک چوتھائی ملک اور تقریباً چار پانچ کروڑ آبادی کو سسکنے پر مجبور کر دیا ہے۔ امریکہ اور یورپی ممالک میں معاشی حالات روزبروز خراب ہو رہے ہیں اور حکومت کی جانب سے سختیاں اور پابندیاں عائد کی جا رہی ہیں تاکہ گیس‘ پانی اور بجلی جیسی نعمتوں کو ضائع ہونے سے بچایا جائے اور ان کا بہترین استعمال کیا جائے۔ ان ممالک میں لوگ سرشام چھ سات بجے تک کھانا کھا لیتے ہیں‘ تقریباً چھ سات بجے شاپنگ سٹور بھی بند ہو جاتے ہیں لیکن ہمارے ہاں جب بھی حکومت دکانیں جلد بند کرنے اور کفایت شعاری کی بات کرتی ہے تو لوگ لٹھ لے کر پیچھے پڑ جاتے ہیں۔ دکاندار کہتے ہیں کہ لوگ شام کو ہی شاپنگ کے لیے نکلتے ہیں‘ اس لیے جلدی دکانیں بند کرنا ممکن نہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس طرح تو آوے کا آوا مزید بگڑتا جائے گا اور حالات کبھی بھی نہیں سدھریں گے۔ ادویات کی دکانیں‘ ہسپتال‘ پٹرول پمپس وغیرہ انتہائی ضرورت کی چیزیں ہیں اس لیے یہ چوبیس گھنٹے کھلے رہ سکتے ہیں لیکن شاپنگ سٹورز کو رات کے دو بجے تک کھلا رکھنے کا جواز سمجھ سے باہر ہے۔ شکر یہ ہے کہ شادی ہالوں کو دس بجے بند کرنے پر عمل کیا جاتا ہے وگرنہ تو باراتی ہال چھوڑنے کو تیار نہیں ہوتے‘ چاہے صبح کے چار بج جائیں۔ ایک طرف ہمارے یہی عوام مہنگائی کا رونا روتے ہیں‘ دوسری طرف جہاں جہاں فضول خرچی ہو سکتی ہے دل وجان لگا کر وہاں پیسہ اور وقت برباد کرتے ہیں اور پھر روتے ہیں کہ گیس اور بجلی نہیں آ رہی۔ اگر باہر کے ملکوں میں لوگ دن کے وقت شاپنگ کر سکتے ہیں تو کیا ہمارے پائوں میں دن کو مہندی لگ جاتی ہے۔ پھر ہفتہ یا اتوار کو چھٹی ہوتی ہے اس دن بھی شاپنگ ہو سکتی ہے‘ باقی کام دن میں یا شام سات آٹھ بجے تک مکمل ہو سکتے ہیں‘ اس میں آخر مضائقہ کیا ہے۔ جہاں تک بڑے کاروباری حضرات کا سوال ہے تو وہ چوبیس گھنٹے بھی دکانیں کھول لیں تب بھی ان کی تجوریاں اور پیٹ نہیں بھر سکتے۔ خدا کا خوف کریں‘ کیا ہمارے پاس لا محدود وسائل ہیں؟ کیا پاکستان میں گیس کے ذخائر کبھی کم یا ختم نہیں ہونے؟ کیا زمین کے نیچے پانی میں کمی نہیں آ رہی؟ ایک طرف آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے دوسری طرف ہم نے وسائل کے ضیاع کی رفتار بھی ڈبل کر دی ہے۔ پھر ہم یہ بھی چاہتے ہیں کہ ہمیں چیزیں سستی بلکہ مفت ملیں اور مسلسل بھی۔
جس طرح کا دور آ گیا ہے اس میں تو اچھے خاصے کھاتے پیتے گھرانوں کے بھی ہوش اڑ گئے ہیں۔ پہلے ہزار کا نوٹ لے کر نکلتے تھے تو پتا نہیں چلتا تھا‘ اب پانچ ہزار کا نوٹ بھک سے ہوا میں اڑ جاتا ہے۔ گزشتہ دنوں وفاقی کابینہ کے اجلاس میں وزیراعظم شہباز شریف نے عوام سے یہی کہا کہ وہ توانائی کی بچت کے لیے اپنی زندگی کے رویوں میں تبدیلی لائیں۔ اس مقصد کے لیے سرکاری دفاتر میں بجلی کی کھپت میں تیس فیصد کمی کی جائے۔ اسی طرح بجلی سے چلنے والی الیکٹرک بائیک کی تیاری ملکی سطح پر تیز کی جائے تاکہ پٹرول کی بچت کی جا سکے۔ گرمیوں میں پنکھے تقریباً پورے ملک میں دن رات چلتے ہیں تو اس حوالے سے کم بجلی والے پنکھے بنانے اور چلانے سے بڑی مقدار میں بجلی کی بچت ہو سکے گی۔ اسی طرح شادی ہال وغیرہ کے اوقات مناسب کرنے سے بھی شہریوں اور حکومت دونوں کے اخراجات بچیں گے۔ بلاوجہ کے چراغاں سے بھی اجتناب کیا جانا چاہیے اور یہ سب عوامی اور حکومتی دونوں سطح پر ہونا چاہیے۔ توانائی بحران پر قابو پانے کے لیے ہمیں بحیثیت قوم اپنی عادتیں بدلنا ہوں گی۔ حکومت چاہتی ہے کہ تمام مارکیٹیں اور شاپنگ مالز شام پانچ بجے بند ہو جائیں مگر اس کے لیے دکاندار اور تاجر طبقہ حکومت سے تعاون کرنے پر تیار نظر نہیں آتا۔ اس کی ضد ہے کہ وہ رات گئے تک کاروبار جاری رکھنا چاہتا ہے۔ دوسری طرف لوگوں کو بھی عادت پڑی ہوئی ہے کہ وہ شام کا کھانا کھانے کے بعد شاپنگ کے لیے نکلتے ہیں۔ رات دیر تک جاگنا بھی معمول بن چکا ہے جس سے بجلی کی طلب میں کئی گنا اضافہ ہوتا ہے لہٰذا دکانداروں اور صارفین کی ہٹ دھرمی سے توانائی بحران سنگین تر ہوتا چلاجارہا ہے۔ عوام کی بات کریں تو ہماری ترقی یافتہ ملک بننے کی صرف خواہش ہے وگرنہ ہم سنجیدہ ہوتے تو اپنے معمولات بھی بہتر بنا لیتے۔ ملائیشیا‘ سنگاپور‘ تھائی لینڈ حتیٰ کہ نیپال جیسے چھوٹے اور پسماندہ ملک میں بھی اس طرح کے کاروبار شام کے بعد بند کر دیے جاتے ہیں۔ پاکستان مگر ایسا ملک ہے جہاں عیاشی لازم خیال کی جاتی ہے۔ ہر کوئی رات کو ضروری کام نمٹانے کے لیے نکلتا ہے جس سے ایک طرف تو رات کو ٹریفک جام رہتی ہے‘ دوسری طرف دکانوں میں بڑے بڑے بلب بجلی چوستے رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سردیوں میں بجلی بار بار ٹرپ کر رہی ہے کیونکہ ہمارے لیے سردیوں کی راتوں کو بھی لحافوں میں دبکنے کے بجائے شاپنگ کرنا زیادہ اہم ہے۔ بجلی‘ گیس اور پانی کی اہمیت ان ممالک سے پوچھیں جہاں یہ پہلے ہی نایاب ہو چکی ہیں جبکہ ہمارے رویوں کی وجہ سے یہ یہاں بھی نایاب ہو جائیں گی۔ پھر ہم لوگ ہی گلہ کریں گے لیکن یہ بھول جائیں گے کہ یہ سب ہمارے اعمال کا نتیجہ ہے۔ سابق دور میں کورونا وائرس کی وجہ سے تیل و گیس کی قیمتیں عالمی سطح پر کم ہو رہی تھیں تاہم سابق حکومت نے توانائی کے مسئلے کا کوئی حل نکالنے کی کوشش نہیں کی۔ روس سے بھی ہمیشہ عالمی مارکیٹوں کے مقابلے میں سستا تیل ملتا رہا‘ بھارت نے روس کے سستے پٹرول کا بھرپور فائدہ اٹھایا جس کے باعث اسے توانائی بحران کا زیادہ سامنا نہیں ہوا۔ مگر پاکستان روس کے سستے تیل کا فائدہ اٹھانے سے بھی محروم رہا۔ موجودہ حکومت نے روس سے سستا تیل درآمد کرنے کے لیے مذاکرات کا آغاز کردیا ہے‘ خدا کرے یہ بات چیت کامیابی سے آگے بڑھ سکے۔ تاہم جتنی بھی بجلی آ جائے اس کا کفایت شعاری سے استعمال پھر بھی لازم رہے گا۔ یہ بات بھی طے ہے کہ عوامی اور قومی رویوں کی اصلاح کیے بغیر حالات بہتر نہیں ہو سکتے۔ بہتری کے لیے پہلے ہمیں اپنے لائف سٹائل پر نظر ثانی کرنا ہو گی‘ اسی سے تعمیر و ترقی کا سفر ممکن ہو سکے گا۔