آئین اور قانون کی اہمیت کیا ہوتی ہے‘ اس کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ کسی جگہ اگر آئین یا قانون موجود نہ ہو تو اس جگہ کے بارے یہی کہا جاتا ہے کہ یہاں جنگل کا قانون چلتا ہے۔ کسی بھی ملک کا دستور اس کے حکومتی اور سیاسی نظام اور اس ملک میں بسنے والے شہریوں کے حقوق کا تحفظ اور تعین کرتا ہے۔ ہر ملک میں نظام کو چلانے کیلئے ادارے وجود میں آتے ہیں جبکہ ان اداروں کے اپنے اپنے الگ قوانین اور قاعدے ہوتے ہیں۔ کوئی چھوٹے سے چھوٹا ادارہ بھی ایسا نہیں ہو گا جو بغیر کسی قاعدے اور قانون کے چل رہا ہو۔ روئے زمین پر جتنے بھی ممالک ہیں‘ چاہے وہ پسماندہ ہوں یا ترقی یافتہ‘ ہر کسی کا انتظام و انصرام کسی نہ کسی آئین کے تحت ہی چل رہا ہے۔ قوانین اور اصول و ضوابط کے بغیر کوئی معاشرہ زیادہ دیر تک قائم و دائم نہیں رہ سکتا۔ دنیا میں ہر جگہ کسی نہ کسی صورت میں آئین موجود ہے؛ البتہ برطانیہ‘ اسرائیل اور نیوزی لینڈ ایسے ممالک ہیں جہاں تحریری آئین موجود نہیں مگر وہاں ایسی مضبوط پارلیمانی روایات موجود ہیں جو آئین کا درجہ رکھتی ہیں۔
پاکستان کو اس کا مستقل آئین 10 اپریل 1973ء کو ملا۔ اس کی منظوری کے اگلے روز اخبارات میں یہی شہ سرخیاں لگیں کہ پاکستان کا مستقل آئین منظور کر لیا گیا ہے۔ یہ دستور صدارتی کے بجائے پارلیمانی طرز کا تھا جس میں واضح کیا گیا کہ اختیارات صدر کے بجائے وزیراعظم کے پاس ہوں گے جسے قومی اسمبلی کے ارکان کی اکثریت منتخب یا معطل کرے گی۔ اس سے قبل پاکستان کا پہلا دستور قیام پاکستان کے 9 برس بعد 23 مارچ 1956ء کو نافذ ہوا تھا۔ اس آئین میں پہلی بار پاکستان کو ''اسلامی جمہوریہ‘‘ قرار دیا گیا تھا جو دوسرے آئین میں صرف جمہوریہ رہ گیا؛ تاہم بعد میں 73ء کے آئین میں ایک مرتبہ پھر ''اسلامی جمہوریہ‘‘ لکھا گیا۔ دوسرا آئین 1962ء میں نافذ ہوا لیکن یہ صدارتی طرز کا تھا۔ اس میں طاقت کا محور و مرکز صدرِ مملکت کو بنایا گیا تھا جس کے بعد تمام قسم کے فیصلے اور اختیارات صدر کو حاصل ہو گئے اور صدر ہی ملک کے سیاہ و سفید کے مالک بن گئے۔ اسی بنا پراس آئین کی بہت زیادہ مخالفت ہوئی اور بھرپور مزاحمت بھی دیکھنے کو ملی ۔ ایک آمر کے دور میں بنا یہ آئین ایک دوسرے آمر کے اقتدار پر شب خون مارنے سے اپنے اختتام کو پہنچ گیا اور ملک ایک بار پھر مارشل لاء کی زد میں آ گیا۔ 1973ء کا آئین حکومت اور حزبِ مخالف کی جماعتوں میں سمجھوتے کے بعد منظور ہوا تھا۔ ایوان کے ایک سو اٹھائیس میں سے ایک سو پچیس ارکان نے اس آئین کے حق میں فیصلہ دیا تھا۔ پاکستان کا یہ آئین اس لحاظ سے بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ اس میں پاکستان کا سرکاری مذہب اسلام کو قرار دیا گیا اور کہا گیا کہ چونکہ اللہ تبارک وتعالیٰ ہی پوری کائنات کا بلا شرکت غیرے حقیقی حاکم مطلق ہے اور پاکستان کے جمہور کو جو اختیار و اقتدار اس کے مقررکردو حدود کے اندر استعمال کرنے کا حق ہوگا‘ وہ ایک مقدس امانت ہے۔ اسی طرح آئین کے آرٹیکل 41 کے تحت صدرِ پاکستان کا مسلمان ہونا لازمی قرار دیا گیا جبکہ آرٹیکل 91 کے تحت وزیراعظم پاکستان کا مسلمان ہونا ضروری ٹھہرا۔ چونکہ پاکستان اسلام کے نام پر قائم ہوا تھا اس لیے شق 227 میں لکھا گیا کہ موجودہ تمام قوانین کو قرآن و سنت میں منضبط اسلامی احکام کے مطابق ڈھالا جائے گا اور ایسا کوئی قانون وضع نہیں کیا جائے گا جو مذکورہ احکام کے منافی ہو۔ اسی آئین کے مطابق اردو کو پاکستان کی قومی زبان قرار دیا گیا۔
جہاں تک آئین میں تبدیلی یا ترمیم کی بات ہے تو آرٹیکل 238 کے مطابق آئینِ پاکستان میں کسی بھی قسم کی تبدیلی یا ترمیم کے لیے قومی اسمبلی اور سینیٹ کے اراکین کی دوتہائی اکثریت درکار ہوتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ صدرِ پاکستان کی منظوری بھی ضروری ہے۔ سادہ الفاظ میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ آئینِ پاکستان میں کسی بھی قسم کی ترمیم کے لیے پارلیمنٹ کے دو تہائی اراکین کی حمایت بہت ضروری ہے۔ اس آئین میں پاکستانی ریاست کا طرزِ حکومت پارلیمانی قرار دیتے ہوئے وزیراعظم کو مرکزی حکومت کا سربراہ قرار دیا گیا۔ اسی طرح صوبے کی حکومت کا سربراہ وزیراعلیٰ کو قرار دیا گیا اور یہ بھی کہا گیا کہ وزیراعلیٰ کے لیے صوبائی اسمبلی کا رکن ہونا ضروری ہے۔ آئین کے آرٹیکل 50 میں یہ بھی بتا دیا گیا کہ پاکستان کی پارلیمنٹ دو ایوانوں (قومی اسمبلی اور سینیٹ) اور صدرِ پاکستان پر مشتمل ہے۔ اسی آئین میں بنیادی انسانی حقوق کا بھی تعین کیا گیا اور یہ باور کرایا گیا کہ پاکستان کا آئین ملک کے ہر شہری کو اس کے بنیادی حقوق یعنی نقل و حرکت‘ کاروبار‘ اجتماع اور انجمن سازی کی آزادی‘ آزادیٔ رائے‘ تقریر کی آزادی‘ بلاوجہ حراست سے بچاؤ‘ مذہب‘ زبان‘ تعلیم اور رسم و رواج وغیرہ کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔ ان بنیادی حقوق کا تذکرہ آئین کے آرٹیکل 8 سے لے کر آرٹیکل 28 تک میں ملتا ہے جن کو جاننا ہر پاکستانی شہری کے لیے ضروری ہے۔ اس آئین میں ترامیم کے ذریعے مختلف اصلاحات کی گئیں‘ انہی میں سے ایک صوبائی خودمختاری تھی جس کے باعث صوبوں کی ترقی کی رفتار میں اضافہ ہوا اور صوبے اپنے داخلی و انتظامی مسائل خود حل کرنے لگے۔ اسی طرح آئینِ پاکستان نے ملک میں واحد شہریت کے اصولوں کو متعارف کرایا جس کی سب سے بہترین مثال یہ ہے کہ کوئی بھی امیدوار‘ اگر اس کے پاس دہری شہریت ہے تو وہ قومی اسمبلی، صوبائی اسمبلی یا سینیٹ کا انتخاب نہیں لڑ سکتا۔ 73ء کے آئین نے خواتین کو مساوی حقوق مہیا کیے‘ یہاں تک کے خواتین کو قومی دھارے اور فیصلہ سازی و قانون سازی میں بنا کسی رکاوٹ کے قومی اسمبلی، صوبائی اسمبلیوں اور سینیٹ کے ایوانوں میں پہنچانے کیلئے خصوصی نشستیں مہیا کیں۔ آئین کا آرٹیکل 20 پاکستان میں اقلیتوں کو ان کے مذہبی حقوق کا تحفظ مہیا کرتا ہے۔ پاکستان میں بسنے والے اقلیتی شہری اپنے مذہب کو اپنانے، اپنی عبادت گاہ بنانے اور ان میں عبادات کرنے میں آزاد ہیں۔
آج (دس اپریل کو) پاکستان میں 73ء کا آئین نافذ ہوئے پچاس سال مکمل ہو جائیں گے۔ اس حوالے سے حکومت نے گولڈن جوبلی منانے کا اعلان کرتے ہوئے وفاقی اور صوبائی سطح پر مختلف تقریبات منعقد کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس میں متعلقہ پہلوئوں کو اجاگر کیا جائے گا۔ ایک خبر کے مطابق تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو بھی ان تقریبات میں مدعو کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ ملک اس وقت مسائل کے جس گرداب میں پھنس چکا ہے اس کیلئے تمام سیاسی جماعتوں کو ہر قسم کے مسائل کے حل کیلئے ایک میز پر بیٹھنا چاہیے۔ ملک ایک مرتبہ پھر ایک نازک موڑ سے گزر رہا ہے۔ اس وقت آپس کے اختلافات کو بھلا کر صرف یہ سوچنا ہو گا کہ کیسے اس معاشی اور سیاسی بحران سے باہر نکلا جا سکتا ہے۔ پچھلے دو عشروں تک پاکستان نائن الیون کی جنگ کے اثرات بھگتتا رہا‘ پھر کورونا اور اس کے بعد روس‘ یوکرین جنگ اور ان دونوں سے ہونے والی عالمی معاشی تباہ کاریاں پاکستان کو کمزور تر کر رہی ہیں۔ ایسے میں اگر اندرونی طور پر ہم یونہی باہم دست و گریباں رہیں گے‘ خلفشار اور انتشار مسلسل جاری رہے گا تو اس کا نتیجہ کیا نکلے گا‘ اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ آئین سے ماورا کوئی ہے‘ نہ ہونا چاہیے۔ اسی اصول پر چلنے سے ملک میں جاری معاشی اور سیاسی بحران کی طلاطم خیز موجیں پُرسکون لہروں میں تبدیل ہو سکتی ہیں۔