"ACH" (space) message & send to 7575

عالمی جنگی اخراجات اور بنیادی مسائل

سرکردہ عالمی دفاعی تھنک ٹینک سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ کی رپورٹ کے مطابق عالمی جنگی اخراجات 2022ء میں دو ٹریلین ڈالر تک جا پہنچے جو آج تک دنیا بھر کے ممالک کے جنگی اخراجات کی بلند ترین سطح ہے۔ صرف گزشتہ ایک سال میں دنیا بھر کے ممالک نے جنگی تیاریوں اور اسلحہ سازی پر اضافی 3.7 فیصد رقم خرچ کی۔ اخراجات میں اس حد تک اضافہ کی کئی وجوہات ہیں جن میں روس یوکرین جنگ، غیرمحفوظ دنیا اور غیر یقینی حالات سرفہرست ہیں۔ روسی دھمکیوں نے بھی بہت سے ملکوں کو خطرات سے دوچار کر رکھا ہے اور وہ اپنی حفاظت کے لیے اپنے عوام کی فلاح و بہبود کے لیے وقف کی جانے والی رقم بھی اس مد میں خرچ کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ بالفاظِ دیگر‘ جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے بظاہر دنیا ترقی کر رہی ہے‘ نت نئی ایجادات سامنے آ رہی ہیں لیکن عجیب بات یہ ہے کہ یہ سارا کچھ جس لیے کیا جا رہا ہے اور جس انسان نے اس ترقی سے فائدہ اٹھانا ہے‘ وہ خود ہر آنے والے دن غیر محفوظ اور غیر یقینی کی دلدل میں دھنستا جا رہا ہے۔ صرف یورپ میں گزشتہ تین دہائیوں کے دوران جنگی اخراجات میں 13 فیصد اضافہ ہوا ہے جس کے باعث خطے کے معاشی حالات بھی متاثر ہو رہے ہیں۔
دنیا بھر میں کُل جنگی اخراجات کا ایک تہائی پیسہ تو صرف امریکہ خرچ کر رہا ہے۔ مذکورہ رپورٹ نے اس بات کی نشاندہی بھی کی ہے اور یہ حقیقت ہے کہ ان اخراجات کی مد میں رقم صرف اسلحہ کی خرید و فروخت میں نہیں خرچ کی جا رہی بلکہ اس سے ہٹ کر بھی دفاعی شعبے میں وسیع اخراجات کیے جاتے ہیں۔ مختلف ممالک میں قومی دفاعی ادارے لاکھوں سویلینز اور فوجی اہلکاروں کو ملازمت دیتے ہیں۔ بعض اوقات دور دراز اور دشمن کے علاقوں میں ان ملازمین کو کھانا کھلانے‘ لباس مہیا کرنے اور ان کی رہائش کا انتظام کرنے کیلئے بڑے اخراجات کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگرچہ اس وقت اسلحے کی صنعت عروج پر ہے اور یہ مانگ پوری کرنے کے لیے دباؤ میں ہے لیکن مختلف ممالک میں دفاعی وزارتیں کسی بھی دوسرے دفتر کی طرح لائٹس روشن رکھنے اور بیت الخلا کی صفائی کے لیے بھی ادائیگیاں کر رہی ہیں۔ دفاعی اخراجات میں ہر سال ہونے والے اضافے میں فوجی امداد بھی شامل ہے جس میں یوکرین میں روسی جارحیت کی وجہ سے غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ جرمنی کے اقتصادی تھنک ٹینک کیل انسٹیٹیوٹ کے مطابق اکیلے امریکہ نے یوکرین کے دفاع کے لیے 47 بلین ڈالر سے زیادہ کا تعاون کیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا یہ بڑھتے ہوئے دفاعی اخراجات دنیا کی آٹھ ارب آبادی کی اکثریت کے لیے فائدہ مند ثابت ہو رہے ہیں یا ان کے منہ سے دو وقت کا نوالہ بھی چھنتا جا رہا ہے؟ اس بات کا جواب تقریباً ہر ملک کے داخلی‘ معاشی اور اقتصادی حالات سے بہ آسانی لگایا جا سکتا ہے۔ دور کیا جانا‘ صاف نظر آ رہا ہے کہ بھارت جنگی جنون کو لے کر کیا کچھ نہیں کر رہا۔ بھارت کی بری فوج پر کُل بھارتی دفاعی بجٹ کا تقریباً اٹھاون فیصد خرچ ہوتا ہے۔ تئیس فیصد بھارت کی ایئر فورس اور بقایا دیگر مدات میں جاتا ہے۔ واضح رہے کہ فروری 2023ء میں بھارت کے سالانہ بجٹ میں دفاع کے لیے 5935 ارب بھارتی روپے (72.6 ارب ڈالر) سے زائد مختص کیے گئے تھے‘ جو گزشتہ سال کے دفاعی بجٹ سے 13 فیصد زائد تھے۔ بھارت جس تیزی کے ساتھ اپنے دفاع کے نام پر پیسے بہا رہا ہے‘ اس سے کئی گنا تیزی سے اس کے ہاں غربت‘ بیروزگاری‘ کرپشن اور افراتفری میں اضافہ ہو رہا ہے۔ وہ واقعہ کون بھول سکتا ہے کہ جس میں بھارتی ریاست اڑیسہ میں ایک غریب شخص کو اپنی بیوی کی لاش اٹھا کر دس کلومیٹر تک طویل سفرکرنا پڑا کیونکہ ہسپتال انتظامیہ نے پیسے نہ ہونے کے باعث اسے ایمبولینس فراہم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
ریاست اڑیسہ کے علاقے کالا ہانڈی کا رہائشی ٹی بی کی بیماری کے باعث اپنی بیوی کو سرکاری ہسپتال لے کر گیا تھا جہاں ایک ہفتہ زیرِ علاج رہنے کے بعد وہ چل بسی۔ دہارا ماجھی نے ہسپتال انتظامیہ سے بیوی کی لاش کو گاؤں منتقل کرنے کے لیے ایمبولنس فراہم کرنے کی درخواست کی جسے رقم نہ ہونے کے باعث مسترد کر دیا گیا۔ انتظامیہ کی جانب سے ایمبولینس فراہم نہ کیے جانے پر دھارا ماجھی نے بیوی کی لاش کو ایک چادر میں لپیٹ کر کندھے پر اٹھایا اور پیدل ہی اپنے گاؤں کی طرف چل پڑا۔ بھارت میں ایسے واقعات اب معمول کا حصہ شمار کیے جانے لگے ہیں کیونکہ بھارتی حکومت کے پاس اپنے شہریوں کو دینے کے لیے سوائے دلاسوں کے اور کچھ نہیں بچا۔ مودی سرکار عوام کی فلاح میں بری طرح ناکام ہوئی ہے۔ دیگر ترقی پذیر ممالک کا حال بھی ایسا ہی ہے۔ ان ممالک میں بچے کم وزن کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں اور ضروری اور بھرپور غذا سے محروم رہنے کی وجہ سے ذہنی اور جسمانی طور پر لاغر رہتے ہیں۔
غربت کے بعد دنیا کا دوسرا بڑا مسئلہ تعلیم ہے جس کی طرف توجہ نہیں دی جا رہی۔ مہنگائی بڑھنے کی وجہ سے وہ لوگ جو اپنے بچوں کو کسی نہ کسی طرح برائے نام ہی سہی‘ تعلیم دلوا رہے تھے‘ اب انہوں نے بھی ہاتھ کھینچنے شروع کر دیے ہیں۔ ان کے خیال میں ان کے بچوں نے جیسے تیسے تعلیم حاصل کر لی‘ تب بھی وہ ملازمت حاصل نہیں کر سکیں گے لہٰذا اس سے بہتر ہے کہ انہیں شروع میں ہی کوئی ہنر سکھا دیا جائے‘ کسی دکان یا فیکٹری میں ڈالنے سے روٹی ٹُکر تو چلتا رہے گا۔ صاف پانی کا مسئلہ بھی اتنا شدید ہو چکا ہے کہ انسانوں کی بڑی تعداد مضرِ صحت پانی کی وجہ سے لاتعداد بیماریوں کا شکار ہو کر جان سے ہاتھ دھو رہی ہے۔ یہ وہ چند بنیادی مسائل ہیں جن کی طرف حکومتیں اگر سوچتی بھی ہیں تب بھی اس انداز میں عمل درآمد نہیں کرتیں جس طرح دفاعی شعبوں کے لیے حکمت عملی بنائی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امیر اور غریب کے درمیان فرق بڑھتا جا رہا ہے اور لوگوں میں باہمی نفرتوں میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ بڑھتی سماجی تفریق کے باعث‘ جہاں غریب کی بنیادی انسانی ضرورتیں بھی پوری نہیں ہو رہیں اور امیر لگژری لائف سٹائل انجوائے کر رہے ہیں‘ غریب امیر کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے خواہ اس نے اپنا پیسہ حق حلال سے ہی کیوں نہ کمایا ہو۔ ایسے میں اگر غریب کو بنیادی حقوق مل جائیں تو یہ نفرتیں اور کدورتیں قدرے کم ہو جائیں اور لوگ اپنے اپنے لائف سٹائل کے ساتھ مطمئن رہ کر زندگی گزارنے لگیں۔ لیکن یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ غریب روٹی‘ بجلی‘ گیس اور علاج کی بنیادی سہولتوں کے لیے در در کی ٹھوکریں کھا رہا ہے اور دوسری جانب دنیا میں ایسے ایسے جزیرے تعمیر کیے جا رہے ہیں جو دنیا میں ہی جنت کا منظر پیش کرتے نظر آتے ہیں۔
روس‘ امریکہ‘ بھارت‘ کوریا اور یورپی ممالک جتنا بھی اپنے دفاعی بجٹ کو بڑھا لیں‘ جتنے مرضی جدید جنگی جہاز‘ ٹینک‘ آبدوزیں اور بین البراعظمی میزائل خرید لیں یہ تب تک نہ خود کو پُرسکون بنا پائیں گے نہ دنیا کو پُرسکون بنتا دیکھ سکیں گے جب تک دنیا میں امن و امان قائم کرنے کے لیے یہ غربت سے نمٹنے اور دیگر بنیادی حقوق کی فراہمی کے لیے جنگی بنیادوں پر کام نہیں کرتے۔ ان کی اپنی سلامتی اور خوش حالی بھی اسی میں ہے کہ یہ غریب کو مزید غریب ہونے سے بچائیں اور اپنے وسائل اور پیسے کی تقسیم اس طرح کریں کہ یہ ایک جگہ اکٹھا ہونے کے بجائے دنیا کے مختلف محکوم اور مظلوم ممالک و طبقات کی خیر و فلاح کے لیے استعمال ہو سکے۔ ایران‘ عراق‘ شام‘ کویت‘ افغانستان اور یمن سمیت دیگر ممالک میں جنگیں مسلط کر کے اگر دنیا میں سکون آنا ہوتا تو کب کا آ چکا ہوتا اور آئے روز جنگی اخراجات میں اضافہ نہ کرنا پڑتا۔ دراصل ہر نئی جنگ مسلط کرنے کے بعد طاقتور ممالک مزید خوف زدہ ہو جاتے ہیں کہ کہیں اس کا ری ایکشن نہ آ جائے اور یوں وہ ایک ایسے گھن چکر میں پھنس چکے ہیں جس سے نکلنا ان کے لیے محال ہو گیا ہے۔ نجانے انہیں کب سمجھ آئے گی کہ جنگی اخراجات میں بے تحاشا اضافے اور انصاف و مساوات کو نظر انداز کر کے امن قائم کرنا ممکن نہیں ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں