ریاست سے کوئی لڑ سکتا ہے نہ ہی کوئی اس میں کامیاب ہو سکتا ہے۔ جو گمراہ اور شرپسند عناصر ریاست اور ریاستی اداروں کے خلاف عوام کو اُکساتے ہیں وہ بھی برابر کے مجرم ہیں اور انہیں بھی وہی سزا ملنی چاہیے جو ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھانے والوں کو ملتی ہے۔ یہ درست ہے کہ کسی بھی علاقے میں عسکریت پسندی کو ختم کرنے میں کچھ وقت لگتا ہے لیکن اس میں کامیابی تبھی ممکن ہو پاتی ہے جب پوری قوم یکسو ہو کر عسکریت پسندی ختم کرنے کا ارادہ کرے۔ پاکستان نے دہشت گردی کی جنگ میں جو قربانیاں دی ہیں وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ نائن الیون کے بعد اسّی ہزار سے زائد پاکستانی عوام شہید ہوئے جبکہ دس ہزار سے زائد فوجی جوانوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ داخلی سطح پر اگر کوئی دہشت گرد گروہ یا عسکری تنظیم وجود میں آئی اور اس نے بھارتی اور دیگر خفیہ ایجنسیوں کی شہ پر ملک میں فرقہ واریت‘ انتشار اور امن و امان کو نقصان پہنچانے کی پالیسی اپنائی‘ تو وہ سب ایک ایک کر کے اپنے اپنے انجام کو پہنچ گئیں۔ گزشتہ دنوں انٹیلی جنس اداروں نے ایسی ہی ایک شاندار کاوش کے بعد کالعدم بی ایل اے کے لیڈر گلزار امام عرف شنبے کو بلوچستان سے گرفتار کیا جس کی گرفتاری کالعدم تنظیموں اور دشمن انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ناپاک عزائم کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے۔ کالعدم تنظیم کے سابق کمانڈر گلزار امام شنبے نے گرفتاری کے بعد اعتراف کیا کہ اس نے جس راستے کا انتخاب کیا تھا وہ درست نہیں تھا۔ گلزار امام بھول گیا تھا کہ ملک اوراس کے عوام سے غداری کا انجام وہی ہوتا ہے جو ہر ایسے عسکریت پسند کا ہوا جس نے اپنے ہی ملک کے خلاف ہتھیار اٹھا لیے‘ جو کھاتے تو اس ملک کا تھے لیکن اسی کی جڑیں کاٹنے میں لگے تھے۔ شنبے اس بھول میں تھا کہ وہ سکیورٹی اداروں سے زیادہ طاقتور ہو گیا ہے اور جب تک چاہے ملک کو نقصان پہنچانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اب اسے معلوم ہو گیا ہو گا کہ ریاست قانون شکنوں کے خلاف کارروائی کرنے کی مکمل قابلیت رکھتی ہے۔ قانون کو سرنگوں کرنے کے لیے کوئی بھی قدم اٹھایا جائے تو حتمی تجزیے میں وہ ناکام ہی ٹھہرے گا۔
امام شنبے جیسے نوجوان جس راستے پر چل رہے ہیں‘ وہ راستہ سراسر تباہی کی طرف جاتا ہے۔ اس رجحان کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں جن میں بیروزگاری اور جان بوجھ کر غلط دوستوں اور راستوں کا انتخاب اہم ترین ہیں۔ پھر یہاں آپس کے اختلافات بھی ختم ہونے کو نہیں آتے۔ ہر دس کلومیٹر بعد آپ کو اس ملک میں نئی جماعت‘ نیا گروہ‘ نیا لیڈر اور نیا مافیا مل جائے گا۔ کوئی بھی ایک دوسرے کے ساتھ یا ماتحت چلنے کو تیار نہیں۔ ہر کسی کے اپنے اپنے عزائم اور اپنے اپنے مقاصد ہیں اور ہمارے انہی اختلافات کو دشمن کی انٹیلی جنس ایجنسیاں بطور ایندھن استعمال کرتی ہیں۔ ہم اپنے اردگرد بھی دیکھتے ہیں کہ کئی نوجوان ایسے ہیں جو اچھے خاصے تعلیم یافتہ ہوتے ہوئے غلط ڈگر پر چلنے لگتے ہیں‘ کئی ایسے پڑھے لکھے نوکری پیشہ افراد ایسے ہیں جو دہشت گرد تنظیموں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔ یہ تنظیمیں ان کی اس انداز میں برین واشنگ کرتی ہیں کہ ان کی صلاحیتوں کو اپنے منفی مقاصد کے لیے استعمال کر سکیں۔ ٹیکنالوجی کے اس دور میں اس طرح کے مسائل اور چیلنجز اور بھی گمبھیر ہو گئے ہیں اور غیر مصدقہ مواد ہر طرف سے بچوں اور نوجوانوں پر حملہ آور ہے۔ اس صورت حال بھی بہتری تبھی لائی جا سکتی ہے جب ہم کردار سازی کی طرف آئیں اور اپنے بچوں اور نوجوانوں کو مثبت سرگرمیوں کی جانب راغب اور مشغول کریں۔ ہمیں اپنے اردگرد ایسے افراد اور گروہوں پر بھی نظر رکھنا ہو گی جو پروپیگنڈوں سے بہت زیادہ اور بہت جلد متاثر ہو جاتے اور گمراہی کا شکار ہو جاتے ہیں۔
دیگر صوبوں کی طرح بلوچستان کے لوگ بھی محب وطن اور انسانیت سے پیار کرنے والے ہیں۔ وہ عسکریت پسندی سے تنگ آ چکے ہیں اور ان چند لوگوں کے ہاتھوں پُرامن اور خوشحال بلوچستان کے وژن کو ہائی جیک نہیں ہونے دینا چاہتے۔ گلزار امام شنبے کے اس اعتراف کے بعد ان گمراہ افراد کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں جو ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھانے اور بغاوت کو جائز سمجھتے ہوئے اپنا وقت اور پیسہ اس راہ میں برباد کر رہے ہیں۔
گلزار امام شنبے کی عمر بہت زیادہ نہیں‘ وہ محض پینتالیس سال کا ہے اور 1978ء میں بلوچستان کے ضلع پنجگور میں پروم کے مقام پر پیدا ہوا۔ وہ کالعدم بلوچ ریپبلکن آرمی میں 2018ء تک براہمدغ بگٹی کا نائب رہا۔ جب حکومت پاکستان نے بلوچ سٹوڈنٹ آرگنائزیشن (بی ایس او) کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کیا تو گلزار امام نے پہاڑوں کا رُخ کر لیا اور بی ایل اے میں شمولیت اختیار کر لی۔ بعد ازاں اس نے اس کالعدم تنظیم کے کمانڈر کا عہدہ سنبھال لیا۔ گلزار امام ایک سخت گیر عسکریت پسند ہونے کے ساتھ ساتھ کالعدم تنظیموں کا بانی اور مرکزی رہنما بھی رہا۔ گلزار امام نے بی ایل اے میں پہلے اپنا دھڑا بنایا، اس کے بعد ایک علیحدہ جماعت بلوچ نیشنلسٹ آرمی (بی این اے) قائم کی جو کہ بلوچ ریپبلکن آرمی (بی آر اے) اور یونائیٹڈ بلوچ آرمی (یو بی اے) کے انضمام کے بعد تشکیل دی گئی تھی۔ بی این اے پنجگور اور نوشکی میں قانون نافذ کرنے والے اداروں (لیویز) کی تنصیبات پر حملوں سمیت پاکستان میں درجنوں پُرتشدد دہشت گرد حملوں کی ذمہ دار ہے۔ گلزار امام کا بلوچ راجی آجوئی سانگر (براس) کی تشکیل میں بھی اہم کردار رہا اور اس نے اس تنظیم کے آپریشنز بھی چلائے۔ آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز میں بتایا گیا ہے کہ گلزار امام کے افغانستان اور انڈیا کے دورے بھی ریکارڈ کا حصہ ہیں اور دشمن ملک کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ساتھ ان روابط کی مزید چھان بین کی جا رہی ہے۔ یہ بھی بتایا گیا کہ ملکی اداروں کو ایسی معلومات ملی ہیں جن کے مطابق دشمن ملک کی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے ریاست پاکستان اور اس کے قومی مفادات کے خلاف کام کرنے کے لیے اُن کا استحصال کرنے کی بھی کوشش کی۔ انتہائی احتیاط سے کی گئی منصوبہ بندی کے بعد کئی مہینوں تک مختلف علاقوں میں ٹارگٹڈ آپریشن کر کے اسے گرفتار کیا گیا۔ گلزار امام شنبے کی گرفتاری بی این اے کے ساتھ ساتھ دیگر عسکریت پسند گروپوں کے لیے بھی ایک سنگین دھچکا ہے، جو بلوچستان میں امن عامہ کی صورتحال کو خراب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
اس ملک کو جتھوں‘ گروہوں اور مافیاز کی نہیں بلکہ اتحاد اور اتفاق کی ضرورت ہے تاکہ مضبوطی کے ساتھ بیرونی دشمن کا مقابلہ کیا جا سکے۔ جو لیڈر‘ جو باغی ریاست کے خلاف تحریک چلاتے ہیں ان کے ساتھ وہی سلوک ہونا چاہیے جو دشمنوں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ گلزار امام نے گزشتہ روز پریس کانفرنس میں جو کچھ کہا وہ ایسے تمام باغی گروپوں اور ان کے سرداروں کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے۔ اپنے ہی ملک کے خلاف مسلح جنگ مسائل کو گمبھیر بناتی ہے۔ مسائل کا حل مذاکرات اور مثبت اقدامات سے نکلتا ہے نہ کہ پتھر ڈنڈے اوربندوقیں اٹھانے سے۔ حقوق کی جنگ صرف آئینی اور سیاسی طریقے سے ہی ممکن ہے بھلے اس میں زیادہ وقت ہی کیوں نہ لگے۔ یہی سیدھا اور قانونی راستہ ہے جس کا انجام کم از کم ندامت‘ افسوس اور جیل کی سلاخوں پر نہیں ہوتا۔ یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اپنے ساتھیوں‘ حامیوں اور نوجوانوں کو پریشر گروپ کے طور پر استعمال کرنے سے نقصان اپنا ہی ہو رہا ہے۔
گلزار امام شنبے کی گرفتاری ملک کی انٹیلی جنس ایجنسیوں بالخصوص آئی ایس آئی اور دیگر سکیورٹی اداروں کی مربوط کارروائی سے ممکن ہوئی جو بہت بڑی کامیابی ہے اور جس پر یہ بجا طور پر تحسین کے حقدار ہیں۔ گلزار امام کوئی معمولی مجرم نہیں تھا‘ اس گرفتاری سے بلوچستان میں جاری عسکریت پسندی کی لہر کی کمر ٹوٹ جائے گی۔ بالخصوص وہ شرپسند جو اس کی طرح گمراہی کے راستے پر چل رہے تھے‘ چاہے سرحدی علاقوں میں ہوں یا بڑے شہروں میں۔ کسی عسکریت پسند اور کالعدم تنظیم کے لیڈر ہوں یا کسی سیاسی جماعت کے رہنما اور کارکن‘ شنبے کا کھلے عام معافی‘ ندامت اور پچھتاوے کا اظہار ان عناصر کے لیے ایک واضح پیغام ہے کہ وہ جتنا جلد ہو سکے‘ سیدھی راہ پر آ جائیں اور ریاست کو چیلنج کرنا چھوڑ دیں وگرنہ قانون تو اپنا راستہ بنا ہی لے گا۔