ویسے تو ہیروازم کے خبط میں پوری دنیا ہی مبتلا ہے لیکن یہ جنون برصغیر پاک و ہند پر چھایا نظر آتا ہے۔ یہاں بہت سوں کو ایسا آئیڈیل سیاسی لیڈر چاہیے جو اقتدار میں آ کر ان کے مسائل حل کرے نہ کرے‘ لیکن کم از کم دِکھتا اچھا ہو‘ بولتا اچھا ہو‘ مخالفین کو لتاڑنا جانتا ہو‘ فقرے کسنے کا ماہر ہو ‘چاہے حکومت میں آ کر وہ مکمل ناکام ہی ہو جائے ۔ اس قسم کے آئیڈیل ازم کی بنیادیں اکثر کھوکھلی ہوتی ہیں جیسا کہ حال ہی میں تحریک انصاف کے مقبول لیڈر کے معاملے میں ہوا۔ اصول کی بات تو یہ تھی کہ اگر وہ کرکٹ کے میدان میں کامیاب تھے تو اس کے نتیجے میں انہیں کھیلوں کا وزیر بنایا جا سکتا تھا۔ پھر اگر وہ سرکاری سطح پر کھیلوں کے فروغ میں اعلیٰ و تعمیری کردار ادا کرتے تو اس سے بڑے عہدے پر بھی اپلائی کر دیتے جیسا کہ کمپنیوں‘ کارخانوں اور اداروں میں ہوتا ہے کہ ایک شخص چھوٹی سی جاب سے شروع ہو کر اپنی کارکردگی کی بنیاد پر ترقی کرتا ہوا چیف ایگزیکٹو بن جاتا ہے۔ یہی اصول سیاست میں بھی لاگو ہونا چاہیے مگر ہمارے یہاں پر سیاست میں اصولوں کا کچھ لینا دینا نہیں ہوتا‘ یہی وجہ ہے وہ سیاستدان جو کل تک خان صاحب کے دائیں بائیں کھڑے تھے‘ جو کل تک ان کے مشیرِ خاص سمجھے جاتے تھے‘ آج وہ 'جانثاران‘ انہیں داغِ مفارقت دے چکے ہیں۔ خان صاحب خود اصولوں کو یہ کہہ کر لات مار چکے ہیں کہ ''یوٹرن اچھے ہوتے ہیں‘‘۔ اُس وقت جب ان کو اپنی صفوں میں موجود کالی بھیڑوں اور ان کی کارگزاریوں کے بارے میں بتایا جاتا تھا تو وہ شکایت کرنے والے کا نام اور شکایات کی لسٹ اسی شخص کو بتا دیتے تھے جس کی شکایت کی جاتی تھی‘ نتیجہ یہ نکلتا تھا کہ خیر خواہی کے جذبے سے غلطیوں کی نشاندہی کرنے والے شخص کا ایوانِ وزیراعظم ‘ زمان پارک یا بنی گالا میں داخلہ ہی بند ہو جاتا۔ خان صاحب کو تنقید بالکل بھی پسند نہیں‘ چاہے وہ تعمیری مقاصد ہی کیلئے کیوں نہ ہو۔ یہی حال ان کے شیدائیوں کا ہے۔ جو بھی ان کی یا حکومت کی چھوٹی‘ بڑی غلطیوں کو سامنے لانے کی کوشش کرتا‘ سوشل میڈیا بریگیڈ ہاتھ دھو کر اس کے پیچھے پڑ جاتی۔ اگر کوئی پارٹی میں سے اُٹھا تو اسے اس درجہ تنگ کر دیا گیا کہ بالآخر وہ پارٹی چھوڑنے ہی پر مجبور ہو گیا۔ کوئی ایسا شخص نہیں تھا جس نے حکومت پر‘ پالیسیوں پر مثبت تنقید کی ہو اور بعد ازاں جماعت سے دلبرداشتہ نہ ہوا ہو۔حکومت میں آنے کے بعد اپنے اردگرد چاپلوسوں اور خوش فہمیوں کے ایسے حصار قائم کر لیے گئے تھے کہ جن کے سبب آج یہ سب کچھ دیکھنا پڑ رہا ہے کہ وہ کسی کو فون تک نہیں کر سکتے نہ ہی کوئی ان کا فون سننے کو تیار ہے۔ پنجاب اسمبلی کی تحلیل سے قبل چودھری پرویز الٰہی نے خان صاحب کو بہت سمجھایا کہ پنجاب حکومت کو نہ توڑیں لیکن وہ نہ مانے اور اپنی ضد پر اڑے رہے۔ ہر غلطی کے بعد نئی غلطی کرنا ان کی عادت ہے‘اور یہ روایت پرویز مشرف کو سپورٹ کرنے اور بعد میں اس پر پچھتانے سے شروع ہوئی اور تاحال یہ سلسلہ جاری ہے۔
ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ جو بھی ایک بار حکمران بن جاتا ہے یا شہرت کی بلندیوں کو چھو لیتا ہے‘ وہ پھر ہوائوں میں اڑنے لگتا ہے اور اس کے پیر زمین پر نہیں ٹکتے۔ خان صاحب کو جس طرح کی شہرت اور جیسے مواقع ملے‘ شاید ہی کسی سیاستدان کو اب تک ملے ہوں یا آئندہ ملنے کی توقع ہو۔ مگر انہوں نے تبدیلی کا سنہری موقع ضائع کر دیا۔ اپنی ٹیم میں ان افراد کو اپنے قریب رکھا جو دوغلی سیاست کے ماہر تھے اور انہیں دور کر دیا جو تعمیری سیاست کے جذبے سے پارٹی میں آئے تھے۔ خان صاحب اکثر اپنی تقاریر میں ذوالفقار علی بھٹو کی بات کرتے ہیں‘ ان کے کئی کاموں کی تعریف بھی کرتے ہیں لیکن جتنے کارنامے بھٹو نے حکومت میں رہ کر سرانجام دیے‘ خان صاحب اس کا عشر عشیر بھی نہ کر سکے ۔بھٹو نے ایک کامیاب سیاستدان کے طور پر نام کمایا تھا لیکن خان صاحب کی ابتدائی پہچان ہی کرکٹ تھی جس کے میدانوں میں پاکستان کئی مرتبہ دنیا میں اپنی قابلیت کا لوہا منوا چکا ہے۔پھر انہوں نے فلاحی میدان میں قدم رکھا اور شوکت خانم ہسپتال بنایا تاکہ غریب مریضوں کا مفت علاج کیا جا سکے۔ ان کا سیاست میں قدم رکھنا غیرمعمولی نہیں تھا، دنیا بھر میں سینکڑوں اداکار‘ کھلاڑی اور دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد سیاست کے میدان میں قسمت آزمائی کر چکے ہیں اور کامیاب بھی ہوئے ہیں۔ امریکہ میں فٹ بال‘بیس بال‘آئس ہاکی‘مارشل آرٹس‘ریسلنگ اور باڈی بلڈنگ کے کئی معروف کھلاڑی سیاست کے میدان میں کامیاب رہے ہیں۔ان میں سے کچھ میئر بنے‘کچھ کونسلراورکچھ گورنربنے۔ہر کسی نے اپنی استعداد اور دائرے میں رہتے ہوئے ملک کی خدمت کرنے کی کوشش کی۔ ''آرنلڈ شیوازنگر‘‘ کامیاب ترین تن ساز تھا‘ چھ‘ سات مرتبہ تن سازی کے عالمی مقابلے مسٹر اولمپیا کا ٹائٹل جیتا‘ ہالی وُڈ میں قدم رکھا تو وہاں بھی ''ٹرمینیٹر‘‘ سیریز جیسی بلاک بسٹر فلمیں دیں‘ ریئل اسٹیٹ میں ہاتھ ڈالا تو وہاں بھی کامیابی کے جھنڈے گاڑے۔ اس کا آخری میدان سیاست تھا۔ وہ ریپبلکن پارٹی کی طرف سے امیدوار نامزد ہوا اور بالآخر کیلیفورنیا کا گورنر منتخب ہو گیا۔
اسی طرح بھارت میں اگر اداکاروں کی بات کریں تو سنیل دت، سجنے دت، سنی دیول، راج ببر، امیتابھ بچن، جیا بچن، ہیمامالنی اور بھگوت مان سمیت ایک لمبی فہرست ہے جنہوں نے سیاست کے میدان میں طبع آزمائی کی‘ اسی طرح کھلاڑیوں میں گوتم گھمبیر‘نوجوت سنگھ سدھو اور کارتک آزاد جیسے افراد سیاسی میدان میں کسی حد تک کامیاب رہے لیکن پاکستان میں سبھی کھلاڑیوں سے زیادہ شہرت خان صاحب کو ملی۔ اوورسیز پاکستانی بھی انہیں پسند کرتے تھے ۔ان کے خیال میں دیگر دونوں جماعتوں کو کئی بار مواقع مل چکے ہیں‘اب کسی تیسری قوت کو موقع ملنا چاہیے۔ خان صاحب کو موقع کیسے ملا‘ اقتدار میں لانے کیلئے کیسے راہیں ہموار کی گئیں‘ جو لوگ آج انہیں چھوڑ کر جا رہے ہیں کیسے انہیں دوسری جماعتوں سے توڑ کر ان کے ساتھ جوڑا گیا‘ کیسے 'باپ‘ اور ایم کیو ایم جیسی جماعتوں کو ان کے ساتھ اتحاد کرنے پر راضی کیا گیا جن کا وہ کبھی نام بھی سننا نہیں پسند کرتے تھے‘ یہ سب باتیں اب سامنے آ چکی ہیں اور عوام سے کچھ بھی ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ 2018ء سے قبل یہ سب کچھ جائز تھا کیونکہ انہیں ہر حال میں وزیراعظم بننا تھا۔2011ء کا کامیاب جلسہ اور 2014ء کا دھرنا‘ یہ سب کچھ اسی کہانی کے پلاٹ تھے۔ الغرض موصوف وزیراعظم تو بن گئے لیکن سیاستدان کبھی نہ بن سکے۔ان کے اندر سے 'میں‘ نہ نکل سکی۔جب کہیں تقریر کرتے تو یہی کہتے‘ میں سب کو سب سے زیادہ جانتا ہو‘ یورپ کو یورپ سے زیادہ‘کرکٹ کو کرکٹ سے زیادہ‘ سیاست کا بھی میں ہی چیمپئن ہوں‘ بائیس سال کی میری جدوجہد ہے، وغیرہ وغیرہ۔ اپنی ہر تقریرمیں کچھ مخصوص نکات اتنی مرتبہ دہرائے کہ بچے بچے کو ازبر ہو گئے اور نہ چاہتے ہوئے بھی لوگوں کو یقین ہونے لگا کہ ہو نہ ہو‘ یہی ہے وہ حکمران ہے ‘ سرزمینِ پاکستان کو جس کا انتظار ہے۔جو آئے گا تو چمن میں بہار آ جائے گی‘ کھیل کے میدان دوبارہ آباد ہوں گے‘معیشت آسمان کو چھونے لگے گی‘کرپشن کا نام و نشان تک مٹ جائے گا‘ اقربا پروری جڑ سے اکھاڑ دی جائے گی‘ میرٹ کو فوقیت دی جائے گی‘ ہر طرف انصاف کا بول بالا ہو گا‘ بیرونِ ملک سے ڈالروں کی بارش ہونے لگے گی‘خان صاحب کینیڈین وزیراعظم کی طرح سائیکل پر دفتر جایا کریں گے‘خدانخواستہ کوئی حادثہ ہو گا تو وہ سب سے پہلے خود کو احتساب کیلئے پیش کریں گے جیسا کہ وہ اقتدار میں آنے سے قبل کہا کرتے تھے کہ فلاں ملک میں کشی ڈوب گئی تو وزیراعظم نے استعفیٰ دے دیا لیکن اقتدار میں آنے کے بعد انہیں بھی کچھ یاد نہ رہا‘ وہ یہ تک بھول گئے کہ حکومت میں آنے سے قبل وہ احتجاج کو جمہوری حق کہتے تھے۔ ان کے دور میں اساتذہ یا کسی اور طبقے نے اپنے حقوق کیلئے اسلام آباد ‘لاہور یا خیبرپختونخوا میں احتجاج کی کوشش کی تو ان پر شیل برسائے گئے‘لاٹھی چارج کیا گیا اور یہ سب ایک ایسے شخص کی وزارتِ عظمیٰ کے دور میں ہوا جو خود ایک سو چھبیس دن تک اسلام آبادمیں دھرنا دے کر بیٹھا رہا‘ اسی دھرنے کے دوران پی ٹی وی کی عمارت پر حملہ کیا گیا‘ سپریم کورٹ کی عمارت کے باہر کپڑے دھو کر لٹکائے گئے لیکن اپنے دورِ حکو مت میں اپنے جائز حقوق کیلئے احتجاج کی اجازت تک نہ دی گئی۔غرور و تکبر کے ساتھ جو نفرت کی گانٹھیں ان چار برسوں میں اپنے ہاتھ سے باندھی گئی تھیں‘ اب انہیں دانتوں سے کھولنے کا وقت آ چکا ہے۔