ویسے تو آج تک کوئی دور ایسا نہیں رہا ہو گا کہ جس میں کسی حکمران جماعت نے بجٹ پیش کیا ہو اور اسے اپوزیشن نے سراہا ہو اور اس پر تنقید نہ کی ہو لیکن حالیہ وفاقی بجٹ‘ جسے وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے پیش کیا ہے‘ اس بجٹ کے خلاف اپوزیشن کے پاس تنقید کرنے کے لیے کچھ خاص مواد نہیں تھا حالانکہ یہ بجٹ ایک ایسے وقت میں اور ایسے حالات میں پیش کیا گیا جن میں متوازن بجٹ بنانا آسان کام نہیں تھا کیونکہ ایک طرف عوام کو مہنگائی کے طوفان کا سامنا ہے‘ دوسری طرف انہیں ریلیف بھی پہنچانا مقصود ہے۔ سابق حکومت جس طرح کے حالات چھوڑ کر گئی تھی‘ جس طرح آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ کر کے اس پر عمل نہیں کیا گیا اور اس کا نقصان معیشت اور عوام کو بھگتنا پڑا‘ ایسے میں کسی چمتکار کی توقع کرنا بے سود تھا۔ معیشت کو زیادہ سے زیادہ ٹیکسوں اور بیرونی زرمبادلہ کی ضرورت ہے لیکن مزید ٹیکس دینے کے لیے عوام کی پسلی ہے نہ ہی عالمی حالات اتنے موافق ہیں کہ بیرونی ترسیلاتِ زر میں یکدم غیرمعمولی اضافہ ہو جائے‘ یہ سب زمینی حقائق سے میل نہیں کھاتا۔ڈالر کی قدر میں اضافے کی وجہ سے پاکستان پر قرضوں کا جو اضافی بوجھ پڑا ہے‘ اس سے کسی چھو منتر کے ذریعے تو نجات مل نہیں سکتی‘ اس کے لیے طویل مدتی منصوبہ بندی درکار ہے۔ مسلم لیگ (ن) کو اکثر یہ کریڈٹ دیا جاتا ہے کہ اس کے دور میں نہ صرف بڑے منصوبے شروع ہوئے بلکہ دس اور بیس سال کے طویل مدتی منصوبے بھی شروع کیے گئے۔
پاکستان نے 1998ء میں جب ایٹمی دھماکے کیے تو اس وقت نواز شریف وزیراعظم تھے اور احسن اقبال نے ''وژن 2010ء‘‘ نامی ایک پروجیکٹ پر کام شروع کیا جس کے تحت پاکستان کو معاشی اعتبار سے مضبوط بنانا اور متعلقہ اہداف کا حصول تھا۔ دیکھا جائے تو دنیا کی تمام قوتیں یا ممالک جو ترقی پذیر سے ترقی یافتہ معاشرے میں تبدیل ہوئے‘ انہوں نے بیس‘ تیس اور پچاس سال کی پلاننگ کی اور آہستہ آہستہ اپنے اہداف کو حاصل کرتے گئے۔ کئی ممالک تو ایک سو سال کی پلاننگ بھی کر رہے ہیں جبکہ ہمارے ہاں ہمیشہ قلیل مدتی منصوبہ بندی ہی کی جاتی رہی ہے۔ معاشی پلاننگ اگر بروقت کر لی جائے تو وسائل کے ضیاع کو بچانے کیساتھ ساتھ متباد ل ذرائع بھی کھڑے کیے جا سکتے ہیں۔
آج سے دس‘ بیس برس قبل ملک میں گیس کے ذخائراتنے تھے کہ گیس کی قیمتیں بھی کم تھیں اور گیس کی لوڈشیڈنگ کا نام و نشان تک نہ تھاآج مگر حالات بدل چکے ہیں۔ فیکٹریوں اور گھروں کو گیس کی سپلائی مسلسل فراہم کرنا ممکن نہیں رہا اور بمشکل کھانے کے اوقات میں ہی گیس دی جاتی ہے۔ دیگر قدرتی وسائل کا بھی یہی حال ہے۔ زیرزمین پانی کی سطح ہر سال گرتی جا رہی ہے اور کئی جگہوں پر سات‘ سات سو فٹ نیچے جا کر ہی صاف پانی حاصل ہو پاتا ہے۔ آبادی کو دیکھیں تو اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کی آبادی میں سالانہ 1.9 فیصد کے حساب سے اضافہ ہو رہا ہے۔یعنی پاکستان دنیا کے ان آٹھ ممالک میں شامل ہو گیا ہے جن کا 2050ء تک دنیا کی بڑھنے والی آبادی میں پچاس فیصد حصہ ہو گا۔ آبادی اور وسائل اگر تناسب میں رہیں گے تو ہی لوگوں کو ان کے حقوق حاصل ہوں گے۔
پاکستان جیسے ممالک کا مسئلہ یہ ہے کہ اگر یہ آئی ایم ایف کا پروگرام لیتے ہیں تو پھر اس کی کڑی شرائط پر عمل کرنا بھی لازم ہوتا ہے۔ حالیہ بجٹ میں حکومت نے کئی ایسے اقدامات کیے ہیں جو عوام کے تو براہ راست مفاد میں ہیں لیکن ممکن ہے آئی ایم ایف ان سے مطمئن نہ ہو جیسے کہ تنخواہوں میں تیس سے پینتیس فیصد تک اضافہ‘ اسی طرح پٹرولیم لیوی کو ساٹھ روپے کرنے کی خبریں بھی سامنے آ رہی ہیں‘ ایسے میں حکمران کوئی بھی ہو اس کے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے کہ وہ کس کا ساتھ دے۔ بعض اوقات ایسے حالات میں مشکل فیصلے کرنا پڑتے ہیں جو بظاہر خاصے کڑوے کسیلے ہوتے ہیں لیکن لانگ ٹرم میں بہرحال نتیجہ خیز ثابت ہوتے ہیں۔ ویسے بھی ایک ایسا ملک جو کورونا او ر اس کے فوری بعد سیلاب کی زبردست تباہی کا شکار رہا ہو‘ وہاں پر بجٹ خسارے کا بڑھنا کوئی غیرمعمولی امر نہیں اور وہ بھی ایسے وقت میں جب ملک سیاسی بحرانوں سے بھی نبرد آزما ہو اور ملک کو جان بوجھ کر انتشار و اضطراب میں مبتلا رکھ کر اپنے مذموم عزائم پورے کیے جا رہے ہوں۔ تاحال یہ سلسلہ تھما نہیں ہے۔
تحریک انصاف پاکستانی حکومت پر دباؤ ڈالنے کے لیے بیرونی مدد اور ذرائع کے حصول کی مسلسل تگ و دو کر رہی ہے۔عالمی سطح پر سیاسی مدد حاصل کرنے کے لیے یہ جماعت‘ جو کہتی تھی ہم ملک میں غیرملکی مداخلت برداشت نہیں کریں گے‘ ہر غیر ملکی سفارتخانے کے دروازے پر دستک دے رہی ہے ۔ ویسے تو اس جماعت اور اس کے چیئرمین کے پاس کبھی بھی اپنے الزامات کا ثبوت نہیں ہوتا اور ہمیشہ عدالتوں میں جا کر یہی کہاجاتا ہے کہ ہم نے فلاں شخص سے سن کر یہ بات آگے کہہ دی تھی لیکن اب تو یہ سلسلہ مزید سنگین ہو چکا ہے اور ملک کو ایک ناکام ریاست کے طور پر پیش کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ یہ بیانیہ بھی بنایا جارہا ہے کہ اگر اس پارٹی کی قیادت کو نااہل کیا گیا تو ملک چلانا مشکل ہو جائے گا اور سب کچھ تباہ و برباد ہو جائے گا۔ یہ شاید اپنے دورِ حکومت کو بھول گئے ہیں کہ جب ان سے ایسے ہی سوالات کرنے والوں کے ساتھ تضحیک آمیز سلوک کیا جاتا تھا۔ تب بھی ڈالر کا ریٹ مسلسل بڑھ رہا تھا‘ پٹرول مہنگا ہو رہا تھا‘ کرپشن کے نت نئے قصے سامنے آ رہے تھے لیکن جواب صرف ایک آتا تھا کہ آپ نے گھبرانا نہیں ہے، اور یہ عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف تھا۔
مسئلہ یہ ہے کہ تحریک انصاف اپنا بیانیہ وقت کے حساب سے تبدیل کرتی رہتی ہے‘ اس لیے کوئی بھی اسے ملک میں یا بیرونِ ملک سنجیدہ لینے کو تیار نہیں۔ حالیہ بجٹ کے خلاف بھی یہ جماعت سوشل میڈیا پر منفی مہم چلا رہی ہے اور دعوے کر رہی ہے کہ اگر وہ برسر اقتدار ہوتی تو فلاں فلاں اقدام کرتی‘ جس سے معیشت بہتر ہوتی اور عوام کو ریلیف ملتا، حالانکہ اسے جو وقت ملا تھا‘ وہ اس نے اٹھکھیلیوں میں ضائع کر دیا۔ وہ لوگ جنہیں سہاروں کی مدد سے حکومت دلائی گئی تھی اور جنہیں خود بھی یقین نہیں تھا کہ وہ اس سیٹ پر کبھی بیٹھ سکیں گے‘ حکومت میں آ کر ان سے کسی بھی قسم کی سنجیدگی کی توقع کیسے کی جا سکتی تھی۔ ان حالات میں ان لوگوں سے یہ توقع وابستہ کرنا کہ یہ عالمی معاشی انڈیکیٹرز اور ملکی مسائل کو حقیقت کی آنکھ سے دیکھ رہے ہیں‘ عبث ہے۔ انہیں موجودہ حکمرانوں سے حساب بعد میں مانگنا چاہیے‘ پہلے اپنے دور کا حساب دینا چاہیے کہ اپنے ساڑھے تین برس کے دورِ اقتدار میں انہوں نے کیا کیا؟کیا اس وقت سبھی معاشی اشاریے مثبت تھے، کیا اس جماعت کو ملک جس حالت میں ملا تھا‘ اس نے اس سے بہتر مقام پر چھوڑا ہے؟ جب آپ نے حکومت سنبھالی‘ اس وقت ڈالر کا کیا ریٹ تھا اور جب حکومت چھوڑی‘ ڈالر کہاں پہنچ چکا تھا؟ ڈالر پر ہی بس نہیں‘ ادویات، پٹرول، چینی، آٹا، بجلی اور گیس‘ غرض کوئی شے ایسی نہیں تھی جس کی قیمت میں دو‘ تین گنا تک اضافہ نہ ہوا ہو۔ پھر حکومت ختم ہونے کے بعد بھی چین سے نہیں بیٹھے اور کبھی لانگ مارچ اور کبھی احتجاج اور پھر آخرِ کار سانحہ نو مئی۔پہلے آپ ان سوالات کے جواب دیں‘ پھر حکومت کی پالیسیوں کو نشانہ بنائیے گا۔
یہ درست ہے کہ اس وقت ملکی معیشت ہچکولے کھا رہی ہے‘ حالات مشکل ہیں لیکن جلد یا بدیر یہ ملک اس مشکل سے نکل آئے گا لیکن ان حالات میں بھی ملک کے امیج پر کیچڑ اچھالنے والوں اور عالمی سطح پر اس کو بدنام کرنے والوں اور ان کے ماسٹر مائنڈز کو کوئی معافی نہیں ملنی چاہیے کیونکہ جو اس وطن سے وفا نہیں کر سکتا‘ جو اپنے قومی اداروں اور شہیدوں کی یادگاروں تک کا لحاظ نہیں کرتا‘وہ کسی کا بھی وفادار نہیں ہو سکتا۔