ایک طرف تو ہم پانی کی کمی کا رونا روتے ہیں‘ دوسری جانب پانی کو جی بھر کے ضائع بھی کرتے ہیں اور اگر بارش کی شکل میں مفت میں پانی ملتا ہے تو اسے جمع کرنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے۔ گزشتہ برس پورے ملک میں طوفانی بارشیں برسیں جس کے نتیجے میں سیلابوں نے جی بی سے کے پی اور جنوبی پنچاب سے بلوچستان اور سندھ تک تباہی مچا دی اور اس سال بھی بارشیں غیرمعمولی انداز میں برس رہی ہیں مگر نہ پچھلے سال ہم نے کچھ سیکھا نہ اب ہی سیکھیں گے۔ بارش کو رحمت تصور کیا جاتا ہے مگر ہمار ے ہاں چند گھنٹوں کی بارشیں بھی تباہی مچا دیتی ہیں۔ بارش کے پانی کو کس طرح زحمت سے رحمت بنایا جا سکتا ہے‘ اس پر سوچ بچار کا زیادہ وقت اب بچا نہیں کیونکہ عالمی موسمیاتی تبدیلیاں اس قدر تیزی کے ساتھ رونما ہو رہی ہیں کہ ہنگامی اقدامات اور منصوبہ بندی کے ساتھ ہی ان کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ مزید سستی کی اب گنجائش نہیں ہے کیونکہ عالمی موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ نہ کرنے والے ممالک کو سنگین خطرات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک وسائل کے لحاظ سے پہلے ہی شکستہ حال ہیں لہٰذا انہیں ان مسائل کا زیادہ ادراک ہونا چاہیے کہ ان کے پاس غلطی کی گنجاش نہیں ہے اور ان کی معیشت بھی ایسے مسائل پر کوئی اضافی اخراجات اداکرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔
پانی زندگی کا اہم ترین جُز ہے۔ اس کے بغیر زندگی کا وجود اور تسلسل ممکن نہیں۔ جہاں تک پانی کے استعمال کی بات ہے تو دنیا میں شاید ہم ان چند قوموں میں شامل ہیں جو قدرت کے وسائل اور نعمتوں کو جی بھر کے ضائع کرتی ہیں۔ ملک کے بے شمار علاقے ہیں جہاں صاف پانی تو کیا میسر آنا‘ عام استعمال کے لیے کھارا پانی بھی کئی کئی میل دور سے لانا پڑتا ہے۔ ہمیں چونکہ ایسا نہیں کرنا پڑتا‘ اس لیے پانی کی اہمیت کا احساس بھی نہیں ہو پاتا۔ بالفرض ہمیں کہا جائے کہ ہمیں پانی نل سے میسر نہیں آئے گا بلکہ ہر روز دو خالی بالٹیاں اٹھائیں اور دو کلومیٹر دور پیدل چل کر کسی نلکے یا چشمے سے انہیں بھر کر لائیں تو سوچیے ہمارا کیا حال ہو گا۔ اول تو ہم اس طرزِ زندگی پر آمادہ ہی نہیں ہوں گے، اگر مجبوراً ایسا کریں گے بھی اور کسی طرح گرتے پڑتے دو بالٹیاں پانی کی بھر کر لے آئیں گے تو کیا اس پانی کو یونہی استعمال کریں گے کہ جیسا سلوک ہم گھریلو نل کے پانی کے ساتھ کرتے ہیں؟ ہم چونکہ شہروں میں رہتے ہیں جہاں پانی بہ آسانی مل جاتا ہے۔ صبح اٹھتے ہیں‘ باتھ روم کا نلکا کھول کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ سر کے بالوں اور چہرے کا جائزہ لیتے ہیں۔ کوئی سفید بال نظر آ جائے تو غور سے اسے دیکھنے لگتے ہیں، اس دوران نل بھی چلتا رہتا ہے۔ شاید ہمیں پانی کی شکل میں بیک گرائونڈ میوزک درکار ہوتا ہے جو ہم اسے بند نہیں کرنا چاہتے۔ پھر ہم ٹوتھ برش اٹھاتے ہیں اس پر پیسٹ لگاتے ہیں۔ اس دوران بھی پانی بہتا رہتا ہے۔ پھر دو‘ چار منٹ پیسٹ کرتے ہیں۔ ساتھ ساتھ کلی کرتے جاتے ہیں۔ نل مسلسل چلتا رہتا ہے۔ پھر شیونگ فوم کی بوتل اٹھاتے ہیں اور چہرے پر لگانا شروع کر دیتے ہیں‘ اس دوران بھی پانی بہتا رہتا ہے۔ پھر شیو شروع ہو جاتی ہے اور اگلے پانچ‘ سات منٹ تک بھی نلکا بند نہیں کیا جاتا۔ نہانے کا مرحلہ آتا ہے تو واش بیسن کا نلکا تو بند ہو جاتا ہے مگر پھر شاور کی شامت آ جاتی ہے۔ اس کے نیچے بیٹھ کر کشور اور لتا کے پرانے گانے گنگنائے جاتے ہیں‘ پانی چلتا رہتا ہے۔ پھر شیمپو لگایا جاتا ہے اور دو منٹ کے لیے بندہ خود سائیڈ پر ہو جاتا ہے تاکہ شیمپو اثر کر جائے لیکن مجال ہے کہ شاور کو بند کیا جائے۔ اسی دوران جسم پر صابن لگانے اور دیگر مراحل طے کرنے کے دوران بھی پانی کی پھوار نہیں رُکتی اور یوں آدھے گھنٹے میں چالیس‘ پچاس گیلن پانی ہماری کوتاہ اندیشی اور دماغ کے بند دریچوں کی وجہ سے ضائع ہو جاتا ہے۔ آدھے گھنٹے کے دوران بہنے والے اس پانی کو احتیاط سے استعمال کیا جائے تو اتنے پانی سے پانچ سے چھ افراد نہا سکتے ہیں۔
لوگوں کے رہن سہن‘ اندازِ زندگی اور لاپروائی کو دیکھا جائے تو ایک شخص اس وقت ضرورت سے پانچ‘ چھ گنا زیادہ پانی استعمال کر رہا بلکہ ضائع کر رہا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ تھوڑے پانی سے انسان کی ضرورت تو پوری ہو جاتی ہے لیکن دل نہیں بھرتا اور ہوس نہیں پوری ہوتی۔ یہ رہن سہن اور چال چلن ایسے ہی رہا تو آنے والی بلکہ موجودہ نسلوں کے لیے بھی ایسا ماحول بن جائے گا جس میں لوگ ایک ایک بوند کو ترسیں گے اور اس وقت کو یاد کریں گے جب وہ پانی کے ساتھ دل لگی کیا کرتے تھے۔ ویسے وہ وقت اب زیادہ دور دکھائی نہیں دیتا کہ اب شہروں میں بھی پینے کا صاف پانی تو دور کی بات‘ عام استعمال کا پانی بھی غائب رہنے لگا ہے۔ اس کی ایک وجہ بجلی کا بار بار جانا بھی ہے اور دوسری وجہ پانی کا بے جا استعمال ہے۔ ہر بندہ جی بھر کے پانی ضائع کرنا اپنا پیدائشی حق سمجھتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ پانی تو گھر کی کھیتی ہے‘ اسے حاصل کرنے میں کون سا زور لگتا ہے، بس نلکے کا کان ہی تو مروڑنا ہے۔ 1951ء میں پاکستان میں ہر شہری کو سالانہ 5 ہزار مکعب میٹر سے زائد پانی میسر تھا جبکہ آج یہ شرح خطرناک حد تک کم ہو کر ایک ہزار مکعب میٹر سے بھی نیچے جا چکی ہے۔ ایک طرف ملکی آبی ذخائر تیزی سے ختم ہو رہے ہیں، زیرِ زمین پانی کی سطح مسلسل نیچے جاتی جا رہی ہے اور دوسری طرف بارشوں کے اتار چڑھائو کی وجہ سے کبھی سیلاب تو کبھی خشک سالی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
کئی لوگ یہ سوچ کر بھی پانی خوب بلکہ بے جا استعمال کرتے ہیں کہ ہم نے پانی کا بل خود دینا ہے۔ بندہ پوچھے اگر دو‘ تین ہزار روپے بل دے بھی دیا ہے تو کیا زمین کا سارا پانی خرید لیا ہے۔ ذرا سوچیں اگر ہمیں بجلی بھی پانی کی طرح ملا کرے اور صرف دو‘ تین ہزار ماہانہ دینا پڑیں تو ہم بجلی کے ساتھ کیا کریں گے۔ ہم جان بوجھ کر دن میں بھی ساری لائٹس آن رکھیں گے کہ ہم دو ہزار روپے بل دیتے ہیں۔ اب سوچیں کہ ماضی کی طرح پانی کا بل بھی استعمال کے حساب سے آئے تو ہمارا کیا بنے گا۔ یعنی پانی کا میٹر! اس ملک میں ننانوے فیصد صارفین کو میٹر کے بغیر ماہانہ فکسڈ بل آتا ہے۔ اگر فی یونٹ کے حساب سے بل ملنے لگیں تو ہم جس طرح بجلی پھونک پھونک کر استعمال کرتے ہیں‘ اسی طرح نل کو بھی سوچ سمجھ کر ہی کھولا کریں اور جو تباہی ہم اس وقت پانی کی پھیر رہے ہیں اور جس طرح گاڑیاں اور فرش دھونے میں اس قیمتی نعمت کو ضائع کر رہے ہیں‘ یہ سارا سلسلہ بند ہو جائے۔ تب ہم حکومتوں اور سیاست دانوں کے خلاف بولنا شروع کر دیں گے کہ یہ سارا کیا دھرا ان کا ہے اور عوام سے اب پانی بھی چھین لیا گیا ہے۔
بحیثیت شہری ہم نے کس طرح رہنا ہے اس کی ہمیں قطعاً کوئی پروا نہیں۔ یہاں ڈبل کیبن والا گاڑی کو‘ گاڑی والا بائیک کو‘ بائیک والا سائیکل کو اور سائیکل والا پیدل شخص کو روندکر آگے نکلنا چاہتا ہے۔ ہر کسی نے اپنی سلطنت اور اپنے نوگو ایریاز بنائے ہوئے ہیں۔ ہر کسی کے اپنے اصول اور اپنے قواعد و ضوابط ہیں اور ہر کوئی اپنی مرضی سے زندگی جینا چاہتا ہے۔ ساتھ والے گھر میں مریض ہیں یا آدھی رات کا وقت ہے‘ ہمسائے کو پروا نہیں‘ اس کے گھر شادی ہے یا کوئی اور فنکشن ہے تو وہ ہمسایوں کے آرام سے زیادہ ضروری ہے اور یہی سوچا جاتا ہے کہ شادی تو ایک ہی بار ہونی ہے‘ اگر ساتھ والا ہمسایہ ایک رات نہ بھی سوئے گا تو کیا فرق پڑے گا۔ ہر کوئی دوسروں کی خوشیوں اور سکون کو روند کر خوش رہنا چاہتا ہے۔ ایسے لوگ بھی ہیں جنہیں دوسروں کو اذیت میں دیکھ کر خوشی ملتی ہے۔ ان کی خوشی اسی میں ہے کہ دوسرے کا گھر برباد ہو جائے‘ اس کا کوئی معاشی نقصان ہو جائے اور اس کا دل ٹھنڈا ہو جائے۔ وہ خود بنے نہ بنے‘ اس کے حالات سنوریں نہ سنوریں‘ دوسرے کی کشتی اس کی زندگی میں‘ اس کی آنکھوں کے سامنے ضرور ڈوبنی چاہیے۔ ایسی سوچ رکھنے والے معاشرے میں پانی ضائع کرنا کون سی بڑی بات ہے‘ اس سے کون سا کوئی بڑا مسئلہ پیدا ہو جائے گا۔