جس دن ہم نے اس ملک کو اپنے گھر کی طرح سمجھنا شروع کر دیا‘ اس کے دن پھر جائیں گے۔ مسئلہ صرف اتنا سا ہے کہ جو شخص جس گھر میں رہتا ہے‘ اس کی قدر جانتا ہے‘ اسے نعمت سمجھتا ہے‘ اسے صاف رکھتا ہے‘ اس میں خود کو محفوظ خیال کرتا ہے اور دل و جان سے اس کی حفاظت بھی کرتا ہے۔ وہ شخص اگر یہی سلوک اور رویہ اپنے ملک‘ مادرِ وطن کیساتھ بھی رکھے‘ اسے بھی اپنا گھر سمجھے‘ اسے بھی صاف رکھے‘ اس میں بسنے والے لوگوں کا بھی خیال کرے‘ اسے نقصان پہنچانے والوں کو اپنا دشمن سمجھے اور جیسے گھر کا ماحول بہتر بنانے کیلئے جتن کیے جاتے ہیں‘ ملک کو بھی بہتر سے بہترین بنانے کیلئے اپنی استعداد کے مطابق کاوشیں کرے تو پھر یہ نہیں ہو سکتا کہ ملک نہ بدلے‘ اسکے حالات نہ بدلیں اور اسکے عشروں سے چلے آ رہے مسائل حل نہ ہو سکیں۔ ہم میں سے اکثر اپنے گھر‘ اپنی گلی‘ اپنی گاڑی‘ اپنے دفتر‘ اپنے لان کی حدود ہی کو اپنا سمجھتے ہیں اور جیسے ہی کسی دوسرے کے گھر جاتے ہیں‘ کسی دوسری گلی سے گزرتے ہیں‘ کسی اور سڑک پر جاتے ہیں ہمارا چلن بدل جاتا ہے‘ اپنے گھر کے سامنے ہم کچرا نہیں پھینکیں گے‘ لیکن ہمسائے کے گھر کے سامنے پھینکنے میں عار محسوس نہیں کریں گے۔ موٹروے پر قانون کی پابندی کرتے ہوئے گاڑی چلائیں گے لیکن موٹروے سے اترتے ہی لین اور لائن کی پابندی ہوا میں اڑا دیں گے۔ اپنی گاڑی کے اندر چپس کے ریپر اور خالی بوتلیں نہیں پھینکیں گے لیکن گاڑی کے شیشے سے سب کچرا باہر یوں اچھال دیں گے جیسے کچرا کنڈی سے گزر رہے ہوں۔ کتنی عجیب بات ہے کہ ہم شاہراہوں کو استعمال تو کرتے ہیں لیکن انہیں اپنا وطن شمار نہیں کرتے‘ انہیں اپنے گھر کی طرح صاف نہیں رکھتے۔ وہاں پر مہذب انسانوں والا رویہ اختیار نہیں کرتے۔ یہ کیسا رویہ ہے‘ یہ کیسا چلن ہے‘ جو ہمارے اندر سے جانے کا نام ہی نہیں لیتا؟
یہی ہم ہوتے ہیں کہ جیسے ہی کسی دوسرے ملک‘ کسی یورپی یا خلیجی ملک کے ایئرپورٹ پر اترتے ہیں تو نہ کسی سڑک پر کچرا پھینکتے ہیں‘ نہ اشارہ کاٹتے ہیں‘ نہ غلط پارکنگ کرتے ہیں اور نہ ہی کوئی اور قانون شکنی کرتے ہیں حالانکہ وہاں کوئی دیکھ بھی نہیں رہا ہوتا مگر اس کے باوجود ہم قانون پر عمل کرتے ہیں لیکن اپنے ملک میں سارجنٹ یا وارڈن کھڑا بھی ہو تو اس کی آنکھیں ہٹنے کا انتظار کرتے ہیں اور موقع پا کر اشارہ توڑ دیتے ہیں۔ یہ ہمارے وہ رویے ہیں جو بدقسمتی سے اس ملک کی پہچان بن چکے ہیں۔ کسی یورپی یا غیر ملکی فرد کو پاکستان آنا ہو تو اسے پہلے سے بتا دیا جاتا ہے کہ یہاں تمہیں کیسے لوگوں سے واسطہ پڑے گا‘ یہاں عوام کس طرح گاڑی چلاتے ہیں‘ کس طرح کی صفائی رکھتے ہیں‘ یہ کتنے فرقوں‘ گروپوں اور گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ یوں ہمارے اور ہمارے وطن کے بارے میں انکی ایک رائے بن جاتی ہے اور یہی رائے آگے چل کر بڑے منصوبوں اور بڑی سرمایہ کاری کی راہ میں رکاوٹ بن جاتی ہے۔ جب انہیں علم ہوتا ہے کہ یہاں عام لوگ بھی چھوٹے موٹے قانون توڑنے کو اپنا حق سمجھتے ہیں اور طاقتور لوگ بڑے قوانین کا شکنجہ بھی رشوت اور سفارش سے ڈھیلا کر لیتے ہیں تو پھر انکی ہمارے بارے میں رائے اور فیصلہ یکسر تبدیل ہو جاتے ہیں۔ پھر وہ کسی ایسے ملک میں جانا‘ بسنا پسند کرتے ہیں اور کسی ایسی جگہ پر پیسہ لگانے کی کوشش کرتے ہیں جہاں کے عوام اپنے وطن سے پیار کرتے ہوں اور اپنے مادرِ وطن کے ساتھ اپنے گھر کی طرح ٹریٹ کرتے ہوں۔
کسی بھی ملک کے عوام‘ معاشرہ اور رہن سہن اس کی سوچ اور فکر کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ ضروری نہیں کہ ہر کوئی بڑے بڑے چھکے مارے تبھی کوئی تبدیلی آئے۔ چھوٹی چھوٹی عادات سے بھی بہت بڑا فرق جنم لے سکتا ہے جو لوگوں کو تبدیلی پر مائل کرتا ہے۔ جس طرح ہمارے ملک کے کھانے مشہور ہیں‘ اسی طرح اگر ہمارے ملک کے عوام اپنی سماجی عادات کو بہتر بنا لیں جیسا کہ وقت کی پابندی‘ نظم و ضبط‘ اخلاقیات‘ قانون کی عمل داری تو اس کے انتہائی مختلف اور یقینا مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ صرف مخالف سیاستدانوں کو برا بھلا کہنے سے حالات بدلیں گے نہ انہیں کوئی فرق پڑے گا جنہیں آپ نشانہ بنا رہے ہیں۔ یہ ٹھیک ہے کہ ریاست کے پاس طاقت ہوتی ہے لیکن اسے یہ طاقت عوام ہی دیتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ عوام صرف ووٹ کی حد تک خود کو ذمہ دارسمجھتے ہیں اور اس کے بعد سیاستدان حکمران بن کر جو مرضی کرتے پھریں۔
اس ملک کے قیام کو 76 برس بیت گئے ہیں لیکن ہم آج بھی اپنے چھوٹے چھوٹے مسئلوں کو حل نہیں کر سکے۔ یہ ملک ہمیں کیسے ملا‘ یہ بھی ہمیں یاد نہیں۔ یاد ہوتا تو اس کے ساتھ ایسا سلوک روا نہ رکھتے۔ 1947ء میں جو لوگ ہجرت کر کے پاکستان آئے تھے‘ وہی اس کی اہمیت و قدر سے واقف ہیں۔ انہوں نے اپنے بچوں‘ عورتوں‘ بوڑھوں‘ جوانوں غرض اپنے پیاروں کی لاشوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا‘ کیا یہ جانیں‘ یہ قربانیاں رائیگاں چلی جائیں گی؟ کیا ہم ان کی قربانیوں کا یہ صلہ دیں گے کہ ہم اس ملک کو‘ جو ہمیں ہمارے بڑوں کی جانی قربانیوں کے عوض ہمیں ملا‘ ہم اسے ٹھیک طرح سے سنبھالنے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتے؟ ہمارے ساتھ اور بعد میں آزاد ہونے والے ملک کہاں سے کہاں پہنچ گئے ہیں اور ہم ابھی تک اپنا بنیادی حلیہ ہی درست نہیں کر سکے۔ اگلے روز ایک اور یومِ آزادی ہم نے منایا۔ انتہائی جوش و ولولے کے ساتھ لوگ باہر نکلے‘ اپنے سبز ہلالی پرچم کو اٹھائے! کیا بچے اور کیا بڑے‘ سبھی عقیدت اور فخر کا اظہار کرتے دکھائی دیے۔ یہ جذبہ قابلِ ستائش مگر ہمیں اس موقع پر یہ عہد بھی کرنا ہے کہ ہم نے اگلے سال جب دوبارہ یوم آزادی منانا ہے تو اس ایک سال میں اس ملک کی بہتری کیلئے بھی کچھ کرنا ہے۔ قائد اور اقبال کے جو افکار تھے‘ جو خواب انہوں نے دیکھے تھے ان کی تعبیر حاصل کرنی ہے۔ پاکستان حاصل کرنے کا مقصد صرف ایک زمین کے ٹکڑے کا حصول نہ تھا بلکہ ایسی سرزمین تھی جہاں عوام ایک جدید اسلامی اور فلاحی ریاست میں خوشحال زندگی گزار سکیں‘ دیگر قوموں کے شانہ بشانہ ترقی کر سکیں اور ہمیشہ اپنا نام اور وقار بلند رکھیں۔ پاکستان کے پاس کیا نہیں ہے؟ ہر طرح کا موسم‘ ہر طرح کے قدرتی وسائل‘ وسیع رقبہ‘ زرخیز زمین‘ بلند و بالا پہاڑ‘ دریا‘ سمندر‘ بہترین افرادی قوت‘ بہترین محل وقوع۔ یقین کریں یہ نعمتیں ہر ملک کے پاس موجود نہیں۔ بہت سے ممالک چٹیل میدانوں یا لق و دق صحرا پر مشتمل ہیں لیکن انہوں نے وژن اور جدت کے ذریعے اپنا منفرد مقام بنایا۔ ہر ملک کو مختلف چیلنجز درپیش ہوتے ہیں لیکن مربوط پلاننگ کے ساتھ تمام مسائل حل کیے جا سکتے ہیں۔ پاکستان کو بھی اگر چیلنجز درپیش ہیں تو ہمیں سب سے پہلے اپنے دستیاب وسائل کو دیکھنا ہے۔ ملک کی آبادی اگر پچیس کروڑ ہو چکی ہے تو اس میں تیرہ‘ چودہ کروڑ نوجوان ہیں جن کی عمریں تیس برس سے بھی کم ہیں۔ یہ نوجوان افرادی قوت ہیرے جواہرات یا تیل کی دولت سے زیادہ قیمتی اثاثہ ہے۔ جاپان سمیت دنیا کے کئی ممالک میں نوجوانوں کی شرح محض دس‘ بیس فیصد ہے اور یہ ممالک دیگر ملکوں سے نوجوانوں کو بلا کر اپنی کمی پوری کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ہمارے نوجوانوں کو علم و ہنر کی ضرورت ہے تاکہ وہ دنیا کے ساتھ چل سکیں۔ انہیں کھیل کے میدانوں کی ضرورت ہے تاکہ ان کی جسمانی و دماغی صحت کو پروان چڑھا سکیں‘ انہیں ایسے لیڈرز کی ضرورت ہے جو انہیں اپنے سیاسی مقاصد کیلئے نہیں بلکہ عالمی ترقی کی دوڑ میں شامل کرنے کیلئے رہنمائی کر سکیں اور یہ تبھی ہو گا جب ہر شخص اپنے اپنے دائرے میں بہترین کارکردگی‘ ڈسپلن اور اخلاقیات کا مظاہرہ کرے۔ سیاستدان اور ادارے بھی ملک کی سلامتی‘ خوشحالی اور دفاع کیلئے ایک دوسرے کے قدم سے قدم ملا لیں‘ کدورتیں ختم کر دیں اور ذاتیات کے بجائے ملک کی اجتماعی ترقی کیلئے کام کریں‘ تبھی یہ ملک خوشحال بھی ہو گا اور مسائل کے گرداب سے باہر بھی نکل سکے گا۔