وقت کے ساتھ ساتھ مسلم ممالک اتنے کمزور ہو چکے ہیں کہ اسرائیل کے مظالم کے خلاف احتجاج کے لیے ان کی آواز بھی ٹھیک طرح سے نہیں نکل رہی اور ان ممالک کے جو عوام اپنا احتجاج کسی سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو انہیں یا تو اس سوشل میڈیا پلیٹ فارم سے وارننگ ملتی ہے یا پھر سیدھا اکائونٹ ہی بلاک کر دیا جاتا ہے۔
سات اکتوبرکو حماس اور اسرائیل کے مابین جنگ شروع ہوئی لیکن مسلم ممالک کو اکٹھے ہوتے ہوتے بھی پندرہ دن لگ گئے۔ جب مصر میں امن کانفرنس کا انعقاد کیا گیا اس وقت تک اسرائیل پانچ ہزار فلسطینیوں کو شہید اور دس ہزار سے زائد کو زخمی کر چکا تھا۔ یہ اعداد و شمار وہ ہیں جن کی لاشیں سالم یا ٹکڑوں کی صورت میں مل جاتی ہیں۔ وہ جو ملبے تلے دبے ہوئے ہیں‘ ان کی حقیقی تعداد کے بارے میں کوئی نہیں جانتا۔ صرف اندازے سے کام چلایا جا رہا ہے۔ آج مسلم ممالک کی حالت یہ ہو چکی کہ وہ نہ تو امریکہ جیسے ممالک سے لڑ سکتے ہیں اور نہ ہی ان سے دوستی کے قابل ہیں کیونکہ دوستی ہمیشہ برابر والے سے کی جاتی ہے جبکہ مسلم ممالک کی غالب اکثریت کے پاس سر اٹھا کر چلنے کو کچھ ہے ہی نہیں‘ سوائے قدرت کے عطا کردہ ان وسائل کے‘ جو اب آہستہ آہستہ ختم ہوتے جا رہے ہیں۔ تیل کی نعمت سے مالامال خلیجی ممالک کو بھی یہ دھڑکا لگا ہے کہ جب ان کے پاس تیل کی دولت نہیں رہے گی یا پھر تیل کی طلب ہی کم ہو جائے گی تو وہ کیسے اپنا دال دلیا چلائیں گے۔ اس صورتِ حال کو متحدہ عرب امارات نے کافی عرصہ پہلے بھانپ لیا تھا‘ اسی لیے اس نے لق و دق صحرا کو دنیا بھر کا سیاحتی مرکز بنانے کی ٹھان لی اور آج یہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو چکا ہے۔ دنیا کی کوئی ایسی نمایاں کمپنی یا ادارہ نہیں جس کا دفتر دبئی میں موجود نہ ہو۔ متحدہ عرب امارات اسرائیل کو تسلیم کر چکا ہے اور اس کے ساتھ کاروباری معاہدے بڑھا رہا ہے۔
سات اکتوبر سے چند روز قبل تک سعودی عرب‘ امریکہ اور اسرائیل کے درمیان بہت قربت آ چکی تھی اور غالب امکان تھا کہ سعودی عرب جلد اسرائیل کو تسلیم کر لے گا لیکن اس سے پہلے یہ حملہ ہو گیا جس کے بارے میں یہ کہا جا رہا ہے کہ حماس نے جان بوجھ کر راکٹ حملوں کے لیے یہ وقت منتخب کیا تاکہ اسرائیل اور سعودی عرب کی بڑھتی قربت کو ختم کر سکے۔ دوسری جانب ملائیشیا‘ پاکستان اور دیگر ایسے ممالک ترقی کی ان بلندیوں تک نہیں پہنچ سکے کہ وہ اپنے اثر و رسوخ سے کسی قسم کی تبدیلی لا سکیں یا اسرائیل جیسے ممالک کو ظالمانہ اقدامات سے باز رکھ سکیں۔ یہاں سے برائے نام کچھ بیانات جاری کر دیے جاتے ہیں اس سے زیادہ کچھ نہیں کیا جاتا۔ بھارت اس معاملے میں بہت شاطر کھیل کھیل رہا ہے اور اس نے نہ صرف اسرائیل کو تسلیم کیا ہوا ہے بلکہ حالیہ جنگ میں برطانیہ میں بھارتی نژاد وزیراعظم رشی سوناک نے اسرائیل کے غزہ پر حملوں کی کھلم کھلا حمایت اور سپورٹ کا بھی اعلان کیا ہے۔ رشی سوناک حالیہ دنوں میں اسرائیل کا دورہ بھی کر چکے ہیں۔ مسئلہ وہی ہے کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم اور ٹیکنالوجی کی عالمی کمپنیوں کے چیف ایگزیکٹوز اب زیادہ تر بھارتی نژاد ہیں؛ چنانچہ مسئلہ کشمیر ہو یا مسئلہ فلسطین‘ ان پلیٹ فارمز پر جو بھی پالیسیاں بنائی جاتی ہیں اور جن قواعد و قوانین کے تحت انہیں چلایا جاتا ہے‘ ان میں بھارت کا اثر و رسوخ صاف دکھائی دیتا ہے۔
دنیا میں عیسائیوں کی تعداد سوا دو ارب ہے جبکہ مسلمان دنیا میں دو ارب کے لگ بھگ موجود ہیں جبکہ یہودی کل ملا کر ڈیڑھ سے پونے دو کروڑ کے درمیان ہیں۔ اس سے زیادہ آبادی تو لاہور شہر کی ہو گی۔ بڑی تعداد کو ہم کئی معاملات میں بہت زیادہ اہمیت دیتے ہیں؛ تاہم دنیا کی اکثریت اس بات پر حیران ہے کہ یہودی اتنی کم تعداد میں ہونے کے باوجود کیسے آج دنیا کو اپنے اشاروں پر نچا رہے ہیں۔ آخر کیا وجہ ہے کہ مٹھی بھر اقلیت دنیا کی اکثریتی آبادی کے احتجاج کو خاطر میں لانے کو تیار نہیں۔ مسلم ممالک ایٹمی قوت کے بھی حامل ہیں‘ تیل، گیس اور معدنیات سے بھی مالا مال ہیں‘ دیگر تمام قیمتی معدنیات بھی مسلم خطوں میں بکثرت پائی جاتی ہیں‘ اس کے باوجود یہ دنیا بھر میں سب سے زیادہ مظلوم ہیں۔ ٹی وی دیکھیں‘ اخبارات اٹھا لیں یا انٹرنیٹ پر چلے جائیں‘ فلسطینی بچوں‘ جوانوں‘ بزرگوں اور خواتین کی لاشیں دیکھ کر سانسیں رک جاتی ہیں اور دماغ مائوف ہو جاتا ہے۔ درندگی انتہا کو پہنچ چکی ہے اور اسرائیل کسی صورت بھی رکنے کو تیار نہیں۔ ہر کوئی ایک دوسرے سے پوچھ رہا ہے کہ اسرائیل کو کوئی روکتا کیوں نہیں‘ آخر ہمارا قصور کیا ہے‘ کیوں ہمیں کیڑے مکوڑوں کی طرح مارا جا رہا ہے۔ دنیا میں پچاس سے زائد مسلم ممالک ہیں‘ یہ سب اکٹھے ہو جائیں تو کیا مل کر بھی اتنی طاقت نہیں رکھتے کہ اسرائیل اور امریکہ کو باز رکھ سکیں؟ ان سوالات کا جواب شاید یہی ہے کہ ہم ترقی کی دوڑ میں میلوں پیچھے رہ گئے ہیں اور ہمارا قصور ہماری جہالت‘ عیش پرستی اور ٹیکنالوجی سے ہماری دوری ہے۔
آپ دنیا میں ہونے والی ترقی دیکھیں اور اس کے بیک گرائونڈ کا جائزہ لیں تو آپ کو بہت سے سوالوں کا جواب مل جائے گا۔ آپ کو حیرت ہو گی کہ یہودی صرف موت کی فیکٹریاں لگانے کے ہی ماہر نہیں بلکہ دنیا کا کوئی بھی شعبہ لے لیں‘ آپ کو یہ لوگ ہر شعبے میں اعلیٰ ترین پوزیشنوں پر براجمان نظر آئیں گے اور دنیا بھی اسی کی سنتی ہے جو بااثر ہو‘ جو کوئی نہ کوئی طاقت اور اہلیت رکھتا ہو۔ طب کے شعبے میں یہودیوں نے خوب ترقی کی ہے۔ طب کے شعبے کی گیارہ عظیم ترین ایجادات یہودیوں کے ہاتھوں ہوئی ہیں۔ اگر جانس سالک پولیو ویکسین ایجاد نہ کرتا تو دنیا بھر میں روزانہ پندرہ لاکھ بچے پیدائش کے پہلے تین سالوں میں ہی معذور ہو جاتے‘ اگر بروچ بلومبرگ ہیپاٹائٹس بی کا علاج دریافت نہ کرتا تو سالانہ دو کروڑ لوگ اس بیماری سے جان گنوا بیٹھتے‘ اگر بینجمن روبن سرنج ایجاد نہ کرتا تو مریضوں کو انجکشن لگانا ممکن نہ ہو پاتا اور اگر ولیم کوف گردوں کی ڈائلیسز مشین ایجاد نہ کرتا تو امراض گردہ سے ہلاکتوں کی تعداد کہیں زیادہ ہوتی۔ اسی طرح تاریخ کو بدلنے والی بہت سی ایجادات یہودیوں کے ہاتھوں ہوئیں۔ اگر سٹینلے میزر مائیکرو پروسیسر نہ بناتا تو آج شاید کمپیوٹر کا نام و نشان تک نہ ہوتا‘ اگر پیٹر شلز آپٹک فائبر کیبل نہ بناتا تو ٹیلی فون‘ ویڈیو کانفرنسنگ اور انٹرنیٹ کے نظام کا وجود نہ ہوتا۔ لیوزلینڈ نیوکلیئر چین ری ایکشن کا فارمولا نہ بناتا تو ایٹم بم نہ بن پاتا۔آپ ان ایجادات کو سامنے رکھیں اور دوسری طرف مسلم دنیا پر ایک نظر ڈالیں‘ آپ کو آپ کے ان سوالات اور اشکالات کا شافی جواب مل جائے گا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ اب جبکہ دنیا فلسطینی بچوں کے جسموں کے ٹکڑوں تک کی تصاویر اور وڈیوز سوشل میڈیا کے ذریعے دیکھ چکی ہے‘ اس کے باوجود اسرائیل کو جنگی مجرم نہیں قرار دیا جا رہا، اس پر عالمی پابندیاں نہیں لگائی جا رہیں، ابھی تک اسے کٹہرے میں نہیں لایا جا سکا۔ کٹہر ے میں لانا تو درکنار‘ کوئی اس پر انگلی تک اٹھانے کو تیار نہیں اور جو تھوڑی بہت بیان بازی ہو رہی ہے وہ صرف گونگلوئوں سے مٹی جھاڑنے کے مترادف ہے کہ اس سے زیادہ دنیا کچھ کر بھی نہیں سکتی۔ جب تک مسلم دنیا میں خامیاں موجود ہیں‘ جب تک مسلم ممالک ترقی کی راہ پر گامزن نہیں ہوتے اور یونہی کمفرٹ زون میں زندگی گزارنے پر مصر رہتے ہیں‘ تب تک بہتری کا کوئی چانس موجود نہیں۔ ایسے میں غزہ سمیت دنیا بھر میں مسلمانوں کے حالات مزید سنگین ہی ہو سکتے ہیں۔