فلسطینی بے چارے تو اپنے تئیں مزاحمت بھی کر رہے ہیں‘ جانیں بھی دے رہے ہیں‘ گھر بار بھی چھوڑ رہے ہیں اور تمام جبر و ستم کا جوانمردی سے مقابلہ بھی کر رہے ہیں۔ اس سے زیادہ وہ کیا کر سکتے ہیں؟آفرین ہے ان پر کہ جس جذبے کے ساتھ وہ صہیونی یلغار کا مقابلہ کر رہے ہیں، وہ جذبہ بلاشبہ قابلِ تحسین ہے۔اتنے ظلم و جبر کے بعد بھی وہ اسرائیل کے سامنے جھکنے کو تیار نہیں۔ اسرائیل کے جدید ہتھیاروں کا مقابلہ کرنے کے لیے عام فلسطینیوں کے پاس پتھر ہیں یا غلیلیں۔ حماس یا دیگر مزاحمتی تنظیموں کے پاس جو اسلحہ ہے وہ محدود مقدار میں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب سے حماس نے اسرائیل پر بڑا راکٹ حملہ کیا ہے‘ اس کے بعد سے اسرائیل کو وہ ویسا نقصان نہیں پہنچا سکی۔ انہوں نے چودہ‘ پندرہ سو یہودی فوجیوں کو ٹھکانے لگایا لیکن اسرائیل اب تک چودہ‘ پندرہ ہزار فلسطینیوں کو شہید کر چکا ہے جن میں نصف تعداد بچوں کی ہے۔ کچھ طبقات کی جانب سے حماس پر بھی تنقید کی جا رہی ہے کہ اس نے اسرائیل پر حملہ کیا تو وہاں ہونے والے میوزک میلے میں موجود عام لوگوں کو قتل کیوں کیا۔ اسی میلے میں مرنے والے اسرائیلیوں کی وِڈیوز بعد میں وائرل ہوئیں اور اسرائیل کو یہ جواز گھڑنے کا موقع ملا کہ دیکھو! ہمارے عام شہریوں کو قتل کیا گیا ہے‘ اس لیے ہم بھی غزہ میں گھس کرعام نہتے شہریوں کو ماریں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل اس سے قبل بھی عام فلسطینیوں کو جب چاہے پکڑ لیتا تھا‘ جب چاہے انہیں گولیاں مار کر قتل کر دیتا تھا لیکن اس بار اس حملے کو جان بوجھ کر ''اسرائیل کا نائن الیون‘‘ قرار دیا گیاتاکہ جس طرح امریکہ کو بدلے اور انتقام کی آگ میں پوری دنیا کو روندنے کا لائسنس مل گیا تھا‘ اسی طرح کا جواز اسرائیل نے بھی گھڑ لیا اور پوری قوت کے ساتھ غزہ پر اندھا دھند بمباری شروع کر دی۔کوئی دن‘ کوئی گھنٹہ بلکہ کوئی منٹ ایسا نہیں جاتا کہ جب اسرائیل نے میزائل اور بم نہ داغے ہوں۔ ان چند ہفتوں میں اسرائیل اس جنگ میں ساڑھے سات ارب ڈالر جھونک چکا ہے جس کی وجہ سے اس کی معیشت بھی دبائو میں آ گئی ہے اور سرمایہ کار اس صورتحال سے پریشان ہیں کیونکہ جنگ کی حالت میں کوئی بھی علاقہ ہو‘ وہاں پر معمول کی سرگرمیاں جاری نہیں رکھی جا سکتیں۔ اسرائیلی شہریوں کو یہ خوف بھی لاحق ہے کہ چونکہ اسرائیل پہلے سے کئی گنا زیادہ فلسطینی شہریوں کو شہید کر رہا ہے اس لیے حماس کی جانب سے جواب بھی اتنا ہی شدید آ سکتا ہے یا پھر دیگر مسلم ممالک مثلاً لبنان‘ترکیہ اور ایران وغیرہ اس جنگ میں شامل ہو کر اسے مزید پھیلا دیں گے جس کے بعد اسرائیل کے لیے حالات مزید بدتر ہو تے جائیں گے۔
اس وقت سرائیل کو امریکہ کی مالی ‘ سفارتی اور جنگی‘ ہر طرح کی معاونت حاصل ہے لیکن یہ سلسلہ آخر کتنی دیر تک چلے گا کیونکہ امریکہ کی اپنی معیشت ابھی تک کورونا وبا کے بعد سے پوری طرح پائوں پر کھڑی نہیں ہو سکی ہے۔ اس سے قبل دو دہائیوں تک وہ افغانستان میں سینگ پھنسائے بیٹھا رہا۔ اس لیے یہ توقع رکھنا کہ امریکہ اسی انداز اور رفتار سے صہیونی ریاست کو سپورٹ کرتا رہے گا‘ زیادہ حقیقی دکھائی نہیں دیتا۔ یہ جنگ اب اسرائیل نے اَنا کی جنگ بنا لی ہے۔ وہ ایک بپھرے ہوئے سانڈ کی طرح فصلوں میں گھس گیا ہے اور سب کچھ روندتا چلا جا رہا ہے۔ ہر عمل کا ایک ردعمل ہوتا ہے۔ حماس نے اگر اسرائیل پر بڑا حملہ کیا تو اسرائیل نے اس سے کئی گنا بڑا حملہ غزہ پر کر دیا لیکن اس حملے کا بھی جواب اسرائیل کو کسی نہ کسی شکل میں ضرور ملے گا۔ یہ درست ہے کہ مسلم اُمہ انتہائی نحیف دکھائی دیتی ہے۔ یہ ابھی تک نشستند‘گفتند‘برخاستند سے آگے نہیں بڑھ سکی لیکن اٹل حقیقت یہ ہے کہ مسجدِ اقصیٰ مسلمانوں کا قبلۂ اول ہے۔ عیسائیوں اور یہودیوں کے لیے بھی یہ سرزمین تاریخی اور مذہبی اہمیت کی حامل ہے، لہٰذا موجودہ جنگ کسی بڑی عالمی جنگ کی صورت بھی اختیار کرسکتی ہے اور اس کے خدشات موجود ہیں۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ عرب لیگ ہو‘ او آئی سی یا کوئی اور عالمی تنظیم‘ ابھی تک اس مسئلے کی سنگینی کو سمجھ نہیں سکی اور یہی بے حسی صہیونی حکومت کو مزید ہلّہ شیری دے رہی ہے۔
عرب لیگ اور او آئی سی نے اجلاس بہت تاخیر سے بلایا۔ نہ بھی بلایا جاتا تو کیا فرق پڑتا کہ اس کی افادیت اور کردار سب کے سامنے ہے اور ویسے بھی ان تنظیموں کے اجلاسوں اور مطالبات سے اسرائیل کی صحت پر کوئی اثر پڑ سکتا ہوتا تو حالات اس حد تک پہنچتے ہی نہیں۔اس سے زیادہ ردعمل تو ان لاکھوں افراد کا ہے جو امریکہ اور یورپ کے مختلف ممالک میں احتجاج کررہے ہیں۔ لندن میں فلسطینیوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے لیے کیے گئے ایک حالیہ مظاہرے میں دس لاکھ کے قریب افراد شامل تھے۔ لندن پولیس کے آفیشل بیان کے مطابق اس مظاہرے میں 3 لاکھ افراد نے شرکت کی۔ مظاہرین نے کسی اگر‘ مگر کے بغیر غزہ میں جنگ بندی کا مطالبہ کیا۔
غزہ میں اس وقت صورتحال انتہائی تشویش ناک ہے اور اسرائیل سفاکیت کی سبھی حدود کو عبور کر چکا ہے۔ الشفا ہسپتال میں آکسیجن کی کمی کے باعث بچے اپنی جان سے ہاتھ دھو چکے ہیں، ہسپتال بند ہونے سے سینکڑوں مریضوں کی زندگی کو خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔اب تو اسرائیل نے ٹینکوں سمیت اس ہسپتال پر حملہ بھی کر دیا ہے اور الزام یہ لگایا ہے کہ اس کے تہہ خانے میں حماس کا ہیڈ کوارٹر ہے اور یہاں اسلحہ چھپایا گیا ہے؛ تاہم ہسپتال کو تہس نہس کرنے کے بعد بھی وہاں سے کچھ نہیں ملا؛ البتہ جو مریض آخری سانسیں لے رہے تھے‘ وہ بے چارے اپنی جان سے چلے گئے۔ڈاکٹروں کو بھی ادھر اُدھر چھپ کر اپنی جان بچانا پڑی کیونکہ غزہ میں پہلے ہی میڈیکل اور ریلیف ورک فورس کی بہت کمی ہے جبکہ اسرائیلی حملوں میں زخمی ہونے والوں کے لیے ڈاکٹرز کا موجود ہونا اور زندہ رہنا بہت ضروری ہے۔اسرائیل مگر کسی بات کی پروا کرنے پر آمادہ نہیں۔وہ الشفا ہسپتال پر پہلے فاسفورس بم بھی گرا چکا ہے۔ اب تک غزہ کے 35 میں سے 21 ہسپتال مکمل طور پر بند ہو چکے ہیں۔
سعودی دارالحکومت ریاض میں او آئی سی اور عرب لیگ کے ہونے والے مشترکہ اجلاس میں شریک ممالک غزہ میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ کر سکتے تھے‘ سو انہوں نے کیا۔ ترکیہ اور انڈونیشیا نے اسرائیل کے خلاف جنگی جرائم کی عالمی عدالت میں جانے کی تجویز دی۔ اس سے زیادہ کوئی کچھ کر سکتا تھا نہ کسی نے کیا؛ تاہم یہ سلسلہ یہاں رکنے والا نہیں۔ دنیا میں روز بروز بڑھتی مخالفت اور نفرت صرف اسرائیل کو ہی نہیں بلکہ اس کی حمایت کرنے والے ممالک کو بھی لے ڈوبے گی۔ بہت سے ایسے برانڈز کے بائیکاٹ کا مطالبہ کیا جا رہا ہے جو اسرائیل سے کسی قسم کا تعلق رکھتے ہیں یا پھر ان ممالک سے ہیں‘ جو اسرائیل کو سپورٹ کر رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ایسے برانڈز کے بھی بائیکاٹ کی مہم چل رہی ہے جو اسرائیل کے تو نہیں ہیں لیکن ان کا بالواسطہ تعلق اسرائیل سے بنتا ہے۔ یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا تو عالمی مارکیٹ میں ان کی مصنوعات کی خرید و فروخت کم ہوتی جائے گی کیونکہ سوشل میڈیا پر ایسے پیغامات بہت تیزی کے ساتھ وائرل ہو رہے ہیں۔ اسرائیل کی کوشش ہے کہ وہ کم سے کم وقت میں اپنا آپریشن مکمل کرے۔ وہ غزہ کو ملیامیٹ کرنے اور چٹیل میدان بنانے پر تُلا ہوا ہے مگر یہ جنگ شاید اتنی آسانی کے ساتھ ختم نہیں ہو گی۔ جن کے پیارے جان سے گئے‘ وہ کبھی صہیونی مظالم کو نہیں بھول سکیں گے۔ بدلے کی آگ ان کے دل میں ہمیشہ بھڑکتی رہے گی اور یہ تحریک فلسطین کی مکمل آزادی اور اسرائیل کے جابرانہ قبضے کے خاتمے تک جاری رہے گی۔ یہ ایک کڑے امتحان کی گھڑی ہے مگر یہ امتحان فلسطینیوں کا نہیں بلکہ دو ارب مسلمانوں اور ان کے حکمرانوں کا ہے‘ جو ابھی تک خوابِ خرگوش اور غفلت کی نیند میں گم ہیں۔