اسرائیل کو روکنے کے سبھی حربے ناکام ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ ایک بپھرے ہوئے سانڈ کی طرح وہ غزہ کو روندتا چلا جا رہا ہے۔ عارضی جنگ بندی ختم ہونے کے بعد گزشتہ دو روز میں اسرائیلی فوج نے چار سو سے زائد حملے کر کے مزید سات سو کے قریب فلسطینیوں کو شہید کر دیا ہے۔ ہر دس منٹ میں غزہ پر ایک حملہ کیا جا رہا ہے جس سے غزہ ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے۔ دونوں جانب سے گزشتہ دنوں قیدیوں کی رہائی کے بعد یہ خیال کیا جا رہا تھا کہ معاملات اور حالات بہتری کی جانب گامزن ہو رہے ہیں اور عنقریب مستقل جنگ بندی ہو جائے گی لیکن اسرائیل ایسی ڈھیٹ ہڈی ہے جو باز آنے والا نہیں۔ امریکہ‘ بھارت اور بیشتر مغربی ممالک اس کے پیچھے کھڑے ہیں۔ خاص طور پر امریکہ کے کردار پر گہری تنقید کی جا رہی ہے کیونکہ وہ دوغلے پن میں بہت آگے نکل چکا ہے۔ ایک طرف امریکی صدر کی جانب سے اسرائیل کو حماس پر حملے نہ کرنے اور غزہ میں عام فلسطینیوں کو نشانہ نہ بنانے کے بیانات جاری کیے جاتے ہیں دوسری جانب امریکی صدر جو بائیڈن اسرائیل جا کر اسے ہر طرح سے تھپکی دیتے ہیں اور اس کی مکمل سپورٹ کا اعادہ کرتے ہیں۔ امریکہ کا یہ کردار تاریخ میں سیاہ ترین باب کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ خود امریکہ میں اس کے اس گھنائونے کردار پر نہ صرف مسلمان اور عیسائی بلکہ یہودی کمیونٹی بھی شدید احتجاج کر رہی ہے۔ اسی قسم کے احتجاج اسرائیل کے اندر بھی ہو رہے ہیں لیکن نہ اسرائیلی حکومت کے کانوں پر کوئی جوں رینگ رہی ہے اور نہ امریکہ کی پالیسی میں کوئی فرق پڑا ہے۔
ویسے حماس کو بھی یہ اندازہ تو ہو گا کہ اسرائیل پر اس کے حملے کے بعد اس کا شدید ترین ردعمل آئے گا اور وہ اسے روکنے کی صلاحیت نہیں رکھتی لیکن شاید حماس نے یہ حملہ کچھ اور عزائم کے تحت اور دیگر مقاصد کے حصول کے لیے کیا تھا جن میں سے کئی ایک کے حصول میں وہ کامیاب رہی جیسے کہ امریکہ‘ سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان اکتوبر کے اوائل میں جس تیزی کے ساتھ مذاکرات جاری تھے‘ یہ خیال کیا جا رہا تھا کہ سعودی عرب بہت جلد اسرائیل کو تسلیم کرنے والا ہے؛ تاہم حماس کے سات اکتوبر کے راکٹ حملوں نے اس ڈیل کو مکمل ہونے سے پہلے ہی ختم کر دیا اور یہ معاملہ فی الوقت کہیں پیچھے چلا گیا ہے؛ دوسری جانب اسرائیل پر حماس کے حملوں سے مسئلۂ فلسطین ایک بار پھر دنیا میں اجاگر ہوا ہے اور اب اسرائیل کے دیرینہ اتحادی بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی بھی یہ کہنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ اس مسئلے کا مستقل حل تلاش کیا جائے؛ تاہم اس حملے کی وجہ سے ایسے کئی نئے محاذ بھی کھل گئے ہیں جنہیں بند کرنا حماس کے بس کی بات نظر نہیں آتی۔ سب سے اہم یہ کہ اس کے پاس ایسا کوئی پلان بی نہیں ہے کہ جس کے تحت وہ اسرائیل کے جوابی حملوں سے عام فلسطینی عوام کو محفوظ رکھ سکے۔ غزہ میں ویسے بھی چھوٹے بچوں کی تعداد نسبتاً زیادہ ہے‘ یہی وجہ ہے کہ اب تک شہید ہونے والے پندرہ سے بیس ہزار افراد میں نصف سے زیادہ بچے ہیں۔ یہ منظم نسل کشی ایک ایسے دور میں ہو رہی ہے جب دنیا میں کمیونیکیشن کا نظام انتہائی فعال ہے اور دنیا کے کسی ایک کونے میں درخت سے پتا بھی ٹوٹتا ہے تو دوسرے کونے میں اس کی خبر چند منٹ میں پہنچ جاتی ہے لیکن غزہ میں اسرائیل کے انسانیت کش اقدامات پر دنیا ایسے خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے جیسے یہ بچے اور یہ لوگ گوشت پوست کے انسان نہیں بلکہ مٹی کے کھلونے ہیں جنہیں میزائلوں اور بموں سے تہس نہس کیا جا رہا ہے۔
ایسی کئی عالمی میٹنگز اور متعدد اجلاس ہو چکے ہیں جن کا حاصل 'نشستند، گفتند اور برخاستند‘ سے زیادہ کچھ نہیں نکلا۔ تھوڑی بہت جو جنگ بندی ہوئی اس میں بھی اسرائیل کا یہی مقصد تھا کہ اپنے زیادہ سے زیادہ قیدیوں کو چھڑوا سکے۔ وہ جس قسم کے خوفناک مشن پر گامزن ہے‘ اس میں وہ اقوام متحدہ کے ان ریلیف کیمپوں کو بھی نہیں بخش رہا جن کو جنگ میں استثنا حاصل ہوتا ہے اور کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچایا جا سکتا۔ حماس کے کئی سرکردہ لیڈروں کو اسرائیل نشانہ بنا چکا ہے۔ کچھ پہلے سے عرب ممالک میں روپوش ہیں۔ جن ہسپتالوں پر اسرائیل نے یہ جواز بنا کر بم گرائے تھے کہ ان کی بیسمنٹ میں ایسے کمپائونڈ بنائے گئے ہیں جن میں حماس کے جنگجو چھپے ہوئے ہیں اور ہسپتال کی آڑ میں وہ خود کو محفوظ رکھے ہوئے ہیں اور وہیں سے اسرائیل کو نشانہ بنانے کی منصوبہ بندی کرتے ہیں‘ ان ہسپتالوں بالخصوص الشفا ہسپتال پر بم گرانے اور اسے تورا بورا بنانے کے بعد بھی اسرائیل کو ہسپتال کی بیسمنٹ سے ایسا کوئی ٹھکانہ نہیں ملا۔ ایسے جواز جنگوں میں اکثر گھڑے جاتے ہیں اور یہ ففتھ جنریشن وار فیئر کا ایک حربہ ہیں۔ اس میں کسی بھی مطلوبہ ٹارگٹ کو حاصل کرنے کے لیے پہلے اس کے بارے میں من گھڑت الزامات وضع کیے جاتے ہیں‘ دیگر ممالک اور عالمی تنظیموں کی حمایت حاصل کی جاتی ہے اور اس کے بعد مطلوبہ ٹارگٹ کو اپنی مرضی کے مطابق نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ایسی صورتوں میں زیادہ فائدہ حملہ آورکو ہی ہوتا ہے جیسا کہ عراق‘ افغانستان اور دیگرممالک پر حملوں کے حوالے سے امریکہ نے پیشگی مہم چلائی لیکن نہ عراق سے کوئی خفیہ کیمیائی ہتھیار ملے نہ ہی افغانستان سے کچھ برآمد ہو سکا‘ سوائے اس کے کہ دونوں ممالک پر بی باون طیاروں سے ہزاروں ٹن بارود گرا کر انہیں چٹیل میدانوں میں تبدیل کر دیا گیا۔
اس وقت دنیا میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون رائج ہے۔ ماضی میں بھی یہی ہوتا آیا ہے اور ہر طاقتور کمزور کو ہڑپ کرنے کی منصوبہ بندی کرتا رہتا ہے۔ اب مگر سٹرٹیجی میں تھوڑی سی تبدیلی اس طرح کی گئی ہے کہ جس ملک کو تباہ کرنا مقصود ہوتا ہے‘ وہاں پہلے اپنی مرضی کے حالات بنائے جاتے ہیں‘ مقامی تنظیموں میں سے کچھ کو منتخب کر کے انہیں عسکریت پسندی کی تربیت دی جاتی ہے‘ انہیں اپنا آلہ کار بنایا جاتا ہے اور بعد میں انہی کو مجرم اور دہشت گرد ٹھہرا کر انہیں صفحہ ہستی سے مٹانے اور امن کے نام پر جنگ کا آغاز کر دیا جاتا ہے۔ حماس پر بھی یہ تنقید کی جا رہی ہے کہ اگر اس کے پاس اسرائیل کے جوابی حملوں کو روکنے کی صلاحیت نہیں تھی اور اگر اسرائیل کے تیرہ سو شہری مار کر اپنے تیرہ ہزار بندے ہی شہید کرانے تھے تو اس سارے مشن اور کارروائی کا حاصل حصول کیا ہے؟ کیا صرف دنیا کی توجہ اور ہمدردی حاصل کرنا مقصود تھا یا پھر فلسطین میں ایک بڑے جنگجو گروپ کی حیثیت سے ابھرنا اس کا مقصد تھا۔ حماس نے سات اکتوبر کو جو راکٹ حملے کیے تھے اور زمینی حملے میں جن لوگوں کو اسرائیل میں مارا گیا تھا‘ ان میں بیشتر اسرائیلی شہری تھے۔ اسرائیل جو پہلے ہی فلسطین کے عام شہریوں کو نہیں بخش رہا تھا‘ اس نے دنیا بھر میں حماس کے حملے اور ان میں مرنے والے شہریوں کی جھوٹی سچی وڈیوز پھیلا کر یہ جواز گھڑ لیا کہ جس طرح اسرائیل کے عام شہریوں کو نشانہ بنایا گیا ہے اسی طرح اب فلسطین کے عام شہریوں کو نشانہ بنایا جائے گا اور حماس کے حملے سے اسے جواز حاصل ہو گیا ہے۔ اب اسرائیل سے کون پوچھتا کہ وہ جو گزشتہ سات عشروں سے فلسطینیوں کو چن چن کر نشانہ بنا رہا ہے‘ اس کا جواز اور اجازت اسے کیونکر اور کیسے حاصل ہوئی۔
اسرائیل اور فلسطین کا مسئلہ دنیا حل نہیں کر پا رہی لیکن اس کے اثرات سے یہ محفوظ بھی نہیں رہ سکتی۔ یہ جنگ اگر فوری نہ روکی گئی تو عنقریب پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔ اسرائیل اور امریکہ اس جنگ کے دو فرنٹ لائن سٹیک ہولڈر ہیں‘ جب تک ان کا آپس میں گٹھ جوڑ رہے گا تب تک مسئلۂ فلسطین کے حل ہونے کا امکان معدوم رہے گا۔ دوسری صورت یہ ہے کہ اسرائیل معاشی طور پر اس جنگ کے اخراجات سے اتنا تنگ آ جائے کہ اسے ختم کرنے پر مجبور ہو جائے مگر یہ تبھی ہو گا جب جنگ طوالت اختیار کر جائے‘ ایسے میں اس جنگ کے کچھ عرصہ رکنے کے امکانات پیدا ہو جائیں گے لیکن یہ بھی عارضی جنگ بندی ہو گی کیونکہ جیسے ہی اسرائیل کو معاشی طور پر تھوڑی سپورٹ حاصل ہو گی‘ وہ غزہ کو دوبارہ سے اپنے نشانے پر رکھ لے گا اور پھر سے مظالم کی وہی داستان شروع ہو جائے گی جس کا مشاہدہ ہم آج کل کر رہے ہیں۔