ہم لوگوں نے شاید قسم کھائی ہوئی ہے کہ اس ملک میں رہنا ہے تو اپنی مرضی کرنی ہے‘ جہاں دل چاہے قانون پر عمل کرنا ہے اور جہاں چاہے عمل نہیں کرنا۔ کہیں پکڑے جائیں تو ایسے ایسے حیلے بہانے تراشتے ہیں کہ اگلا بندہ سر پکڑ لیتا ہے۔ دنیا کا ہر کام کریں گے‘ دنیا کے ملک ملک پھر کر آ جائیں گے لیکن پاکستان آ کر گاڑی چلاتے ہوئے ہمیں یاد بھی نہیں ہو گا کہ اس کا ٹوکن ٹیکس ادا کرنا ہے‘ یا اس کی نمبر پلیٹ اگر ٹوٹی ہوئی ہے تو وہ نئی لگوانی ہے۔ ایسے لوگوں کو جب ناکوں پر روکا جاتا ہے تو نئی نئی کہانیاں سناتے نظر آتے ہیں۔ ایک گاڑی کو روکا گیا تو معلوم ہوا تیرہ برس سے ٹوکن ادا نہیں ہوئے۔ ایک سال کا ٹوکن تیرہ ہزار روپے کے لگ بھگ تھا اور اب کل رقم ڈیڑھ لاکھ روپے کے قریب بن چکی تھی۔ اب بہانے تراشنے کا وقت شروع ہو گیا۔ موصوف نے پہلے تو لمبی لمبی چھوڑیں کہ میں تو خلیجی ممالک میں ہوتا ہوں‘ تیرہ سال بعد پاکستان آیا ہوں۔ آج ہی گاڑی لے کر نکلا تو آپ نے روک لیا اور بتایا کہ ٹوکن شارٹ ہیں۔
یہیں پر بس نہیں کی بلکہ اپنی قانون کی عمل داری کی بھی عظیم الشان مثال دیتے ہوئے کہا کہ میں تو ٹریولنگ ایجنسی کا مالک ہوں اور سالانہ دو‘ ڈھائی کروڑ روپے ٹیکس ادا کرتا ہوں۔ سرکاری افسر نے سوال کیا کہ اگر آپ سالانہ دو کروڑ ٹیکس دیتے ہیں تو ساتھ یہ تیرہ ہزار بھی سال کے سال ادا کر دیتے۔ چلو ایک یا دو سال کسی وجہ سے نہیں دے پائے تو اور بات ہے‘ لیکن تیرہ سال؟ ویسے یہ بات بھی پاکستان میں ہی کہی جا سکتی ہے‘ بیرونِ ملک تو ایک دن اوپر ہو جائے تو جرمانہ ادا کیے بغیر جان نہیں چھوٹتی اور اگر وہ صاحب دبئی جیسے شہر سے آئے تھے تو انہیں وہاں کے قانون اور آٹے دال کا بھائو بخوبی معلوم ہو گا کہ جہاں پر آپ پچاس کروڑ کی گاڑی پر بھی بیٹھے ہوں‘ تب بھی اگرگاڑی کے کاغذ پورے نہیں‘ اشارہ توڑا ہے یا حتیٰ کہ گاڑی پر مٹی اور دھول بھی پڑی ہے تو ہزاروں ریال جرمانہ دینا پڑتا ہے ۔ یہ ساری موجیں اور سارے بہانے صرف پاکستا ن میں چل سکتے ہیں اور اکثر اوقات چل بھی جاتے ہیں جیسا کہ ان صاحب کے معاملے میں ہوا کہ تیرہ برس سے ایک گاڑی سڑک پر چل رہی ہے اور اس کا ٹوکن ٹیکس ہی ادا نہیں ہوا۔
ہر دوسرا شخص قانون کی گرفت میں آنے اور پکڑے جانے پر یہی کہتا ہے کہ مجھے تو معلوم نہیں تھا۔ اب ایسے لوگوں کے موبائل فون اگر کھولے جائیں تو آپ کو ایسی حیران کن موبائل ایپس ملیں گی جنہیں عام بندہ شاید ہی استعمال کرتا ہو۔ یہ کرپٹو کرنسی خریدنے کی کوشش کر سکتے ہیں لیکن ٹوکن ٹیکس ادا کیسے ہوتا ہے‘ یہ جاننے کی کبھی کوشش کریں گے نہ خواہش۔ انہیں پتا ہے کہ یہ پاکستان ہے‘ یہاں پر سب چلتا ہے۔ لیکن یہ ایک بات بھول جاتے ہیں کہ اگر یہ خود ایسے کریں گے تو پاکستان پھر کیسے تبدیل ہو گا۔سبھی جب ایک دوسرے پر ذمہ داری ڈالیں گے یا عذر تراشی کے آسان اور ناپائیدار راستے تلاش کریں گے تو پھر ملک کیسے چلے گا؟ ہم میں سے ہر ایک پاس سمارٹ فون ہے۔ ہر سمارٹ فون کی سیٹنگز میں جا کر یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ کسی صارف نے ایک دن میں کتنی دیر موبائل فون استعمال کیا اور کون کون سی موبائل ایپس کتنے وقت کے لیے کھلی رہیں۔ آپ حیران ہوں گے کہ ہر دوسرا‘ تیسرا شخص سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمز کو ملا کر روزانہ اوسطاً چار سے پانچ گھنٹے موبائل استعمال کر رہا ہے جبکہ کئی لوگ ایسے بھی ہیں جو دس سے چودہ گھنٹے بھی موبائل فون صرف اور صرف انٹرٹینمنٹ کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ یعنی موبائل فون کا اسی سے نوے فیصد تک استعمال محض انٹرٹینمنٹ کے لیے ہے۔ ٹک ٹاک نامی ایپ پر ایسے کلپس اور ڈانس دیکھتے ہیں کہ سر شرم سے جھک جائے، اسی پر بس نہیں بلکہ ایسی وِڈیوز کو آگے فارورڈ کر کے مزید لوگوں کو اس بھنور میں الجھاتے ہیں۔انہی لوگوں کو جب پوچھا جاتا ہے کہ آپ کا ٹریفک لائسنس نہیں بنا ہوا یا ایکسپائر ہوچکا ہے تو سب سے پہلے یہ وقت کی کمی کا بہانہ کریں گے اور وقت یہ کہاں لگاتے ہیں‘ وہ ان کے موبائل کے ریکارڈ سے پتا لگ جائے گا۔
ہر دوسرے بندے کا یہی حال ہے جو موبائل فون کو انٹرٹینمنٹ کے لیے استعمال کر رہا ہے۔اسی موبائل فون سے ڈاکٹر سے ٹائم بھی لیا جا سکتا ہے‘گھر بیٹھے بغیر فیس کے‘ ٹیوشن بھی پڑھی جا سکتی ہے ‘ گاڑی کا ٹوکن یا پراپرٹی کے ٹیکسز ادا ہو سکتے ہیں‘ بجلی، گیس اور پانی کے بل ادا کیے جا سکتے ہیں لیکن لوگ جانتے بوجھتے بھی انجان بننے کے ماہر بن چکے ہیں۔ جب ان کے پاس تراشنے کو کوئی عذر باقی نہیں رہتا تو پھر حکومت‘ سیاستدانوں اور اداروں کو بلیم کرنا شروع کردیتے ہیں کہ دیکھو! فلاں اتنے لوٹ کر لے گیا‘ اس کا کیا کر لیا۔ یہ لوگ یہ بھی کہتے نظر آئیں گے کہ ہم جو ٹیکس دیتے ہیں‘ اس کے بدلے میں ہمیں کیا ملتا ہے؟ اگرچہ ایسے بعض معاملات میں لوگ بھی ٹھیک کہتے ہیں لیکن سوال وہی ہے کہ پھر معاشرے کی اصلاح کیسے ہو گی اور کہاں سے شروع ہو گی۔ اب یا تو کوئی ڈنڈا لے کر کھڑا ہو جائے اور سب کو بیک وقت ٹھیک کرنا شروع کر دے مگر یہ الہ دین کے جادوئی چراغ کے بغیر ممکن نہیں۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ہم جس حیثیت میں ہیں‘ جہاں بھی ہیں ہم خود اصلاح کے ذمہ دار بن جائیں۔ ہر شخص اپنی اصلاح کر لے‘ پورا معاشرہ سدھر جائے گا۔
یہ جو سڑکوں پر ایکسائز والے کبھی کبھار سخت ناکے لگا تے ہیں‘ اس میں ویسے نہ بڑے کا لحاظ ہوتا ہے نہ چھوٹے کا۔ اس طرح کی ایکسرسائز ہر سطح پر اگر کی جائے تو لوگوں کے پاس کم از کم یہ کہنے کا جواز نہیں ہو گا کہ بڑوں کو چھوڑ دیتے ہیں اور کمزوروں کوپکڑ لیتے ہیں۔ اگرچہ پھر نئے بہانے آ جائیں گے لیکن یہ بہانہ کم از کم ختم ہو جائے گا۔
ا بھی کل ہی کی بات ہے کہ مارکیٹ میں ایک بڑی گاڑی میں تین افراد کو دیکھا ۔ ایک ایک کر کے تینوں نے کھانے کی چیز کا ریپر وغیرہ گاڑی کی کھڑکی سے یوں باہر پھینک کر شیشہ اوپر کیا جیسے باہر ساری سڑک کوڑا دان ہو۔ اب یہاں پر اگر حکومت جرمانہ عائد کرے گی جو کہ کرنا بھی چاہیے اور تگڑا جرمانہ ہونا چاہیے‘ تو پھر یہی لوگ کہیں گے کہ ہم پر ظلم ہو رہا ہے ہماری تو اتنی آمدنی نہیں ہے۔ ستر‘ ستر لاکھ کی گاڑی لینے کے پیسے پاس ہوتے ہیں لیکن عقل میں یہ بات نہیں سما سکی کہ کچرا سڑک پر نہیں پھینکنا چاہیے۔ یہی کام یہ دبئی یا کسی اور خلیجی ممالک میں کر کے دکھائیں ۔انہیں پتا ہے کہ وہاں پر کسی نے سفارش ماننی ہے نہ مسکین چہرہ دکھا کر یا بہانے بازیوں سے کسی کا دل موم ہو گا۔ ہمارے یہی رویے اس ملک کو کبھی بھی جدید ملک نہیں بننے دیتے۔ ترقی یافتہ ملک اس لیے ترقی یافتہ نہیں ہیں کہ وہاں پر محض حکمران یا بیوروکریسی قانون پر عمل کرتی ہے یا ایماندار ہے بلکہ وہاں پر تو لوگ اس جگہ پر بھی قانون کی چھوٹی چھوٹی باتوں پر عمل کرتے ہیں جہاں پر کوئی انہیں دیکھنے والا نہیں ہوتا اور ہم لوگ نہ موٹر وے دیکھتے ہیں‘ نہ کوئی اور جگہ۔ پہاڑی تفریحی مقامات کو بھی گدلا کرنے سے باز آتے ہیں ‘ حتیٰ کہ اپنے گھر کے سامنے بھی کوڑا پھینکنے سے گریز نہیں کرتے۔ جاپان میں بچوں کو خاص طور پر کلاس اور سکول سمیت شہر کو صاف کرنے کی تربیت دی جاتی ہے تاکہ وہ بڑے ہو کر اس عادت کو برقرار رکھ سکیں۔ ہمارے ہاں نہ والدین کو پروا ہے نہ اساتذہ اخلاقیات کے حوالے سے فکرمند دکھائی دیتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ہر سال اور ہر عشرہ گزرنے کے بعد بھی ہم وہیں کے وہیں کھڑے ہوتے ہیں جہاں پہلے کھڑے تھے۔