جوانی میں بیس سے تیس برس کی عمر‘زندگی کا وہ حصہ ہوتا ہے جب انسان جی بھر کر غلطیاں کر سکتا ہے‘ نئی سے نئی چیز اور سِکل سیکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے‘ وہ خطروں سے خوف زدہ نہیں ہوتا‘ ٹینشن اور پریشانیوں کا جلدی شکار نہیں ہوتا۔ یہ وہ دور ہوتا ہے جب اس کے پاس سب سے زیادہ فراغت ہوتی ہے اور کافی وقت میسر ہوتا ہے۔ یہ وہ عمر ہوتی ہے جب انسان شدید گرمی اور شدید سردی‘ دونوں برداشت کر سکتا ہے۔ یہ سخت پسینے میں شرابور ہو کر بھی تازہ دم اور چست رہتا ہے اور یہ چار گھنٹے سو کر بھی بیس گھنٹے مسلسل کام کر سکتا ہے۔ ایک گلوبل سروے میں دنیا کے مختلف ممالک میں مقیم دس ہزار مختلف ادھیڑ عمر افراد سے ان کی جوانی یعنی بیس سے تیس برس تک کی عمر کے بارے میں پوچھا گیا تو معلوم ہوا کہ پندرہ ایسے کام یا احتیاطیں ہیں جو اگر اس عمر کے دوران کر لیے جائیں اور ان کا خیال رکھا جائے تو باقی ماندہ زندگی زیادہ بہتر انداز میں گزر سکتی ہے اور انسان زیادہ کامیاب ہو سکتا ہے۔
ان میں پہلا کام ایسے تعلقات بنانا ہے جو زندگی بھر کام آ سکیں۔ یہ ان تعلقات کی بات نہیں کی جا رہی جو سوشل میڈیا پر بننے والے دوستوں یا آن لائن کمنٹ کرنے والے افراد سے بن جاتے ہیں بلکہ یہ ان لوگوں سے تعلقات ہوتے ہیں جن کے ساتھ آپ کا اٹھنا بیٹھنا ہوتا ہے‘ جن کے زیر سایہ آپ زندگی کے تجربات حاصل کرتے ہیں اور جن کے ساتھ آپ خوشی اور غمی کے لمحات بِتاتے ہیں۔ ایسے لوگ اس وقت بھی آپ کے کسی نہ کسی کام آتے ہیں جب آپ عمر کے آخری حصے میں ہوتے ہیں اور جب آپ نئے دوست بنانے کی پوزیشن میں نہیں ہوتے‘ یہ اس وقت آپ کے ساتھ بیٹھ کر ماضی کو انجوائے کرتے ہیں اور آپ کے اندر کا انسان مرنے نہیں دیتے۔
دوسرا کام جو بیس سے تیس برس کی عمر کے درمیان کرنا چاہیے وہ کسی بھی نئے کام کو کرتے وقت پریشان کن خیالات سے خود کو دور رکھنا ہے۔ دراصل انسان جب بھی کوئی نیا کام شروع کرتا ہے تو مختلف وسوسے اور شکوک و شبہات اسے گھیر لیتے ہیں لیکن عمر کے اس عشرے میں اگر آپ ان وسوسوں کا شکار ہو گئے اور نیا تجربہ‘ نیا کاروبار‘ نیا کام یا نئی نوکری کرتے ہوئے ہچکچانے لگے تو سمجھ لیں آپ اپنے رزق اور اپنی گروتھ کا گلا خود اپنے ہاتھ سے دبا رہے ہیں۔ تیسر کام مستقبل پر نظر ہے۔ اس عمر میں آپ صوفے یا بیڈ پر لیٹے خواب بُنتے رہیں گے یا ایک ہاتھ میں ٹی وی کا ریموٹ اور دوسرے ہاتھ میں موبائل فون تھامے رہیں گے تو آپ کی طبیعت اوائل عمری ہی میں آرام پسندی کی طرف مائل ہو جائے گی ۔ لہٰذا اٹھیے! جو کام بھی آپ کو پسند آتا ہے‘ جس میں آپ کا شوق ہے‘ اسے شروع کریں چاہے چھوٹے سے ڈھابے یا آن لائن پیج سے ہی سہی لیکن شروع ضرور کریں۔ محض کامیاب لوگوں کی زندگیاں کھوجنے سے آپ کامیاب نہیں ہوں گے جب تک خود اپنے ہاتھ‘ پائوں اور دماغ کو حرکت نہیں دیں گے۔
چوتھا کام یہ کرنا چاہیے کہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھائیں۔ ایسا کوئی بڑا خرچہ نہ کریں جو اگلے کئی سال آپ پر بوجھ بن جائے اور آپ اپنے اصل کام سے ہٹ کر ایسے اخراجات کو نمٹنانے ہی میں لگے رہیں۔ پانچواں کام اس عمر کے نوجوانوں کو جو کرنا چاہیے وہ بھرپور جسمانی مشقت ہے۔ اگر آپ کا کام زیادہ بیٹھنے کا ہے تو بہانے بہانے سے خود کو مشقت میں ڈالیں۔ سودا سلف لینے کے لیے پیدل چلے جائیں‘ سیڑھیاں چڑھیں‘ لفٹ کم استعمال کریں۔ اس طرح آپ کے عضلات اور ہڈیاں مضبوط ہوں گی اور بڑھاپا آسانی سے گزرے گا۔ چھٹا کام مستقبل کی فنانشل منصوبہ بندی ہے۔ اس عمر میں کی گئی چھوٹی چھوٹی سرمایہ کاری مستقبل میں تن آور درخت بن جائے گی۔ پچیس سال کی عمر میں کی گئی سرمایہ کاری بیس سال بعد آپ کو حیران کن ثمرات کے ساتھ واپس ملے گی۔
ساتواں کام غیر اخلاقی‘ اخلاق باختہ اور فحش مواد اور وڈیوز سے پرہیز ہے۔ اس عمر میں دماغ کو منفی خیالات سے پاک رکھنا انتہائی ضروری ہے اور اس کا حل مصروفیت ہے۔ فراغت انسان کو مختلف علتوں میں مبتلا کر دیتی ہے۔ فحش ویب سائٹس کو دیکھنا ان میں سے ایک ہے۔ کسی مثبت مشغلے میں مصروفیت سے انسان ایسی عاداتِ بد سے محفوظ رہتا ہے۔ آٹھویں چیز سوچنے کا انداز ہے۔ کچھ لوگ ایک ہی چیز کو مختلف طرح سے سوچتے ہیں جبکہ کئی لوگ اسی کو منفی یا مایوس کن انداز میں دیکھتے ہیں‘ اسی لیے دونوں کو نتائج بھی مختلف حاصل ہوتے ہیں۔ جن کے سوچنے کا انداز مثبت ہو‘ ان کی زندگی مثبت نتائج سے بھرپور ہوتی ہے۔ نواں کام قرضوں اور غیر ضروری کریڈٹ اخراجات سے پرہیز ہے۔ کچھ لوگ کاروبار شروع کرتے وقت ظاہری ٹپ ٹاپ پر ضرورت سے زیادہ پیسے خرچ کر دیتے ہیں اور اس کے لیے بھاری قرض لیتے ہیں جس کی ادائیگی کا سوچ سوچ کر وہ مسلسل پریشان رہتے ہیں اور چلتا کاروبار گنوا بیٹھتے ہیں۔ اپنی ضروریات کو اپنی چادر میں سمونے کی کوشش کریں اور ضروریات اور نمود و نمائش میں فرق کرنا سیکھیں۔ دسویں احتیاط جو اس عمر میں نوجوانوں کو کرنی چاہیے وہ ناکام‘ منفی اور آوارہ صفت لوگوں کی صحبت ہے۔ آپ جن لوگوں کی صحبت میں بیٹھیں گے‘ جیسے دوست بنائیں گے‘ آپ خود بھی ویسے ہی بنیں گے۔ موبائل اور ٹی وی پر جس کو دیکھیں گے‘ وہی بول چال آپ بھی بولنے لگیں گے۔ اس عمر کے نوجوانوں کو زیادہ وقت تجربہ کار افراد کے ساتھ گزارنا چاہیے تاکہ وہ ان غلطیوں سے بچ جائیں جو عموماً اس عمر میں لوگ کر بیٹھتے ہیں۔
گیارہواں کام اس عمر کے لوگوں کو جو کرنا چاہیے وہ یہ کہ کم از کم ایک ہنر ایسا ضرور سیکھیں جو انہیں بہترین یا معقول آمدنی دے سکے۔ وہ اپنے سیکھے گئے ہنر کو اَپ ڈیٹ کر کے بھی اپنا معاوضہ بڑھا سکتے ہیں۔ بارہواں کام جدید سکلز کو سیکھنا ہے۔ روایتی تعلیم ایک حد تک ہی کام دیتی ہے‘ اس کے بعد جہاں وہ مؤثر نہیں رہتی ‘وہاں پر جدید سکلز کام آتی ہیں اور انسان کو آگے کی طرف دھکیلتی ہیں۔ کھڑا پانی کتنا ہی صاف ہو‘ وہ بھی ایک دن بدبو چھوڑنے لگتا ہے اس لیے کچھ نہ کچھ ارتعاش اور حرکت ضرور رکھیں۔
تیرہواں کام یا غلطی جو اس عمر میں بہت سے افراد کرتے ہیں وہ رشتہ داروں اور دوستوں پر اپنی دھاک بٹھانا ہے۔ فلاں نے مہنگے برانڈ کی گھڑی یا موبائل فون لے لیا تو اس کی دیکھا دیکھی آپ نے بھی لے لیا‘ چاہے آپ کو اس کی ضرورت تھی یا نہیں۔ یہ چھوٹی چھوٹی غلطیاں آگے جا کر زندگی کا وبال بن جاتی ہیں۔ چودھواں کام جو لازمی کرنا چاہیے وہ سفر ہے۔ چند دن کے کئی سفر ایسے تجربات ثابت ہوتے ہیں جن میں انسان اتنا کچھ سیکھ جاتا ہے کہ جتنا دو سال کی ڈگری میں بھی نہیں سیکھ سکتا۔ اس لیے اندرون و بیرون ملک‘ پیسوں کی بچت کر کے یا مواقع ملنے پر‘ سفر ضرور کرنا چاہیے۔ سفر کے تجربات زندگی بھر کام آتے ہیں۔ پندرہواں کام جو بیس سے تیس برس کی عمر کے درمیان نوجوانو ں کو ضرور کرنا چاہیے وہ خود کو مذہبی اور روحانی طور پر مضبوط بنانا ہے۔ خدا سے تعلق جتنا مضبوط ہو گا اور زندگی اور موت پر ایمان جتنا پختہ ہو گا‘ اتنا ہی انسان زندگی کے اس اہم عرصے میں آنے والی سختیوں اور آزمائشوں کا خندہ پیشانی سے مقابلہ کر سکے گا۔ مضبوط ایمان زندگی کی مشکلات کو ہنسی خوشی جھیلنے کی قوت فراہم کرتا ہے۔ جن کا ایمان مضبوط نہ ہو‘ وہ چھوٹی چھوٹی مشکلات سے گھبرا کر اپنے ہاتھوں اپنی زندگی کا خاتمہ تک کر لیتے ہیں‘ اس کے برعکس جو شروع ہی سے مذہبی اور روحانی طور پر پختہ ہوتے ہیں‘ وہ بڑے بڑے صدمات کو بھی آسانی سے جھیل لیتے ہیں۔
ایک شخص جو ساٹھ‘ ستر یا اسی برس زندگی کا سفر طے کر چکا ہو‘ اس کے تجربات نوجوان مسافروں کے لیے قیمتی نوادرات سے کم نہیں ہیں۔ آج کے دور میں جب وقت گولی کی رفتار سے گزر رہا ہے اور ایک سال کا عرصہ یوں گزر جاتا ہے جیسے ایک مہینہ گزرتا ہے‘ ایسے میں اگر ساٹھ‘ ستر سال کے تجربات اگر چند جملوں کی صورت میں میسر آ جائیں تو اس سے بڑی غنیمت اور خوش نصیبی اور کیا ہو سکتی ہے۔