میرا پیارا وطن پاکستان

مجھے یاد ہے کہ میرے بہت سے غیر مسلم دوستوں نے ستّر اور اسّی کی دہائی میں اپنے جائیدادیں فروخت کیں اور کینیڈا میں آباد ہو گئے۔ اس سے پہلے وہ پاکستان میں بھی خوشحال تھے لیکن اُنہیں اپنے وطن سے دور اس اجنبی اور سرد ملک میں نئی زندگی کا آغاز کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ اب کینیڈا ہی اُن کا گھر ہے۔ اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے ان افراد کو اپنے آبائی وطن کو چھوڑنے پر کس چیز نے مجبور کیا؟ کیا انہیں یہ خدشہ لاحق ہو رہا تھا کہ ضیا دور میں انتہا پسندی کی ابھرنے والی لہر ان کا جینا دوبھر کر دے گی؟ اُس وقت تک تو ایسے جنونی گروہ موجود نہ تھے جو غیر مسلموں کو کافر قرار دے کر قتل کرنے کے درپے ہوں۔ تاہم ضیاالحق کی سوچ عصبیت کے بیج بو رہی تھی۔ جلد ہی پاکستانی معاشرے میں ایک تبدیلی بپا ہو گئی اور فرقہ واریت، جس کی جڑیں ہمارے معاشرے میں پہلے سے ہی موجود تھیں، نے نوکیلے کانٹوں کی طرح جسد قومی کو لہولہان کرنا شروع کر دیا۔ اس کا ردعمل بھی ظاہر ہوا اور اس طرح پاکستان ایک طرح کی پراکسی جنگ کا میدان بن گیا۔ کسی نہ کسی روپ میں یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے اور ہر سال ہزاروں افراد اس کی بھیٹ چڑھ جاتے ہیں۔ 
آج احساس ہوتا ہے کہ وہ غیر مسلم، جو اس وطن کو چھوڑ کر چلے گئے، بہت دانا تھے کیونکہ طالبان اور انتہا پسند عناصر مختلف بہانوں سے عیسائیوں کی عبادت گاہوں کو نشانہ بناتے رہتے ہیں۔ جنونیوں کی طرف سے حالیہ دنوں میں پاکستان کی ہندو آبادی کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ لاڑکانہ میں ایک مندر پر حملہ کر کے اسے نذر آتش کر دیا گیا۔ الزام یہ تھا کہ کسی ہندو سے قرآن پاک کی بے حرمتی کا ارتکاب ہوا ہے۔ ایسی افواہیں ہمارے معاشرے میں وقتاً فوقتاً پھیلتی رہتی ہیں اور ان کی تصدیق کیے بغیر لوگ قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر تشدد پر اتر آتے ہیں۔ ایسے مواقع پر کوئی بھی الزامات کی تصدیق کی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔ آج شاید کسی کو بھی یاد نہیں کہ بانی پاکستان نے ہم سے کیا کہا تھا۔ کیا اُنہوں نے اقلیتوں کو ان کی عبادت گاہوں کے تحفظ کی یقین دہانی نہیں کرائی تھی؟ کیا اُنہیں یہ نہیں کہا گیا تھا کہ وہ اپنے عقیدے کے مطابق عبادت کرنے کے لیے آزاد ہیں؟ مگر آج اس ملک میں ہندو اپنے عقیدے کے مطابق ہولی کا تہوار بھی نہیں منا سکتے ہیں۔ 
ایک پاکستانی خاتون، جو ہجرت کر کے شمالی امریکہ میں آباد ہو گئی تھی، کا خط کئی ماہ سے ویب پر گردش میں ہے۔ اس خط میں وہ پاکستان کو مخاطب ہوتے ہوئے کہتی ہیں۔۔۔''گزشتہ سال، جب مجھے بتایا گیا کہ مجھے اپنا وطن چھوڑنا ہو گا تو مجھے ایسا لگا جیسے میرے دل پر کسی نے چھری چلا دی ہو۔ میرا بہت دل کر رہا تھا کہ میں زندگی کے کچھ مزید سال تمہارے (پاکستان) کے ساتھ بسر کروں۔۔۔ اگرچہ یہاں زندگی بہت مشکل ہے۔ میں تمہارے ساتھ اس لیے بھی رہنا چاہتی تھی کیونکہ تم پر ایک مشکل وقت ہے اور میں چاہتی تھی کہ ان مشکلات سے نکالنے میں تمہاری مدد کروں۔ اے میرے پیارے وطن، تمہیں مدد کی سخت ضرورت ہے؛ تاہم ایسا محسوس ہوتا ہے کہ قسمت کو یہ منظور نہیں۔ اب میرے سامنے زندگی کی راہ مختلف سمت کو رواں ہے۔ ایک بات یقینی ہے کہ تم ایک عظیم ملک بن سکتے تھے کیونکہ تم بہت باصلاحیت افراد رکھتے ہو، بہت سے ذہین اور محنتی افراد تمہاری فضائوں میں سانس لیتے ہیں۔ آج وہ خواب چکنا چور ہو چکا ہے جو ہمارے آبائواجداد نے دیکھا تھا، آج چراغوں میں روشنی گل ہو چکی ہے، یہ ہم کس آسیب زدہ جنگل میں آ گئے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ تم غلط افراد سے امیدیں وابستہ کر بیٹھے کیونکہ ہم شاید اتنے شاندار وطن کے اہل نہ تھے، شاید ہم آزادی کے ہی قابل نہ تھے۔ ہم نے تمہارا حلیہ خراب کر دیا۔ بہت سے دوسروں کی طرح میں بھی اس خرابی میں برابر کی شریک ہوں، ہم سب قصوروار ہیں کیونکہ ہم نے خاموشی سے تمہیں زوال کے راستے پر چلتے دیکھا لیکن مداوا نہ کیا۔ آج تمہاری فضائوں میں تشدد اور ظلم کے بادل چھائے ہوئے ہیں۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا کیونکہ تمہارا کردار کچھ اور تھا۔ تم نے علاقے کے لیے روشنی اور ترقی کی علامت بننا تھا لیکن تم پر اندھیرے کی طاقتوں نے قبضہ جما لیا۔ افسوس کی بات یہ کہ ضیا دور میں یہ ظلمت زیادہ پھیلی۔ بہت سی اقلیتیں، جنہوں نے آزاد ی کے وقت بھارت جانے کی بجائے یہاں ٹھہرنا بہتر سمجھا تھا، آج وہ اپنے فیصلے پر پچھتاتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔ آج اُنہیں احساس ہوتا ہے کہ ان کا کوئی ملک نہیں ہے۔ ان میں سے بہت سے اچھے اور مہذب ممالک کی طرف ہجرت کر رہے ہیں اور آنے والے عشروں میں مزید بھی ایسا کرنے پر مجبور ہو جائیںگے۔ صرف وہی نہیں، ہزاروں تعلیم یافتہ اور لبرل مسلمان بھی یہاں نہیں رہ سکتے۔ وہ بھی دیار غیر میں قسمت آزمائی کر رہے ہیں۔ اب تم ہی بتائو کہ تمہارے ساتھ کون رہ سکے گا؟‘‘
خط طویل ہے لیکن قارئین‘ اسے نیٹ پر پڑھ سکتے ہیں، نہ بھی پڑھیں تو بھی وہ جانتے ہیں کہ اس خاتوں نے کیا کہا ہو گا۔ اس وطن کا حال سب پر ظاہر ہے؛ تاہم کیا ہم مایوسی کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوب جائیں کہ اب کچھ نہیں ہو سکتا؟ ہرگز نہیں۔ گھٹا ٹوپ اندھیرے میں ہی روشنی کی کرن واضح دکھائی دیتی ہے۔ دراصل قسمت ہمیں ایک فیصلہ کن موڑ پر لے آئی ہے۔ انتہا پسندی بہت دیر سے ہمارے معاشرے کا ایک مسئلہ تھی، لیکن اس پر بات نہیں کی جا سکتی تھی۔ آج یہ مسئلہ قومی سطح پر زیر ِ بحث لایا جا رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ انتہا پسند عناصر کے کردار پر بھی بات کی جا رہی ہے۔ کیا چند سال پہلے یہ ممکن تھا؟ میرا خیال ہے کہ اب تقدیس کے لبادے چاک ہونے والے ہیں اور بہت جلد تمام عام انسان ایک صف میں کھڑے ہو کر اپنے اپنے اعمال نامے اپنے ہاتھ میں تھامنے والے ہیں۔ چنانچہ عام پاکستانیوں کے لیے خوشی کا لمحہ آنے والا ہے۔ بہت سے نیک نام برسر ِ الزام آنے والے ہیں اور اب بہت سے موضوعات پر بات کی جائے گی جن پر ماضی میں بات کرتے ہوئے زبان کٹتی تھی۔ درحقیقت ہم ابتلا کی بھٹی میں ڈالے گئے ہیں اور اس بھٹی کی تمازت ہماری منافقت کو جلا رہی ہے۔ تپش بہت زیادہ ہے لیکن برداشت کر لیں، بہت جلد یہ وطن کندن بننے والا ہے۔ بہت سی باتوںکی اس وقت وضاحت نہیں کی جا سکتی لیکن خاطر جمع رکھیں... ع 
دیکھیں گے تجھے دور سے گردوں کے ستارے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں