علم کی شمع سے ہو مجھ کو محبت یارب ،کی روز دعائیں مانگنے والے بچوں کوخون میں نہلا دینے کے سانحہ نے بہت سے معاملات کی جہت بدل دی ہے۔سانحہ پشاور کے بعدجسد سیاست میں یہ خیال زور پکڑتاجا رہا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جہاد ہمارااپنا مسئلہ اور اپنی ہی بقاکی جنگ ہے ۔وہ لوگ جو کل تک یہ کہتے نہیں تھکتے تھے کہ ہمارے ملک میں انتہا پسندی کار جحان بڑھنے کی بنیاد ی وجہ ہماری حکومتوں کی امریکہ نواز پالیسیاں ہیں ،نیز دہشت گردی کی کارروائیاں ''را‘‘ اور ''خاد‘‘ کی ریشہ دوانیوں کا شاخسانہ ہیں‘ آج اپنی سوچ پر نظر ثانی کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔اس ضمن میں میڈیا کے ایک حصے نے بھی کردار ادا کیا ، حال تو یہ ہے کہ ایک نجی ٹی وی چینل نے پاکستان کے ''نائن الیون‘‘ کے بعد بھی لال مسجد کے بزعم خود خطیب مولانا عبدالعزیز کاایسا انٹرویو نشر کیا جس نے قوم کے زخموں پر نمک پاشی کا کردار ادا کیا ۔ قومی مباحث بدلنے کا اس سے بڑا اور ثبوت کیا ہو سکتا ہے کہ اب عمران خان اور ان کی پرجوش امریکہ مخالف ترجمان محترمہ شیریں مزاری بھی طالبان کی مذمت کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں ۔بعض تجزیہ کار خان صاحب کے پرانے ٹیلی وژن کلپ چلا کر ان کا منہ چڑانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ تو مذہب کے نام پر انتہا پسندی کرنے والوں کے زبردست حامی تھے اور ان سے مذاکرات کی دہائی دیتے نہیں تھکتے تھے۔یہ بات کسی حد تک درست بھی ہے ، تو بھی اگر تحریک انصاف کے رہنما نے بعداز خرابی بسیارہی سہی اپنا رویہ بدل لیا ہے تواس بات کی مذمت کرنے کے بجائے اسے سراہنا چاہیے ۔خان صاحب نے جس انداز سے سانحہ پشاور کے اگلے روزوزیراعظم میاں نواز شریف کی دعوت پر لبیک کہا او رپھر اپنے دھرنے کے خا تمے کا اعلان کر دیا‘ اسے مدبرانہ فیصلہ کہنا غلط نہ ہو گا ۔ مقام شکر ہے کہ حکومتی ٹیم نے بھی ان کے اس مثبت رویے کا کھلے دل سے اعتراف کیا اور ان کے مطالبات پرصاد کیا ۔اس رویے کے ملکی سیاست پر انتہائی مثبت اثرات مرتب ہو ںگے اور وہ محاذ آرائی جو گزشتہ چند ماہ سے سسٹم کے لیے خطرہ بنی ہو ئی تھی ،فی الحال ٹل گئی ہے۔حکومت اور تحریک انصاف کے مابین 2013ء کے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کی تحقیقات کے لیے سپریم جو ڈیشل کمیشن کی تشکیل کامعاہدہ قریباًطے پاگیا ہے۔
وزیر داخلہ چوہدری نثا ر علی خان بھی راہ راست پر آگئے ہیں ۔ان تک یہ خبرپہنچ گئی ہے کہ ہم حالت جنگ میںہیں اور دشمن باہر نہیں ،اندر ہے۔انھوں نے قوم سے یہ اپیل بھی کی ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فوج کا ساتھ دے۔یہ وہی چوہدری صاحب ہیں جو کل تک طالبان سے مذاکرات کے اتنے پر جوش حامی تھے کہ وہ ان پر ڈرون حملوں کو امن کی کوششوں پر حملہ قرار دیتے تھے۔بہرحال اگر چوہدری نثار نے اپنا قبلہ درست کر لیا ہے تو اصولی طورپر اس کابھی خیرمقدم کر نا چاہیے ۔لیکن چوہدری صاحب محض سیاستدان ہی نہیں وزیرداخلہ بھی ہیں اور اس حوالے سے ان کی وزارت کی کارکردگی بھی کوئی قابل فخر نہیں رہی۔وہ میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کے لاڈلے ہیں اور ایک ذمہ دار سیاست دان کے بجائے بالکل بگڑے ہو ئے بچوں کی طرح رویہ اختیار کرتے ہیں۔با بار ''رُس‘‘ کر گھر بیٹھ جاتے ہیں لیکن استعفیٰ بھی نہیں دیتے۔ ان کی اس اناپسندی کی وجہ سے آج تک نیکٹا(NACTA) یعنی دہشت گردی کے انسداد کی اتھارٹی جس کے ساتھ ایک مربوط انسداد دہشت گردی پالیسی بھی بننا تھی‘ ابھی تک کا غذی کارروائی سے آگے نہیں بڑھ سکی ۔بعض با خبر حلقوں کا کہنا ہے کہ اس ادارے کی بیل اس بناء پر منڈھے نہیں چڑھ سکی کہ فوج کے ایک حلقے میں یہ احساس پایا جاتا تھا کہ آئی ایس آئی اور ایم آئی کو وزارت داخلہ کے ماتحت کیونکر کر دیا جائے۔ بعدازاں فیصلہ ہوا کہ مجوزہ ادارہ وزیراعظم نواز شریف کے زیرنگرانی ہو گا نہ کہ وزارت داخلہ کے ۔اور یہ شاید چوہدری صاحب کے لیے قابل قبول نہیں تھا لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ حکومت نے رواں مالی سال کے بجٹ میں نیکٹا کے لیے مانگی گئی رقم ہی مختص نہیں کی ۔
دراصل رویوں میں اس تبدیلی کا کریڈٹ اگر کسی ایک شخص کوجاتا ہے تو وہ فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف ہیں۔ وہ ایک منجھے ہو ئے پروفیشنل سولجر کی طرح لگی لپٹی رکھے بغیر بات کرنے کے عادی ہیں ۔دہشت گردی کے خلاف آپریشن ''ضرب عضب‘‘ کو پاکستان کی جنگ انھوںنے قرار دیا اور یہ آپریشن شروع کرنے کا سٹرٹیجک فیصلہ کرنے کے باوجود انھوں نے طالبان نواز حکومت اور سیاستدانوں کوموقع دیا کہ وہ دہشت گردوں سے مذاکرات کا ''شوق فضول‘‘ پورا کرلیں ۔بعدازاں وزیراعظم نواز شریف کے پاس کو ئی چارہ کار نہ رہا تو انھوں نے آپریشن کی حمایت کر دی۔لیکن اس آپریشن میں تاخیر کی ساری ذمہ داری صرف سیاستدانوں پر ڈالنا بھی درست نہ ہو گا ۔جنرل راحیل شریف کے پیش رو جنرل(ر) اشفاق پرویز کیا نی کسی قیمت پر بھی طالبان کے خلاف کارروائی کرنے کے حق میں نہیں تھے ۔وہ کہتے تھے کہ اگر ایسا آپریشن کیا گیا تو اس کے ردعمل کے طور پر طالبان پورے پاکستان کو خون میں نہلا دیں گے۔امریکہ جب ان سے ''ڈومور‘‘ کی بات کرتاتو وہ فرماتے تھے کہ آپ کے پاس گھڑیاں ہیں لیکن طالبان کے پاس وقت ہے ۔ ہمیں آپریشن کرنے کا نہ کہیں کیونکہ طالبان ہمارے ہمسائے ہیں۔"We cannot wish away our neighbours"کیانی صاحب جو خود کو ایک دانشور جرنیل کے طور پر پیش کرتے تھے‘ ان کی سوچ دراصل افواج پاکستان کے مخصوص اور روایتی سٹر ٹیجک پیراڈائیم کے عین مطابق تھی ۔ جس کے تحت افغانستان ہماری ''سٹر ٹیجک ڈیپتھ‘‘ ہے۔ اس کے برعکس جنرل راحیل شریف کی حالیہ واشنگٹن یا ترا اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ وہ امریکہ سے بلا وجہ پنگا لینے کے قائل نہیں ۔یہ وقت ہی بتا ئے گا کہ فوج نے اپنے سٹر ٹیجک ڈاکٹر ائن میں کوئی تبدیلی کی ہے یا نہیں اور اس کا ایک ٹیسٹ بھارت سے تعلقا ت ہے۔
وزیراعظم کے مشیر خا رجہ و سلامتی امور سرتاج عزیز نے برملا یہ دعویٰ کیاہے کہ پشاور کے حملے میں ''را‘‘ ملوث نہیں ہے۔ اس طرح ممبئی حملے کے مبینہ ماسٹر مائنڈ ذکی الرحمن لکھوی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت سے ضمانت منظور ہو نے کے بعد بھارت نے بے جاہاہا کار مچائی۔حالانکہ حکومت نے اس فیصلے کے خلاف نہ صرف اعلیٰ عدلیہ میں اپیل کرنے کا فیصلہ کیا بلکہ اسے ایم پی او کے تحت نظر بند بھی کر دیا ۔بھارت میں حکومتی اور سوسائٹی کی سطح پر سانحہ پشاور کی بھرپور مذمت کی گئی۔ اس تبدیل شدہ ماحول میںامید پیدا ہو گئی ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات شروع ہوسکتے ہیں ۔بھارت کی انتہا پسند حکومت کو بھی اپنے عمل سے یہ ثابت کرنا پڑے گا کہ وہ واقعی یہ چا ہتی ہے کہ افواج پاکستان یکسوئی سے دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑیں کیو نکہ یہی اس کے بھی مفاد میں ہے ۔جہاں تک ہمارے سیاستدانوں کا تعلق ہے انھیں بھی اپنے عمل سے یہ ثا بت کرنا پڑے گا کہ وہ حقیقی معنوں میں اس بات کے اہل ہیں کہ وطن عزیز میں نہ صرف دہشت گردی کے خلاف جنگ بلکہ ذہنوں کی تبدیلی کے خلاف جنگ کی بھی اونر شپ لے کر قائدانہ صلاحیتوں کامظاہرہ کریں۔ اس ضمن میں پارلیمانی لیڈروں کی قائم کر د ہ انسداد دہشت گردی سے متعلق کمیٹی کے ورکنگ گروپ نے 14گھنٹے کے طویل اجلاس کے بعد کچھ سفارشات مرتب کی ہیں، کمیٹی نے ورکنگ گروپ کی سفارشات پر غور وخوض شروع کر دیا ہے ۔ امید ہے کہ یہ نتیجہ خیز ثا بت ہوں گی۔ وزیراعظم نوازشریف نے بھی دہشت گردوں کے خلاف بلا تخصیص کارروائی کے مصمم ارادے کا اظہار کیا ہے لیکن ماضی کا ریکارڈ دیکھا جائے تو ان تلوں میں تیل نہیں دکھتا۔