26 روز بعد پیر کو وہ تعلیمی ادارے‘ جو پشاور کے اندوہناک سانحے اور مابعد سکیورٹی خدشات کی بناء پر بند تھے‘ جزوی طور پر کھل گئے۔ پشاور میں آرمی پبلک سکول خصوصی طور پر دہشت گردوں کا نشانہ بنا‘ وہاں چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف اور ان کی اہلیہ محترمہ نے بنفس نفیس بچوں کا خیر مقدم کیا اور ان کے حوصلے بڑھائے۔ کاش اسی قسم کا خیر مقدم وزیر اعظم وفاقی دارالحکومت اور وزرائے اعلیٰ بھی اپنے اپنے صوبوں میں کرتے۔ اس سے یقینا ان والدین کے‘ جو اپنے بچوں کو تمام تر خطرات کے باوجود سکول بھیج رہے ہیں‘ حوصلے بلند ہو جاتے، لیکن شاید کسی کو اس بات کا خیال ہی نہیں آیا۔ دوسری طرف فرانس میں گستاخانہ خاکے چھاپنے والے اخبار کے دفتر پر حملے اور اس کے نتیجے میں بارہ افراد کی ہلاکت کے بعد جو کچھ ہوا اور اس کے ساتھ ساتھ فرانسیسی شہریوں کو یرغمال بنانے کے دیگر واقعات کے خلاف پندرہ لاکھ افراد پیرس کی سڑکوں پر نکل آئے۔ اس مارچ میں فرانسیسی صدر کے علاوہ برطانوی وزیر اعظم، فلسطینی صدر، اسرائیلی وزیر اعظم سمیت کئی ملکوں کے سربراہان مملکت و حکومت نے شرکت کی۔ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو بن بلائے ہی وہاں پہنچ گئے اور سارا شو ہائی جیک کر نے کی سعیء لاحاصل کی۔ اس تضاد کو پاکستانیوں نے بری طرح محسوس کیا کہ ہم کئی برس سے دہشت گردی کا شکار ہیں، ہزاروں فوجی اور سویلین اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر چکے ہیں‘ لیکن ہمارے زخموں پر کسی نے مرہم رکھنا گوارا نہیںکیا؛ تاہم پشاور کا اندوہناک سانحہ دہشت گردی کے شکار اس ملک اور قوم کیلئے The last straw that broke the camel's back ثابت ہوا جس پر وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے اگلے روز ہی آل پارٹیز کانفرنس بلا لی۔ نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم سٹریٹجی اور فوجی عدالتوں کے قیام پر طوعاً کرہاً اتفاق رائے بھی ہو گیا‘ اس کے باوجود سیاسی رہنما اور نہ ہی قوم اس طرح کی یک جہتی کا مظاہرہ کر سکی جس کی اشد ضرورت تھی۔ دہشت گردی کے عفریت کے خلاف لاکھوں تو کیا ہزاروں کا مظاہرہ بھی نہیں کیا جا سکا۔ خان صاحب اور ان کے حواری‘ جو دھاندلی کے نام پر بزعم خود کئی ملین مارچ کر چکے ہیں، اس معاملے میں منہ میں گھنگنیاں ڈال کر بیٹھے رہے۔ باخبر لوگوں کو معلوم تھا کہ وہ تو دلہا میاں بننے کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔
سکول تو کھل گئے ہیں‘ لیکن ان میں پڑھائے جانے والے نصاب اور ہمارے سیاسی رہنماؤں بالخصوص حکمران جماعت کی جہت میںکوئی تبدیلی نہیں آئی۔ حکومت کی طرف سے یہ اشارے دیے جا رہے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف سینہ سپر ہونے کے لیے ایک نئی نظریاتی اساس کی ضرورت ہے۔ حکمران جماعت قائد اعظم کی مسلم لیگ کا جانشین ہونے کی دعوے دار ہے۔ اگرچہ اس طرح پاکستان میں کئی جماعتیں قائد اعظم کی مسلم لیگ ہونے کا دعویٰ کرتی ہیں‘ لیکن حکومتی جماعت ہی بڑی دعوے دار ہے۔ قومی مباحث بدلنے کی جتنی ضرورت آج ہے شاید پہلے کبھی نہ تھی اور اس ضمن میں اگر وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کوئی حکمت عملی اختیار کر رہے ہیں تو یہ بہت اچھا قدم ہو گا‘ لیکن اس حوالے سے صحیح سمت متعین کرنے کے ساتھ ساتھ اس پر عمل درآمد کرانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہو گا‘ کیونکہ سالہا سال سے نواز شریف کی مسلم لیگ اسی قنوطیت پسندی کا مظاہرہ کرتی آ رہی ہے‘ جو جماعت اسلامی سمیت ملک کی کئی سیاسی جماعتوں کا طرہ امتیاز رہا ہے۔ اس حوالے سے اہل دانش اور اہل قلم حضرات کے ایک مخصوص لیکن موثر ٹولے نے بھی کوئی اچھا رول ادا نہیں کیا۔ کسی شخص نے کبھی علامہ اقبالؒ کے افکار اور قائد اعظمؒ کی تعلیمات پر جدید دور کے تقاضوں کے مطابق عمل درآمد کی سعی کی تو یہ طبقہ پنجے جھاڑ کر اس کے پیچھے پڑ گیا۔ اسے لبرل، سیکولر، بائیں بازو اور نہ جانے کیا کیا القابات سے نوازا جاتا رہا۔ ان نام نہاد دانشوروںکے نزدیک جیو اور جینے دو، اقلیتوں کو برابر کے حقوق اور مذہبی رواداری کا سبق دینے والے خواتین و حضرات پاکستان کی بنیادی اساس کے ہی خلاف ہیں۔ یہاں اگر کوئی یہ بات کرے کہ قائد اعظمؒ نے 11 اگست 1947ء کی دستور ساز اسمبلی کی تقریر میں جیو اور جینے دو اور اقلیتوں کے لیے مساوی حقوق کی بات کی تھی تو یہ لوگ چڑ جاتے ہیں اور عجیب عجیب تاویلات کے ذریعے قائد اعظم محمد علی جناحؒ کو مولانا قائد اعظم بنانے کی کوششیں شروع کر دیتے ہیں۔
معروف صحافی زیڈ اے سلہری مرحوم کو قائد اعظمؒ کے ساتھ کام کرنے کا شرف حاصل تھا۔ وہ جنرل ضیاالحق کے بھی قریب رہے۔ اس دور میں انھوں نے پاکستان ٹائمز کی ایڈیٹری کی اور آخری عمر میں جماعت اسلامی کے بھی قریب ہو گئے تھے۔ اسلامی آمر کے دور میں جب اسمبلی بحال ہوئی تو ایک تجویز پر کہا گیا کہ اسمبلی ہال میں قائد اعظم ؒ کی سوٹ میں لگی ہوئی پینٹنگ کو اچکن پہنا دی جائے تو سلہری صاحب سے نہ رہا گیا۔ وہ خود بھی قائد کی طرح خاصے خوش پوشاک تھے۔ انھوں نے پاکستان ٹائمز میں ایک مضمون رقم کیا‘ جس کا عنوان تھا: Paint the Quaid as he is۔
بالکل اسی طرح آج ضرورت اس امر کی ہے کہ قائدکے اصل پیغام‘ جسے بعض مذہبی جماعتوں اور ان کے حواریوں نے اپنے مخصوص مقاصد کے لیے مسخ کر کے رکھ دیا ہے، کا اس کی اصل روح کے مطابق احیا کیا جائے۔ اس ضمن میں مسلم لیگ (ن) کی صفوں میں بیٹھے پورس کے ہاتھی شاید ایسا نہ ہونے دیں اور یہی حکمران جماعت کا اصل امتحان ہے۔ ایسے کاموں کے لیے تھنک ٹینکوں کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ حکومت پاکستان کے پاس نظریہ پاکستان ٹرسٹ ہے‘ جو محترم مجید نظامی مرحوم کی کاوشوں سے بنا اور جس کا مقصد ہی نظریہ پاکستان کا فروغ تھا‘ لیکن بدقسمتی سے اس کے موجودہ سربراہ ایک ایسی سر برآوردہ شخصیت ہیں‘ جو مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری کے مداح ہیں، جن کی مجلس احرار نے جناح کو پاکستان بنانے کی جدوجہد کے دوران کبھی معاف نہیں کیا بلکہ مطعون کیے رکھا۔ لیکن نظریہ پاکستان ٹرسٹ‘ جو اربوں روپے کی لاگت سے تعمیر ہوا، کے نزدیک روز اول سے محض ہندو سے نفرت کرنا ہی قیام پاکستان کا مقصد ہے، اس ادارے میں چند اچھے لوگوں کو چھوڑ کر اکثریت ایسے حضرات کی ہے جو وہاں بیٹھ کر محض اپنا الو سیدھا کر رہے ہیں۔ اس ادارے کو تو قائد اعظمؒ اور علامہ اقبالؒ کے حوالے سے پاکستان کے نظریے کے تمام پہلوؤں کو اجاگر کر نا چاہیے تھا۔ بانیان پاکستان کے افکار سے بلا کم و کاست استفادہ کیا جائے تو ان میں جدید ریاست کے قیام، جمہوریت، اقتصادیات، خارجہ پالیسی حتیٰ کہ سکیورٹی پالیسی کے بارے میں بھی بہت کچھ مل سکتا ہے۔ اصل چیلنج ان پر عمل درآمد کر نے کا ہے۔ یقینا پاکستان ایک اسلامی‘ جمہوری اور وفاقی مملکت ہے جیسا کہ بانیٔ نوائے وقت حمید نظامی مرحوم‘ مولانا مودودی مرحوم کے ملک کے ریاستی ڈھانچے کے بارے میں استدلال کے حوالے سے اپنے اداریوں میں لکھا کرتے تھے کہ پاکستان کوپاپائیت نہیں بنایا جا سکتا لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ بعض نام نہاد دانشور قائد کی تقریروں کے سیاق و سباق سے ہٹ کر حوالے دے کر اسی کام پر لگے ہو ئے ہیں‘ حالانکہ سب کو علم ہے کہ قائد ایک جدید مملکت کے ایک جدید معمار تھے۔
جب سے فوجی عدالتیں بنی ہیں اور جنرل راحیل شریف نے دہشت گردی کے خلاف دوٹوک موقف اختیار کیا ہے، حکومت نے بھی اس جدوجہد کی اونرشپ لے لی ہے۔ بعض حلقے یہ کہہ رہے ہیں کہ ملک میں ''سافٹ کو‘‘ (نرم انقلاب) ہو چکا ہے۔ دوسرے لفظوں میں فوج نے باقاعدہ اقتدار پر قبضہ کرنے کے بجائے عملی طور پر خود کو حاوی کر لیا ہے۔ اب یہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کا امتحان ہے کہ وہ پاکستان کی اصل روح کا احیا کرکے اس تاثر کو زائل کرے۔