"ANC" (space) message & send to 7575

طرز حکمرانی بدلیں!

وزیر اعظم میاں نواز شریف کا دعویٰ ہے کہ پٹرول کی قلت کے بدترین بحران کے ذمہ داروں سے کو ئی رعایت نہیں برتی جا ئے گی ۔حالانکہ گز شتہ روز اس ضمن میں بلائے گئے اعلیٰ سطح کے ہنگا می اجلاس میں ذمہ داران تو اجلاس میں ہی موجود تھے۔ایسے معاملات میںذمہ داری کا تعین اعلیٰ سیاسی سطح پر ہی ہو تا ہے نہ کہ تین چار افسروں کا دھڑن تختہ کر کے، لیکن بد قسمتی سے ہمارے جسد سیاست میں اس اعلیٰ وارفع جمہو ری روایت کا یکسر فقدان پا یا جاتا ہے ۔اجلاس میں وزیر پٹرولیم شاہد خاقان عباسی صاحب فرماتے ہیں کہ میں کیوں استعفیٰ دوں جبکہ میں قصوروار ہی نہیں اور اگر مجھے حکومت مجرم قرار دیتی ہے تو میں استعفیٰ دے دوں گا ۔دوسری طرف وزیر خزانہ محترم اسحق ڈار‘ جو عملی طور پر ڈپٹی پرائم منسٹر بھی ہیں‘ کا فرمان ہے کہ وزارت خزانہ کا اس بحران سے کو ئی تعلق نہیں اور بھر پور تحقیقات کے بعد فیصلہ ہو گا کہ بحران کا ذمہ دار کون ہے تا ہم انھوں نے سا را ملبہ نیم سرکاری پاکستان سٹیٹ آئل اور نجی آئل کمپنیوں پر ڈالتے ہو ئے کہا کہ تیل کا کم از کم سٹاک رکھنا ان کی کلیدی ذمہ داری ہے ۔محترم ڈار صاحب اس سوال کا جواب تو گول ہی کرگئے کہ پی ایس او اور آئی پی پیز کے ذمے واجب الادا رقوم اور ایڈہاک مینجمنٹ کی وجہ سے دیوالیہ ہو چکی ہے اور کو ئی ملکی یا غیر ملکی بینک اس کی ایل سی لینے کو بھی تیار نہیں ۔محترم ڈا ر صاحب نہ صرف وزیراعظم میاں نواز شریف کے سمدھی ہیں بلکہ ان کے دیرینہ دست راست بھی ہیں۔محنت شاقہ ان کا ماٹوہے لیکن ان کی یہ کمزوری ہے کہ وہ اپنے معاملات میں مداخلت قطعاً بر داشت نہیں کرتے اور میا ں صاحب سے اپنا موقف منوانے کی استطا عت بھی رکھتے ہیں۔باخبر لو گوں کا کہناہے کہ وہ بجٹ میں آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت اپنے مالی ذخا ئر کوزیا دہ سے زیا دہ رکھتے ہیں ۔اسی بنا ء پر گردشی قر ضے کے گہرے سائے نے پاکستانی معیشت کو مفلوج کر کے رکھ دیا ہے ۔لیکن ڈار صاحب کا اصرار ہے کہ تیل کا بحران حکومت کے خلاف ایک بہت بڑی سازش ہے کیا وہ بھی اس ''سازش کے ذمہ دار‘‘ وزیر اطلا عا ت پرویز رشید کی طرح عمران خان کے حالیہ دھرنے کو قرار دیں گے۔
جہاں تک محترم شاہد خا قان عباسی کا تعلق ہے ،ان کا شمار مسلم لیگ (ن) کے نسبتاًسلجھے ہو ئے وزیروں میں ہو تا ہے۔ انھیںتو آئیں بائیں شائیں کر نے کے بجائے اپنی ذمہ داری تسلیم کرتے ہو ئے وزارت پٹرولیم سے از خود ہی سبکدوش ہو جانا چاہیے اور اپنی نجی ائیر لا ئن چلانے کی طرف بھرپور تو جہ دینی چاہیے۔ ڈار صاحب اور شاہد خاقان خان عباسی کے بقول ابھی ذمہ داروں کا تعین ہی نہیں ہو سکا تو وزارت پٹرولیم کے غریب افسروں کو کس پاداش میں معطل کیا گیا ہے ۔
بعض مبصرین کے مطابق موجودہ بحران کی بنیا د ی وجہ شریف برادران کی ایڈ ہاک ازم پر مبنی پالیسیا ں اور اپنے منظور نظر قریبی ساتھیوں کے ذریعے حکومت چلانے کا انداز ہے۔بعض پیارے وزراء، قریبی عزیز اور چہیتے بیورو کریٹس کے ذریعے ہی معاملات چلا ئے جارہے ہیں ۔ چہیتے بیورو کریٹس کا اثر ونفوذ اتنا زیا دہ ہے کہ ایک انگریز ی روزنامے کے صفحہ اول کی خبر کے مطابق بعض وزیر جو بظا ہر بڑے طاقتور لگتے ہیں ان کے ہا تھ میں کچھ نہیں ہے اور انھیں ذاتی سٹاف بدلنے کے لیے بھی وزیراعظم ہا ؤس کی منظوری چاہیے ہو تی ہے۔میاں شہباز شریف جب وزیر اعلیٰ پنجاب ہونے کے باوجود وفاق میںپیپلز پارٹی کی حکومت کی اپوزیشن کر رہے تھے تو وہ حبیب جالب کا کلام گنگناتے ہو ئے یہ فرماتے تھے کہ مسلم لیگ(ن) آئندہ انتخابات میںمرکز میں بھی حکومت بنانے کے بعد ایک صاف ستھری اور حسن کارکردگی دکھانے والی حکومت دے گی اور میںزربابا وچالیس چوروں کو لاہور کی سڑکوںپر گھسیٹوں گا۔ لیکن ہوا اس کے بالکل برعکس ۔تیل کے موجودہ بحران کی سنگینی کی پاکستان کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی اور یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہو گا کہ بجلی اور گیس کے بحران بھی موجودہ دور میں سنگین تر ہو گئے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ دنیا میں تیل کی قیمت ساٹھ فیصد تک گر چکی ہے۔ بین الاقوامی مانگ نسبتاً کم ہونے کے ساتھ امریکہ کے اپنی تیل کی پیداوار بڑھانے نیز روس اور اوپیک کے رکن ممالک کی جانب سے ترسیل نہ گھٹانے کی بناء پر تیل عالمی منڈی میں وافر مقدارمیں دستیاب ہے ۔غالباً سستے تیل کے حصول کے لالچ میںکم از کم سٹاک بھی نہیں رکھا گیا ۔اس صورتحال میں یہ بات واضح ہو گئی ہے حکمران جماعت نے ابتدائی غلطیوںکے بعد سیاسی طور پر تو اصلاح احوال پر تو جہ دی لیکن گورننس کے معاملات بدستور دگرگوں ہیں ۔ٹرائیکا کے تیسرے شریف یعنی جنرل راحیل شریف کے ہو تے ہو ئے پاک فوج نے سرحدوں کے علاوہ اندرونی سکیورٹی کی بھی ذمہ داریاں سنبھالی ہوئی ہیں۔ ملٹری کو رٹس بھی معرض وجود میں آچکی ہیں ۔اس صورت میں اگر حکومت گورننس کے مسائل سے بھی بخوبی عہدہ برآ نہیں ہو سکتی تو لو گ یہ سوچنے پر مجبور ہو سکتے ہیں کہ آخر وہ کس مر ض کی دوا ہے ۔حکومت تمام خرابیوں کی جڑ پیپلز پارٹی کو قرار نہیں دے سکتی کیو نکہ یہ جماعت تو اپوزیشن میں ہونے کے باوجود عملی طورپر حکومت کی حلیف بن چکی ہے ،ویسے بھی اب حکومت کو آئے ہو ئے ڈیڑھ برس سے زیادہ عرصہ گز ر چکا ہے لیکن تا حال پی ایس او سمیت پبلک سیکٹر میں اکثر اداروں کے سربراہ اور بورڈ ایڈہاک بنیادوں پر کام کررہے ہیں۔ سٹیل ملز جیسے ادارے مسلسل خسارے میں جانے کی بناء پر پاکستان کے عوام کا خون چوس رہے ہیںلیکن ان اور دیگر اداروں کی تطہیر کرنے یا پرائیویٹائز کرنے کے بجائے انھیں منظور نظر افراد سے بھر دیا گیا ہے۔
بجلی کا بحران مہینوں میں حل کرنے کا عندیہ دیا جاتا تھا۔ اب سالوں کی بات ہو رہی ہے۔ وزارت پانی وبجلی ایک ایسی زلف ہے جس کے کئی اسیر ہیں ۔ وزیر اعظم میاں نواز شریف اور وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف اس کے معاملات میں براہ راست دلچسپی لیتے ہیں۔وزیر اعظم میاں نواز شریف کے منظور نظر خواجہ آصف اس کے وزیر اور قریبی عزیز عابد شیر علی وزیر مملکت ہیں ۔اس پر مستزادیہ کہ انتخابات کرانے والی نگران حکومت کے وزیر پانی وبجلی مصدق ملک اسی وزارت کے مشیر ہیں ۔اتنے ملاؤں میںپاور سیکٹر کی مرغی حرام ہوئی ہے۔وقت آ گیا ہے کہ میاں صاحب بعض اصولی فیصلے کرلیں ۔اولین فیصلہ نہ صرف تیل کے بحران کے سیاسی طور پر ذمہ دار وزراء کی سبکدوشی ہو نا چاہیے بلکہ جیسا کہ عمران خان کے دھرنوںکے دباؤ میں آ کر وزیر اعظم میاں نواز شریف نے کہا تھا کہ مختلف وزارتوں کی کا رکر دگی کا آ ڈٹ کیا جا ئے گا‘ اس کے بعد کا بینہ میں ردوبدل ہو گا۔ اب خالی ردوبدل سے نہیں بلکہ حکمرانی کے انداز میںتبدیلی ،مزید وقت ضا ئع کیے بغیر کر نی ہو گی کیونکہ پانی سر سے گز ر رہا ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں