امریکی صدر بارک اوباما بڑی دھوم دھام لیکن سخت ترین سکیورٹی کے حصار میں آج بھارت کے یوم جمہو ریہ کی تقریبات میں شر کت کر رہے ہیں ۔ یہ صدراوباماکی گزشتہ چھ سال کے دوران دوسری مر تبہ بھارت یاترا ہے۔اس سے قبل کو ئی بھی امریکی صدر اپنی ٹرم میں دو مرتبہ بھارت نہیں گیا ۔یہ امر امریکہ اور بھارت کے درمیان نئے پنپنے والے تعلقات کے ہنی مون کی غمازی کرتا ہے ۔امریکی ترجمان لاکھ کہیں کہ واشنگٹن کے نئی دلی کے ساتھ پینگیں بڑھانے کا یہ مطلب نہیں کہ پاکستان کی اہمیت کم ہو گئی ہے ۔وائٹ ہا ؤس میں قومی سلامتی کے نائب مشیر Ben Rhodesکا کہنا ہے کہ بھارت اور پاکستان دونوں سے امریکہ کے سٹریٹیجک تعلقات ہیں جو ایک دوسرے کی ضد نہیں ہیں یعنی پاکستان سے دوستی کا الگ کھاتہ اور بھارت سے الگ کھا تہ ہے ،لیکن حقیقت حال اس سے قدرے مختلف ہیں ۔
بھارت کا روز اول سے یہ دعویٰ ہے کہ وہ ایک منی سپر پا ور ہے لہٰذا اس کو پاکستان کے ساتھ نتھی نہ کیا جائے۔اسی بناء پر وہ یہ پسند نہیں کرتا کہ امریکی صدور یا عہدیدار بھارت اور پاکستان کا اکٹھا دورہ کریں ۔1998ء میں صدر کلنٹن کے جانے کے بعد امریکہ عملی طورپر بھارت کے اس موقف کو تسلیم کر چکا ہے ۔اسی طرح پاکستان کی ہزارہاکو ششوں کے باوجو د کہ امریکہ کشمیر کے مسئلے پر بھارت سے ثا لثی کرائے،بھارت اس قسم کی کسی کوشش کو سختی سے رد کردیتا ہے اور امریکہ کی بھی ہمت نہیں پڑتی کہ وہ اس ضمن میں خاموش ڈپلومیسی کے سوا علانیہ کوئی کردارادا کر سکے ۔جہاں تک اسلامی جمہو ریہ پاکستان کے ساتھ خو شگوار امریکی تعلقات کا دعویٰ ہے امریکہ ہمیں دہشت گردی کے حوالے سے شک وشبہ کی نگاہ سے دیکھتا ہے ۔ بھارت کے دورے سے بھی قبل ''انڈیا ٹو ڈے‘‘ کو انٹرویو دیتے ہو ئے صدر اوباما نے فرمایا ہے کہ بھارت امریکہ کا حقیقی گلوبل پارٹنرہے اوراسی سانس ہی میں انھوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان میں دہشت گردوں کے ٹھکانے قابل قبول نہیںہیں ۔اس سے حقیقت حال واضح ہو جا نی چاہیے۔ اس کے لیے ہمارے ماضی کے فوجی اور سویلین حکمرانوں کو بھی یکسربری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا ۔جنرل ضیاء الحق مرحوم کے دورسے لے کر اب تک وطن عزیز ہر قسم کے اور ہر قومیت کے دہشت گردوں کی آما جگا ہ بنا رہاہے اور بالآ خر نا ئن الیون کے بعد یہ دہشت گرد پاکستان پر ہی چڑھ دوڑے۔
فوج کے موجودہ سر براہ جنرل راحیل شریف نے دہشتگردوں کے بارے میں نہ صرف واضح اور دوٹوک پالیسی کو اختیا ر کیا بلکہ اختیار بھی کروایا ،اس سے پہلے تو ہماری سویلین حکومتوں میں سے کچھ نے تو نظریا تی طور پر ایسے عناصر سے ناطہ جو ڑ لیا اور کچھ سجدہ سہو کر گئیں ۔اس سلسلے میں بھارت اور حامد کرزئی کے افغا نستان نے جلتی پر تیل کاکام کیا اور پاکستان کے خلا ف خوب زہر افشانی کو وتیرہ بنا لیا اور امریکہ نے بھی افغانستان میں اپنی ناکامیوں پر پر دہ ڈالنے کی خاطر پاکستان پر ''ڈومور‘‘ کے لیے دباؤڈالنا شروع کر دیا اور یہ تا ثر عام کر دیا گیا کہ پاکستان کے نزدیک کچھ طالبان اچھے ہیں اور کچھ برُے۔افغان طالبان اس کے حلیف اور تحریک طالبان پاکستان اس کی حریف ہے۔نومبر 2008ء میں ممبئی کے واقعے کے حوالے سے ''نان سٹیٹ ایکٹرز‘‘ کی اصطلاح گھڑی گئی نیز جوںجوں کشمیر میں تحریک آزادی زور پکڑتی گئی بھارت نے ''کراس بارڈر ٹیرراز م‘‘ کے نام سے پاکستان پر یہ الزام لگانا شروع کر دیا کہ وہ مقبوضہ وادی میں بھارت کے لیے مخصوص تنظیموں کے ذریعے دہشت گردی کرا رہا ہے۔ سابق آرمی چیف جنرل اشفاق پر ویز کیا نی جوشمالی وزیرستان میں مختلف حیلوں بہا نوں سے طالبان کے خلاف کارروائی سے ہچکچاتے رہے، وہ یہ کہتے تھے کہ امریکہ کے پاس گھڑیاں ہیں اور طالبان کے پاس وقت۔نیز یہ کہ امریکہ تو افغانستان سے چلا جا ئے گا ،ہم اپنے ہمسائے میں طالبان سے کیو ں بگا ڑیں ؟ وہ یہ عذر لنگ بھی پیش کرتے تھے کہ اگر شمالی وزیر ستان میں دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کی گئی تو وہ سارے ملک میں پھیل جا ئیں گے ۔نیز یہ کہ افواج پاکستان ممکنہ بھارتی جارحیت کامقابلہ یکسوئی سے نہیں کر پائیں گی۔ اس کے برعکس آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے بڑے بھرپور اور دوٹوک انداز سے دہشت گردوں کے خلاف آپریشن ''ضرب عضب‘‘ گزشتہ برس جون میں شروع کیا جو اب تک جاری ہے ۔دہشت گردی کے خلاف یہ کارروائی امریکہ یا بھارت پر احسان کے لیے نہیں بلکہ پاکستان کو محفوظ بنانے کے لیے اپنے قومی مفاد میں کی جا رہی ہے ۔اس کے باوجود گز شتہ ستمبرمیںجب بھارت کے انتہا پسند وزیراعظم نریندرمودی کی واشنگٹن میں خوب آؤبھگت کی گئی اور اوباما مودی ملاقات کے بعد جومشترکہ اعلامیہ جا ری ہوا‘ اس میں جماعت الدعوہ ،ڈی گروپ ،حقانی گروپ اور الرشید ٹرسٹ پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا گیا ۔یہ وہی موقع ہے جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر اوباما نے وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف سے ملاقات کرنے سے بھی اجتناب کیا تھا ۔ بعدازاں جب آرمی چیف جنرل راحیل شریف واشنگٹن کے دورے پر گئے توا مریکہ میں ان کوبھرپور پروٹوکول دیا گیا ۔اس موقع پر انھوں نے واضح کر دیا کہ پاکستان بلا تخصیص اور بلا امتیاز دہشت گرد گروپوں کے خلاف کارروائی کرے گا ۔لیکن لگتا ہے کہ ابھی تک امریکہ کی تسلی نہیںہو ئی ۔
امریکی صدراوباما کے دورے سے عین قبل اور امریکی وزیر خا رجہ جان کیری نے دورہ پاکستان کے فوراً بعد جما عت الدعوہ کے فنڈز منجمد کر دیئے گئے ہیں اور حا فظ سعید کے بیرونی سفر پر پا بندی لگا دی گئی ہے ۔اس طرح حقانی نیٹ ورک کو بھی خلاف قانون قرار دے دیا گیا ۔دفتر خارجہ کی ترجمان تسنیم قریشی کا دعویٰ ہے کہ اقوام متحدہ کی پا بندیاں عائد کرنے والی کمیٹی کی فہرست میں جماعت الدعوہ بھی شامل ہے اور پاکستان اپنی بین الاقوامی ذمہ داریوں سے بخوبی آ گاہ ہے‘ لیکن درحقیقت پاکستان نے ایسا کرکے اس بات کی پیش بندی کی ہے کہ امریکی صدر اوباما کے دورے کے موقع پر بھارتی زعماء پاکستان سے مبینہ دہشت گردی کی سینہ کو بی نہ کریں‘ لیکن اس کے باوجو د یقینااس دورے کے دوران بھی پاکستان پر ''دراندازی‘‘ کا الزام عائد کیا جا ئے گا ۔ہمیں اس حقیقت کومدنظر رکھنا چاہیے کہ پاکستان اور امریکہ کے درمیان دفاعی اور سٹریٹیجک سطح پر جتنا تال میل آج ہے اس کی ماضی قریب میں مثال نہیں ملتی‘ لیکن اس وقت امریکہ بھارت کی اقتصادی طاقت، اس کی وسیع تر منڈی اور ابھرتے ہو ئے چین کے حوالے سے اسے سٹریٹیجک طور پر استعمال کرنا چاہتا ہے۔پاکستان نے بلاکم وکاست دہشت گردی کے خلاف جہا د کرنے کا جو بیڑا اٹھایا ہے اس کے ساتھ ساتھ وطن عزیز کو اقتصادی طورپر بھی مضبوط کرنا ہو گا ۔اس وقت سانحہ پشاور کے بعد اتحاد کی تصویر پیش کرنے کے باوجود قوم بٹی ہو ئی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ حکومت بھی دہشت گردی کے حوالے سے کنفیوژن کا شکا ر نظر آ تی ہے ۔وزیر داخلہ چوہدری نثا ر علی خان دہشت گردی کے قلع قمع کرنے کے حوالے سے عمل سے لچھے دار بریفنگز دینے کو زیا دہ ترجیح دیتے ہیں ۔ جماعت الد عوہ پر لگنے والی پابندیوں کے حوالے سے بھی وہ معنی خیز خاموشی اختیار کیے ہو ئے ہیں ۔وزیر سائنس وٹیکنالوجی رانا تنویر کا کہنا ہے کہ حا فظ سعید کی سربراہی میں یہ جما عت کو ئی ایسا کام کر ہی نہیں رہی جس سے اس پر پابندی لگا دی جا ئے۔یہ بات بھی سمجھ سے بالا تر ہے کہ ہر وزیر قومی سلامتی کے معاملات پر رائے زنی کرنا اپنا حق کیوں سمجھتا ہے؟۔
سونے پر سہاگہ وفاقی وزیر برائے بین الصوبائی رابطہ ریا ض حسین پیر زادہ نے اگلے روز جناح انسٹی ٹیوٹ میں تقریر کرتے ہو ئے پاکستان کے حلیف سعودی عرب کو ہی رگید نا شروع کر دیا اور فوجی عدالتوں کی بھی مخالفت کر دی۔اس طرز عمل سے کنفیوژن پیداہو رہی ہے اور یہ تا ثر پیداہو رہا ہے کہ موجودہ حکومت دہشتگردی کا قلع قمع کرنے کے بارے میں یکسو نہیںہے۔اس تاثر کو تو حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) نے ہی زائل کرنا ہے چونکہ اس جماعت کا دعویٰ ہے کہ وہ بانیِ پاکستان کی جماعت ہے اور قائد اعظم محمد علی جناح تو پاکستان کو ایک مہذب، پُرامن، خوشحال اور باوقار ملک بنانا چاہتے تھے۔ لہٰذا حکمران جماعت کوقائد اعظم کے فرمودات کی روشنی میں ملک میں دہشت گردی کے خلاف یکسوئی کی فضا قائم کرنی چاہیے ۔ مولانا فضل الرحمن ویسے تو حکومت کے حلیف ہیں لیکن پارلیمنٹ میں ان کی جماعت کا ووٹ اکیسویں ترمیم کے خلاف تھا ۔اب انھوں نے دھمکی دی ہے کہ اگر مدارس کو ہاتھ لگایا گیا تو علماء جیلیں بھر دیں گے۔ایسے لگتا ہے کہ مذہبی قوتوں اور حکومت وفوج کے درمیان بالآخر محا ذ آرائی بڑھے گی۔اس ضمن میں حکومت کو حتیٰ المقدور کو شش کرنی چاہیے کہ کم از کم علمائے حق کو تو آن بورڈ لے۔