"ANC" (space) message & send to 7575

گڈگورننس کی محبت میں ناکامی!

میر ے لیے چوہدری محمد سرور کے گورنری سے مستعفی ہونے کی خبر حیران کن نہیں تھی بلکہ میرے انداز ے کے مطابق تو انھیں چندماہ قبل ہی مستعفی ہوجانا چاہیے تھا ۔چوہدری سرور سے میری یاد اللہ کافی پرانی ہے۔ وہ برطانوی پارلیمنٹ کے پہلے مسلمان رکن ہونے کے باوجود پنجاب کی سیاست پر گہری نظر رکھتے تھے اور اکثر پاکستان کا دورہ کیا کرتے تھے۔ایک زمانے میں جب اسداللہ غالب با قاعدہ نو ائے وقت کے ساتھ منسلک تھے تو وہ غیر سرکاری طورپر ان کے کنڈکٹنگ افسر کا فریضہ بھی انجام دیتے تھے۔اسی حوالے سے چوہدری محمد سرور سے میری ابتدائی ملاقاتیں ہو ئیں۔ چوہدری صاحب نے اپنی پرکشش شخصیت کی بناء پر بہت جلد ہی پنجاب کے سیا ستدانوں سے گہرے روابط استوار کر لیے ۔میری ان سے ملاقاتیں چوہدری برادران کے گھر اور وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف کے ظہرانوں پر ہو تی رہیں۔چوہدری صاحب‘ جن کاآبائی تعلق فیصل آباد ڈویثرن سے ہے ،پنجاب کی سیاست کے اسرارورموز سے بخوبی واقف ہیں اور یہی جوہر قابل انھیں شریف برادران کے قریب لے گیا ۔وزیر اعظم میاں نواز شریف اور ان کے برادر خورد میاں شہباز شریف نے یہ بھانپ لیا کہ اس شخصیت کی خدمات سے فائدہ اٹھا یا جا سکتا ہے۔چوہدری محمد سرور سکاٹ لینڈ میں لیبر پارٹی کے پلیٹ فارم سے تین مرتبہ ممبر پارلیمنٹ منتخب ہو ئے ۔اب ان کا بیٹا نہ صرف برطانیہ میں رکن پارلیمنٹ ہے بلکہ شیڈو کا بینہ کا بھی رکن ہے۔بر طانیہ میں طویل عرصے تک قیام کرنے اور وہاں کی پارلیمنٹ میں نشست رکھنے کے باوجود چوہدری صاحب نے اپنے مڈھ سے ناتا نہیں توڑا اور پنجاب کی سیاسیات کا بھی جا ئز ہ لیتے رہے۔ اس طرح وہ برطانوی سیاست کی جدیدیت ،جمہوری انداز اور شفافیت سے پو ری طرح با خبر ہو نے کے علاوہ پنجاب میں ہونے والے جو ڑ توڑ اور برادری کی سیاست سے بھی بخوبی واقف ہیں۔ 
2013ء کے عام انتخابات میں انھوں نے پنجاب میں ٹکٹوں کی تقسیم کے حوالے سے مسلم لیگ (ن) کومشورے دینے میں اپنا کلیدی کردار ادا کیا ۔ وہ مجھے اکثر کہا کرتے تھے کہ جہاں جہاںمسلم لیگ (ن )نے ٹکٹوں کے بارے میں ان کا مشورہ مانا وہاں وہاں جیت گئی اور جہاں نہیں ماناہا ر گئی۔ شا ید ان کی انہی خدمات کے اعتراف میں شریف برادران نے ان کو گورنری کے منصب کی پیشکش کی جسے انھوں نے قبول کر لیا اوربرطانیہ، امریکہ اور کینیڈا میں مقیم بعض مقتدر پاکستانیوں کی روش کے بر عکس وہ کشتیاں جلا کر پاکستان آ گئے۔ انھوں نے برطانوی پاسپورٹ واپس کر دیا‘ حالانکہ تکنیکی طور پر وہ دوہری شہریت رکھ سکتے تھے ۔ انھوں نے گز شتہ روز بھی کہا کہ وہ ڈی ایچ اے لاہو ر میں اپنے مکان میں منتقل ہو رہے ہیں اور وہ سابق وزیراعظم شوکت عزیز کی طرح ون وے ٹکٹ کٹوا کر برطا نیہ واپس نہیں جا رہے ۔انھیں برطانیہ کے باسی ہو نے کے باوجود بر طانوی پاسپورٹ سے اتنی محبت نہیں جتنی پروفیسر ڈا کٹر علامہ طاہرا لقادری کو کینیڈین پا سپورٹ سے ہے، اورنہ ہی چوہدری محمد سرور لارڈ نذ یر کی طرح کے پاکستانی نثراد برطانوی سیاستدان ہیںجوہاؤس آف لارڈ کے ممبر ہو نے کے ساتھ ساتھ سیاسیات پاکستان کے حوالے سے زیادہ فکرمند رہتے ہیں اور سیاسی قبلہ بھی حسب ضرورت تبدیل کرتے رہتے ہیں۔
جمعرات کو استعفیٰ دینے کے بعد چوہدری محمد سرور نے اس بات پر خا صا اظہار افسوس کیا کہ انھوں نے اپنے پہلے سے طے شدہ پروگرام کے مطابق استعفیٰ اپنی مرضی سے دیا ہے،نہ کہ شریف برادران کے کہنے پر‘ لیکن اس کے باوجود سرکاری ٹیلی وثیرن پر یہ خبر نشر کرائی گئی کہ چوہدری محمد سرور سے استعفیٰ مانگا گیا تھا۔گویا کہ وہ خود مستعفی نہیں ہو ئے بلکہ انھیںبر طرف کیا گیا ہے۔غالباً اسی تاثر کو زائل کر نے کے لیے بعدازاں انھوں نے گورنر ہاؤس میں ایک پریس کانفرنس کی جس میں انھوں نے تحریری بیان میں واضح کر دیا کہ وہ ازخود مستعفی ہو ئے ہیں ۔حکومت کے بعض ڈھونڈرچی میڈیا پرسنز کے ذریعے یہ درفنطنی بھی چھوڑی گئی تھی کہ حکومت ان کے اس بیان پر ناراض ہو گئی کہ اس کی خا رجہ پالیسی اور گورننس یکسر ناکام ہو چکی ہیں ۔مجھے اس بات کا ذاتی طور پر علم ہے کہ چوہدری صاحب کئی ماہ سے شریف برادران سے ناراض تھے۔چند ماہ قبل جب مجھے پتہ چلا کہ ان کے اور وزیراعلیٰ شہباز شریف کے مابین معاملات دگرگوں ہیں تو میں نے انھیں فون کیا جس پر چوہدری صاحب نے مجھے گورنر ہاؤس میں لنچ پر مدعو کر لیا۔ انھوں نے مجھے صاف طور پر بتایا کہ انھیں گورنر ہا ؤس میں عضو معطل بنا دیا گیا ہے۔لہذا میں نے مستعفی ہو نے کا فیصلہ کر لیا ہے اور وہ جلد ہی ڈی ایچ اے فیز فائیو میں خریدی گئی اپنی نئی اقامت گاہ میں منتقل ہونے کا ارادہ رکھتے ہیں ۔چوہدری صاحب نے واضح کیا کہ چونکہ تحریک انصاف کا دھرنا چل رہا ہے‘ لہٰذا وہ نہیں چاہتے کہ ایسے موقع پر حکومت کو خیرباد کہیں جس سے یہ تاثر ابھرے کہ انھوں نے مشکلات میں گھری حکومت کو تنہا چھوڑدیا ہے۔یہ اس روز کی بات ہے جب صبح کے وقت وزیراعظم میاں نواز شریف ان کے پاس نا شتہ کرنے آئے تھے۔ چوہدری صاحب نے بتایا کہ وزیراعلیٰ میاںشہباز شریف نے بھی ساتھ آنا تھا لیکن آخری مرحلے پر وہ نہیں آئے۔ چوہدری سرور صاحب کا کہنا تھا کہ وزیراعظم میاں نواز شریف نے انھیں مستعفی ہو نے کی صورت میں اوورسیز پاکستانیوں کے لیے وزیر اعظم کا مشیر بنانے کی پیشکش کی ہے تا ہم انھوں نے اس پیشکش کو قبول نہیں کیا۔ میرا بھی استدلال یہی تھا کہ انھوں نے ٹھیک ہی کیاکیونکہ اگر وہ ایسا کرتے تو میاں نواز شریف نے انھیں عہدہ دے کر کو ئی گھاس نہیں ڈالنی تھیں۔ 
بعض مبصرین کے مطابق چوہدری صاحب نے گورنری کے منصب سے کچھ زیا دہ ہی امیدیں وابستہ کر لی تھیں‘ حالانکہ پارلیمانی نظام میں وزیراعلیٰ ہی سب کچھ ہو تا ہے اور گورنر محض ایک نما ئشی عہدہ ہے ۔اس کے باوجود انھیں یہ عہدہ قبول کرنے سے پہلے یقین دلایا گیا تھا کہ پنجاب حکومت بلکہ وفاقی حکومت کے لیول پر بھی ان کا ایک رول ہوگا‘ لیکن توقعات کے عین مطابق ہوا اس کے بالکل برعکس۔ بطور گورنر وہ ایچی سن کالج کے بورڈ آف گورنرز کے سربراہ تھے اور تمام یونیورسٹیز کے چانسلر بھی‘ لیکن ان معاملات میں بھی انھیں مزاحمت کاسامنا کرنا پڑا۔یورپین یو نین سے پاکستانی ٹیکسٹا ئل کی مصنوعات کو برآمدی ڈیو ٹی جی ایس پی پلس کا اسٹیٹس دلوانے میں انہوں نے اہم کردار ادا کیا ۔اسی طرح انھوں نے صاف پانی کی فراہمی کے لیے واٹر فلٹر یشن پلانٹس لگانے کی منصوبہ بندی کی‘ لیکن یہاں بھی انھیں تعاون نہیں ملا۔بعض حلقے تو یہاں تک کہتے ہیں کہ انھوں نے گزشتہ برس طاہرالقادری کی پاکستان آمد کے موقع پر جب ان کا طیارہ اسلام آباد کے بجائے لاہور اتار لیا گیا تھا‘ اس وقت بھی کشیدگی ختم کرانے کے لیے طیارے میں جا کر طاہرالقادری سے مذاکرات کیے اور انھیں باہر آنے پر قائل کیا اور پھر سانحہ ماڈل ٹا ؤن کے بعد اسلام آباد میں دھرنے کے دوران طاہرالقادری سے ثالثی کے معاملے میں بعض ایسی شرائط قبول کر لی تھیں جووزیراعظم میاں نواز شریف اور وزیر اعلیٰ شہباز شریف کے لیے قطعاً قابل قبول نہیں تھیںاور اس حوالے سے حمزہ شہباز شریف کے ساتھ ان کی مبینہ طورپربد مزگی بھی ہو ئی تھی۔ بات کچھ بھی ہو چوہدری محمد سرور کا شریف برادران کے ساتھ قارورہ نہیں مل سکا۔ کہاں برطانیہ میں لبرل پارٹی کی سیاست اورکہاں پاکستان میں مسلم لیگ (ن) کی درباری سیاست؟۔اس کا ادراک تو چوہدری محمد سرور کو خود ہو نا چاہیے تھا۔ شنید یہ ہے کہ اب وہ تحریک انصاف کی طرف پدھا رنے کے لیے کمربستہ ہیں۔ایسا ہو اتو آئندہ انتخابات میں وہ عمران خان کی جماعت کے لیے بڑا اثا ثہ ثابت ہو نگے۔خان صاحب2013ء کے عام انتخابات میں دھاندلی سے زیادہ ٹکٹوں کی گیم میں مار کھا گئے تھے۔چوہدری سرور انھیں درست طریقے سے گائیڈ کر پا ئیں گے اور یقیناتحریک انصاف میں ان کی بہت پذیرائی ہو گی ،کیو نکہ خان صاحب اپنی جملہ کمزوریوں کے باوجود مسلم لیگ(ن) کی قیا دت کی طرح بلا وجہ عدم تحفظ کا شکا ر نہیں رہتے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں