پاکستان کرکٹ ٹیم نے بھارت سے ورلڈ کپ میں میچ ہارنے کی ''درخشندہـ روایت ‘‘برقرار رکھی۔ ہماری ٹیم ورلڈ کپ کرکٹ ٹورنامنٹس میں بھارت سے چھ بار شکست کھا چکی ہے۔کرکٹ ٹیم کی جوحالت زار ہے اس کے پیش نظر کسی کوورلڈ کپ کا پہلا میچ بری طرح ہارنے پر حیرانی نہیں ہو نی چاہیے۔زندگی کے دیگر شعبوں کی طرح کرکٹ میں اس ہار کوبھی ''خندہ پیشانی‘‘ سے قبول کرنے اور اصلاح احوال کی تدبیر کرنے کے بجائے اسے کفر واسلام کا معرکہ قرار دینے والے اب اسے ایک گہری سازش کا شاخسانہ قرار دے رہے ہیں ۔کہا جارہا ہے کہ عمراکمل کو غلط آ ؤٹ دیا گیا اور اگر ایسا نہ ہو تا تو ہم میچ جیت جاتے۔ حالانکہ یہاں تو آ وے کا آ وا ہی بگڑا ہوا ہے ۔میرے لیے تو کرکٹ میں یہ ہا ر توقع کے عین مطابق تھی کیونکہ پاکستان میںہر شعبہ اقربا پروری اور میرٹ کے فقدان کے باعث رجعت قہقری کا شکار ہے تو بھلا کرکٹ اس نا پسندیدہ روایت سے کیسے مستثنیٰ ہو سکتی ہے ۔ورلڈ کپ کے لیے آ سٹر یلیا اور نیو زی لینڈ جانے والی ٹیم کے منیجرنو ید اکرم چیمہ نے جو ایک ریٹا ئر بیو رو کریٹ ہیں، اپنی تقرری کے فوراً بعد ٹیم کو ہلا شیری دیتے ہو ئے کہا تھا کہ آ پ حب الوطنی اور قومی جذبے سے سرشا ر ہو کر کھیلیں ۔ گویا کہ ٹیم کی اچھی سلیکشن ،پریکٹس ، تال میل اور مہا رت سے زیا دہ میچ جیتنے کے لیے محض قومی جذبہ ہی کافی ہے ۔نہ جانے منیجر موصوف کو کن خدمات کی بناء پر یہ عہدہ سونپا گیا کیونکہ کرکٹ سے توان کا کو ئی مس نہیں ہے ۔ویسے تو اوپر سے نیچے تک کرکٹ کی رضیہ غنڈوں میں گھری ہو ئی ہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین نواب شہریار خان ایک نفیس انسان ہیں ۔پاکستان کی فارن سروس میں تمام عمر خدمات سرانجام دینے کے حوالے سے خا رجہ امور پر بھی عبور رکھتے ہیں ۔وہ ماضی میں ہاکی کے کھلا ڑی بھی رہے ہیں ۔شاید انھیں کرکٹ کی بھی شد بد ہو لیکن اب وہ عمر کے اس حصے میں ہیں جب انھیں اللہ اللہ کر نی چاہیے۔وطن عزیز کی بد قسمتی ہے کہ یہاں کو ئی شخص ریٹا ئر ہونے کے لیے تیا ر نہیں ہو تا ۔2006ء میں جب پاکستانی ٹیم بر طانیہ کا دورہ کر رہی تھی تو انضمام الحق کی کپتانی میں آ دھی ٹیم، کرکٹ ٹیم نہیں بلکہ تبلیغی جماعت لگتی تھی ۔اس وقت بھی ہماری ٹیم نے امپا ئر کے مبینہ رویے کے خلاف واک آؤٹ کر کے نئی تاریخ رقم کی اوراس موقع پر بھی شہریا ر خان ہی کرکٹ بورڈ کے چیئرمین تھے۔
گزشتہ دو دہائیوں میں کرکٹ بورڈ سونے کی چڑیا بن چکا ہے اور ہر کوئی اس کا سربراہ بننے کے لئے بے چین و بے تاب رہتا ہے۔اس سے پہلے ذکا اشرف ،آصف علی زرداری سے قربت کی بنا پر چیئرمین مقرر ہوئے اور بعد ازاں نواز شریف کی نظر انتخاب نجم سیٹھی پر پڑی ،حالانکہ نجم سیٹھی صاحب اچھے صحافی اور اینکر تو ضرور ہونگے لیکن کرکٹ اور انتظامی معاملات سے انہیں کوئی زیادہ مس نہیں رہا۔ٹیم کی مسلسل ناقص کارکردگی اور عمران خان کے‘ جو پاکستان کے کرکٹ ہیرو بھی ہیں‘ تابڑ توڑ حملوں کے بعدایک نیا فارمولا وضع کیا گیا اور بورڈ کے آئین میں تبدیلی کرکے لاہور کی ''اربن ایلیٹ‘‘ کی ہر دلعزیز شخصیت شہریار خان کو بے اختیار کر کے چیئرمین بنا دیا گیا۔اب اختیارات بورڈ کی مینجمنٹ کمیٹی کو منتقل ہو گئے ہیں جس کے سربراہ نجم سیٹھی ہی ہیں گویا کہ پرنالہ وہیں کا وہیں ہے۔ کنٹرول مینجمنٹ کمیٹی کے پاس اور چیئرمین عضو معطل بنے ہوئے ہیں،ویسے بھی اس عمر میں موجودہ چیئرمین کے دانے ختم ہو چکے ہیں۔ کرکٹ ماہرین کا کہنا ہے کہ ورلڈ کپ کے اس میچ میں پاکستانی ٹیم کپتانی سے لے کر بیٹنگ، باؤلنگ، فیلڈنگ سمیت ہر شعبے میں ناقص ثابت ہوئی۔سلیکٹرز اوربھاری معاوضے پر لائے گئے کوچ بھی ناکام ثابت ہوئے۔ایک اندازے کے مطابق ورلڈ کپ کی ٹیم کے ساتھ منسلک کوچز، تھراپسٹس، کنسلٹنٹس وغیرہ کے لاؤ لشکر پر قوم کے تقریباً بیس کروڑ روپے برباد کیے گئے ہیںلیکن نتیجہ وہی صفر۔
پاکستان کے مایۂ ناز بلے باز سید ظہیر عباس نے‘ جو وقتاً فوقتاً کرکٹ بورڈ کے ایڈوائزر بنتے رہے ہیں، میچ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی ٹیم نے میدان حرب میں بے انتہا غلطیاں کیں اور سلیکٹرز نے بھی ٹیم کے انتخاب کے موقع پر کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ظہیر عباس کے مطابق ورلڈ کپ کے لیے جہاںمنصوبہ بندی انتہا ئی نا قص تھی وہاںتیاری بھی نہیں تھی۔ کپتان مصباح الحق نے بہت سے بلنڈر کیے لیکن گنجی نہائے گی کیا اور نچوڑے گی کیا ۔ ٹیم میں مصباح الحق اور یونس خان جیسے تجربہ کار کھلاڑی نہ ہوں تو باقی کیا رہ جاتا ہے، نہ کوئی اوپنر ہے نہ کوئی اچھا وکٹ کیپر اور نہ ہی سپنر ۔محض بابوں کی بنیا د پر ٹیم کو کب تک چلا یا جا سکتا ہے۔
نا م نہا د بوم بوم آفریدی ٹھس ٹھس آفریدی بن کر رہ گئے ہیں ۔وہ ہر میچ میں دوچار ٹُلے لگا کر پویلین کو لو ٹ جا تے ہیں ۔ لیکن دوسری طرف غالباً بورڈ کی اجازت سے ہی ہر قسم کے ٹی وی اشتہار میں آکر لاکھوںکروڑوں روپے کما لیتے ہیں۔بے چارا مصباح الحق بیٹنگ تو کر لیتا ہے لیکن ایک شخص پو ری ٹیم کے لیے امرت دھارا نہیں بن سکتا ۔ایک اور مایہ ناز کرکٹر محسن خان نے میچ پر اپنے تبصرے میں بھارت سے شکست کے حوالے سے بورڈ کو موردِالزام ٹھہرایا ہے۔ ان کاکہنا ہے کہ بورڈ غیر مخلص افراد پر مشتمل ہے۔ٹیم مینجمنٹ معاملات کو چلانے میں بری طرح ناکام رہی ہے جس کے نتیجے میں پاکستانی کرکٹ ٹیم نہ ہونے کے برابر ہے ۔لیکن اس پر مستزادیہ کہ پاکستانی عوام کے جذبات سے کھیلا جا رہا ہے۔ پاک بھارت میچ سے قبل ڈی جی آ ئی ایس پی آر سے لیکر ہر حکومتی اہلکار نے ہار جیت کو حب الوطنی کا امتحان بنا دیا۔گو یا کہ بھارت سے جیتنا ہی ورلڈ کپ جیتنے کی معراج ہے۔اب ہمارے وہی مبصرجنہو ں نے ورلڈ کپ میں پاکستانی ٹیم کی کامیا بی کے معیار کوکم تر کر دیا تھا، قوم کی ڈھا رس بند ھا رہے ہیں کہ1992ء کے ورلڈ کپ میں بھی پاکستان کی کارکر دگی مایوس کن تھی لیکن اس نے ورلڈ کپ جیت لیا تھا۔ ایسی طفل تسلیاں دینے کا نہ کو ئی جواز ہے اور نہ کو ئی فائدہ۔1992ء کے ورلڈ کپ کے حوالے سے یہ بات مدنظر رہنی چاہیے کہ اس وقت پاکستان کی ٹیم کی کپتا نی عمران خان جیسا ہنر مند آل راؤنڈر کر رہا تھا نیز وسیم اکرم اور جا وید میانداد جیسے جغادری کرکٹر بھی شامل تھے ،یہ وہ لو گ تھے جن کا ستارہ عروج پر تھا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ پاکستان ٹیم کے کچھ کھلاڑی تو نا تجربہ کار ہیں اور جو تجربہ کار ہیں وہ روبہ زوال ہیں۔ لہٰذا قوم سے یہ کہہ دینا کہ اس شکست کے بعد ہم جیت جا ئیں گے ،طفل تسلیاں دینے کے مترادف ہے۔یہ درست ہے کہ پول بی میں پاکستان کا مقابلہ ویسٹ انڈیز سے ہو گا جو ہماری ٹیم کی طرح ہی آؤٹ آف فار م ہے ۔اس کے علاوہ آئر لینڈ ،یو اے ای اور زمبابوے کی ٹیموں کو ہرا نے کی امید کی جا سکتی ہے کہ اس طرح ہم کوارٹر فائنل تک پہنچ جا ئیں گے ۔موجو دہ حالات میں اسے ہی غنیمت سمجھنا پڑے گا لیکن ایک بات واضح ہو گئی ہے کہ آئرلینڈ نے ویسٹ انڈیز کی جو درگت بنائی ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ پاکستان کیلئے تر نوالہ ثابت نہیں ہو گا۔
وزیر اعظم میاں نواز شریف کو‘ جو صدرمملکت کی جگہ منظور نظر افراد کو نوازنے کی خاطر خود کرکٹ بورڈ کے پیٹرن انچیف بن گئے ہیں، بورڈ سمیت کرکٹ کے تمام نظام کی تطہیر کرنا ہو گی۔نجم سیٹھی اب کرکٹ بورڈ کی مخصوص حکمت عملی کے تحت آ ئی سی سی کی نائب صدارت سنبھالنے جا رہے ہیں۔ کیا وہ وہاں بگ تھری (آسٹریلیا،برطانیہ اور بھارت)کے مقابلے میں سٹینڈ لے سکیں گے یا سجدہ سہو کر دیں گے؟ٹیم کی از سرنوتنظیم کرنا ہو گی ورنہ موجو دہ stuff سے بہتر ی کی توقع رکھنا عبث ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ بورڈ کو سفارشیوں اور بابوں سے پاک کیا جا ئے کیو نکہ کرکٹ بورڈ اور اس کی مینجمنٹ کاحال بھی سرکاری شعبہ میں چلنے والے دوسرے اداروں کی طرح دگرگوں ہے۔خدارا میاں صاحب! کرکٹ کے حال پر رحم کھائیں کیو نکہ یہ کھیل پاکستانی قوم کے خون میں رچا بسا ہوا ہے اور اس لحا ظ سے بنا ئے اتحاد بھی ہے کہ خیبر سے لے کر کراچی تک سب لو گ کرکٹ کے شائق، دھنی اوراس سے عشق کی حد تک لگا ؤرکھتے ہیں۔