اگر دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتنے کے لیے محض عزم مصمم کا اظہار ہی کافی ہوتا تو حالیہ ہفتوں میں ملک میں تشویشناک حد تک بڑھتی ہو ئی خونریزی پر قابو پا نے کی کو ئی تدبیر نکل آ تی ۔کراچی کے بعد بلوچستان کے دارالحکومت کو ئٹہ میںوزیراعظم نواز شریف ،چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف اور ڈی جی آئی ایس آ ئی لیفٹیننٹ جنرل رضوان اخترنے ڈیرے ڈالے رکھے ۔وزیراعظم نواز شریف کا کہنا ہے کہ پورے ملک میں دہشت گردی کے خلاف جنگ شروع ہو چکی ہے اور یہ ہماری آئندہ نسلوں کی بقا کی جنگ ہے۔ انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ دہشت گردوں کا ملک کے ہر حصے میں پیچھا کیا جا ئے گا۔ اس سے قبل کراچی میں پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف یہ واضح کر چکے ہیں کہ پولیس میں سیاسی بھرتیاں بند کی جا ئیں اور اس مقصد کے لیے اپیکس کمیٹیوں کا استعمال کیا جا ئے جو پولیس میں بھرتیوں اور تقرریوں کااہلیت کی بنیادپرازسرنوجا ئزہ لیں‘ لیکن 'مرض بڑھتا گیا جوںجوں دواکی‘ کے مصداق گز شتہ چند ہفتوں میںشکارپور،پشاور اور پھر اسلام آباد میں امام بارگا ہوں پر دہشت گردوں کی یلغار نے ریا ست کے لیے ایک نیا لمحہ فکریہ کھڑا کر دیا ہے۔ان افسوسناک واقعات کی ذمہ داری حال ہی میں داعش سے ناتا جو ڑنے والی تنظیم جنداللہ نے قبول کی ہے ۔اس طرح وزیر داخلہ چو ہدری نثا ر علی خان سمیت ان عنا صرکے اس دعوے کی قلعی کھل گئی ہے جن کا کہنا تھا کہ پاکستان میں داعش کا کو ئی وجود ہی نہیں ۔ زمینی حقائق یہ بتا رہے ہیںکہ داعش عراق میں اہل تشیع کے خلاف اپنی جنگ کو اب پاکستان میں لا چکی ہے۔اس پر مستزادیہ کہ تحریک طالبان پاکستان بھی اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہو ئے ہے اور لاہو ر میں پو لیس لائنز پر حملہ اس کا تازہ شاخسانہ ہے۔اہل تشیع کی مرکز ی تنظیم مجلس وحدت المسلمین سراپا احتجاج ہے اور حکومت سے اپنے تحفظ کے لیے تحریری ضمانت مانگ رہی ہے لیکن ہماری حکومتیں، سکیورٹی اور قانون نا فذ کرنے والے ادارے اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ دوٹوک انداز میں ضمانت دے سکیں کہ آئندہ ایسے حملے نہیں
ہوں گے، بعض اندازوں کے مطابق پاکستان میںاہل تشیع کی تعداد ساڑھے تین کروڑ کے قریب ہے ۔اس لحاظ سے یہ آبادی کا ایک بہت بڑاحصہ ہیں۔ اس کثیر حصے کو نالاں کر دینا قومی یکجہتی کے تقا ضوں کے خلاف ہو گا۔
سا نحہ آرمی پبلک سکول پشا ور کو دو ماہ سے زائد کا عرصہ گز ر چکا ہے ۔اس کے فوراً بعد جس قومی وسیاسی یگانگی کا اظہا کیا گیا تھا اس کا تقاضا تو یہی تھا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے معاملے میں قوم بنیان مرصوص بن جا ئے اور سب مل کر اس لعنت کا مقابلہ کریں ،لیکن جہاں ایک طرف فوج ''ضرب عضب‘‘ کی صورت میں دہشت گردی کے خلاف پورے عزم کے ساتھ لڑائی لڑ رہی ہے وہاں دوسری طرف معاملات نشستند گفتند برخاستند سے آ گے نہیں بڑھ سکے ۔محض کمیٹیاں در کمیٹیاں بنانے سے دہشت گردی کے خلاف جنگ نہیں جیتی جا سکتی ۔اس کے لیے کچھ عمل کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن عمل اسی صورت ہی ہو سکتا ہے‘ جب حکمرانوں کی سوچ اور ویثرن بھی صاف ہو ۔ڈی جی آئی ایس پی آر کا دعویٰ ہے کہ شمالی وزیرستان کا بڑا حصہ دہشت گردوںسے کلیئر کرالیا گیا ہے۔ ''ضرب عضب‘‘ کے ساتھ آپریشن ''خیبر ون‘‘ بھی بھر پور انداز میں جاری ہے لیکن حالیہ واقعات کچھ اورہی منظر کشی کر رہے ہیں۔وزیر داخلہ چوہدری نثا ر علی خان ان دنوں امریکہ میں ہیں۔ انہوں نے امریکی صدراوباما کی طرف سے تشدد اور انتہا پسندی کے قلع قمع کرنے کے بارے میں بلائے گئے اجلاس میں پاکستان کی نمائندگی کی۔ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہو ئے انہوں نے ایک پانچ نکاتی گلوبل ایکشن پلان بھی دیاجس کے ذریعے اس سرطان کو منصوبہ بندی کے تحت ختم کیا جا سکتا ہے۔اس کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے رواداری اور برداشت کے فروغ کے ساتھ ساتھ مقامی شہریوں کو تحفظ بھی دینا ہو گا تاکہ ان کے اعتماد کو جیتا جا سکے اور انتہا پسندانہ سوچ کی حوصلہ شکنی ہو سکے۔
خلاف معمول سوٹ میں ملبوس چوہدری نثا ر علی خان سربراہی کانفرنس کے موقع پر خا صے سمارٹ لگ رہے تھے لیکن انہیں پنجاب ہا ؤس اسلام آ بادمیں ہو نے والی لچھے دار تقریروں اور امریکہ میں گلو بل ایجنڈے کا اعلان کرنے سے پہلے اپنے ملک میںقومی ایکشن پلان پر عمل درآمد کو یقینی بنا نا چاہیے۔ اس وقت تو صورتحال یہ ہے کہ کا غذی حد تک تو نیک عزائم کا اظہار کیا جاتا ہے لیکن عمل مفقود ہے۔ فوجی عدالتیں بھی ابھی پوری طرح قائم وفعال نہیں ہو سکیں ۔دوسری طرف مختلف بار ایسوسی ایشنوں کی جانب سے ان عدالتوں کو سپریم کو رٹ میں چیلنج کر دیا گیاہے ۔عدالت عظمیٰ ان پٹیشنزکی کل سماعت کر رہی ہے اور اس مقصد کے لیے غالباً فل بنچ تشکیل دیا گیا ہے ۔اس طرح فوجی عدالتوں کو آ ئین کے بنیادی ڈھانچے کے خلاف قرار دینے کی تلوار لٹک گئی ہے ۔پاکستان تحریک انصاف کے بعض لوگ دھرنوں کے ذریعے نواز شریف کی حکومت کے خاتمے میں نا کامی کے بعد سینئر قانون دان عبدالحفیظ پیرزادہ کی اٹھارہو یں تر میم کے خلاف درخواست جس میں اس ترمیم کو آئین کے بنیا دی ڈھا نچے کی خلاف ورزی قرار دینے کی استدعاکی گئی ہے ،پر امیدلگا ئے بیٹھے ہیں کہ جب ان درخواستوں کو اکٹھا سنا جا ئے گا تو اس کے نتیجے میں اس پارلیمنٹ کی ہی چھٹی ہو جائے گی ۔ویسے تو یہ امید موہو م لگتی ہے لیکن اس سے دہشت گردی کے خلاف موثر اقدامات کے حوالے سے بے یقینی میں اضافہ ہو سکتا ہے ۔
دوسری طرف قومی مباحث بدلنے کی بات تو اتر سے کی جا تی ہے لیکن پرنالہ وہیں کا وہیں ہے۔اس ضمن میں کچھ نیم دلانہ کوششیں حکومت پنجاب نے بھی کی ہیں اور میڈیا کا رخ درست سمت میں کرنے کے لیے منصوبہ بندی کے وفاقی وزیر احسن اقبال بھی پیش پیش ہیں۔حقیقت تو یہ ہے کہ محض کمیٹیاں بنانے اور اجلاس دراجلاس بلانے سے نہ تو دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتی جا سکتی ہے اور نہ ہی اس طرح قومی مباحث میں کو ئی مثبت تبدیلی لا ئی جا سکتی ہے۔اس کے لیے تو فوجی اور سویلین قیا دت کو قائد اعظم کی سوچ کو اپناتے ہو ئے پاکستان کو ماضی کے بکھیڑوں سے نکال کر ایک نئی سوچ دینا ہو گی۔