پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے اسلام آباد میں ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ ویسے تو سابق صدر مملکت پہلے بھی اسلام آباد آتے جاتے رہتے ہیں لیکن اس مرتبہ سینیٹ کے انتخابات سے عین پہلے ان کادورہ محض چائے کی پیالی میں طوفان اٹھانے کے مترادف نہیں ہے۔ وفاقی دارالحکومت میں قیام کے دوران مولانا فضل الرحمن سے ملاقات کے علاوہ عمران خان، سراج الحق اورالطاف حسین کو فون کرکے انہوں نے میاں نواز شریف کے لئے کچھ مشکلات پیدا کر دی ہیںجس سے ان کی 22 ویں ترمیم لانے کی حکمت عملی دھری کی دھری رہ گئی۔ زرداری صاحب نے درست کہا ہے کہ آئینی ترمیم چار دن میں کیسے ممکن ہے؟آصف زرداری وہ کام کر رہے ہیں جس کے وہ انتہائی ماہر ہیں۔انہوں نے اپنی سیاسی بصیرت اور فہم و دانش کی بنا پر ہی منصب صدارت پر فائز رہ کر پیپلزپارٹی کی حکومت کے پانچ سال پورے کرائے تھے۔
اس دوران میاں نواز شریف اور با لخصوص ان کے برادر خورد خادم اعلیٰ شہباز شریف کی طرف سے بھرپور اپوزیشن کے علاوہ انہیں چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے غیر موافق فیصلوں کا بھی مقابلہ کرنا پڑا۔اس وقت توایسے لگتا تھا کہ وکلا اور سیاستدانوں کی بڑی قربانیوں سے بحال ہونے والے چیف جسٹس محض عدلیہ کے سربراہ نہیں بلکہ اس وقت کی حکمران جماعت پیپلز پارٹی کے لئے اپوزیشن کی کسی جماعت کے قائد ہیں۔اس دور میں زرداری صاحب کو آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل شجاع پاشا کی ریشہ دوانیوں کا بھی سامنا کرنا پڑا، جنرل اشفاق پرویز کیانی کی سربراہی میں پاک فوج کے امریکہ کے ساتھ تعلقات بھی انتہائی کشیدہ تھے۔ریمنڈ ڈیوس کا واقعہ ،اسامہ بن لادن کی ایبٹ آباد میں امریکی نیوی سیلز کے خفیہ آپریشن کے نتیجے میں ہلاکت اور سانحہ سلالہ میں 24 پاکستانی فوجیوں کی شہادت جیسے واقعات بھی اس دور میں وقوع پذیر ہوئے۔اسی تناظر میں میمو گیٹ سکینڈل گھڑا گیا اور مقدمے کی پیروی کرنے کے لئے میاں نواز شریف خود وکیل کی یونیفارم پہن کر سپریم کورٹ میں پیش ہوئے۔میموگیٹ کی بنیاد ہی یہ تھی کہ واشنگٹن میں پاکستان کے سفیر حسین حقانی نے زرداری صاحب کے ایما پرپاک فوج کی مداخلت کے خدشے کے پیش نظر امریکہ سے مدد مانگی تھی ۔زرداری صاحب نے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی صورت میںوزیر اعظم کی بھی قربانی دی لیکن اپنی سیاسی حکمت عملی کی بنا پر انہوں نے وہ کر دکھایا جو 1977 ء کے بعد کوئی بھی سیاسی حکومت نہیں کر پائی تھی یعنی آئینی مدت کی تکمیل کے بعد حکومت کا خاتمہ اور نئے انتخابات کا انعقاد۔
اب بال میاں نواز شریف کے کورٹ میں ہے، انہیں بھی اپنی پانچ سالہ مدت پوری کرنی ہے، اگرچہ میاں صاحب بھی کوئی کچی گولیاں نہیں کھیلے ہوئے اور اس کے باوجود کہ انہیں پیپلزپارٹی کے برعکس پارلیمنٹ میں قریباً دو تہائی اکثریت حاصل ہے،ان کے لئے تو ''ابھی پارٹی شروع ہوئی ہے‘‘۔ آصف زرداری نے یقینا جب گزشتہ برس عمران خان کا دھرنا اپنے نکتہ عروج پر تھا ، میاں نواز شریف کے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا اور انہیں پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانے کا مشورہ دے کر عملی طور پر بیل آؤٹ کیا تھا‘ اس کے بعد سے یہ تاثر عام ہو گیا کہ پیپلزپارٹی مسلم لیگ ن کی بی ٹیم بن گئی ہے۔ یہ بے پرکی بھی اڑائی گئی کہ بلاول بھٹو، زرداری صاحب کی نواز شریف نواز پالیسیوں کی وجہ سے ناراض ہو گئے ہیں۔ یہ بات تو واضح ہے کہ پیپلز پارٹی کوئی ایسا کام نہیں کرے گی جس سے تیسرا امپائر انگلی اٹھانے کی پوزیشن میں آجائے،لیکن دوسری طرف زرداری نے یہ کہہ کر کہ وہ عنقریب2013 ء کے عام انتخابات کے بارے میں وائٹ پیپر جاری کریں گے، عمران خان کے دل کی بات کہہ دی ہے۔ان کا مزیدکہنا ہے کہ وہ انتخابی اصلاحات کیلئے تجاویز بھی دیں گے۔
اگرچہ 2013 ء کی نگران حکومت آصف زرداری اور نواز شریف کی مشاورت سے ہی بنی تھی لیکن عام انتخابات کی شفافیت کے بارے میں پیپلزپارٹی کے بھی تحفظات ہیں جس کا اظہار وقتاً فوقتاً ہوتا رہتا ہے۔چودھری اعتزاز احسن تو اپنی بیگم صاحبہ بشریٰ اعتزاز کے حلقے این اے 124 میں مبینہ دھاندلی کے بارے میں وائٹ پیپر شائع کر چکے ہیں،اب دیکھنا یہ ہے کہ زرداری صاحب اپنے وائٹ پیپر میں کس حد تک آگے جاتے ہیں لیکن سینیٹ کے انتخابات کے موقع پر عوامی نیشنل پارٹی،جمعیت علمائے اسلام (ف)،پیپلزپارٹی ،ایم کیو ایم اور فنکشنل لیگ کے درمیان انڈر سٹینڈنگ کے نتیجے میں اپوزیشن کچھ ایسی نشستیں نکالنے میں کامیاب ہوتی نظر آ رہی ہے جو شاید میاں نواز شریف یا عمران خان کو مل جاتیں۔زرداری صاحب کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ خان صاحب اور ان کی جماعت اس ضمن میں ایک صفحے پر ہیں۔ غالباً پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین کا کہنا ہے کہ سینیٹ کے حوالے سے اس قسم کی مفاہمت مسلم لیگ ن سے بھی ہو سکتی ہے اور ساتھ ہی میاں نواز شریف کو یہ مشورہ بھی دیا ہے کہ جب اقتدار میں ہوں تو سر نیچا کرکے چلنا سیکھیں۔
سینیٹ کے انتخابات میں اگر زرداری صاحب کی حکمت عملی کامیاب ہوتی ہے تو ان کی جماعت ایوان بالا کی چیئرمین شپ کا ڈول ڈالے گی کیونکہ سینیٹ میں پیپلزپارٹی اور حکمران جماعت مسلم لیگ ن کی نشستیں تقریباً برابر ہوں گی۔ جہاں تک 22 ویںآئینی ترمیم لانے کا تعلق ہے اس ضمن میں میاں نواز شریف کی کاوشیں سیاسی شطرنج میں ایک چال سے زیادہ نہیں تھیں۔ خان صاحب نے ان کی تجویز پر صاد کہہ کر محض انہیں کارنر کرنے کی کوشش کی کیونکہ تحریک انصاف کے با خبر حلقوں میں اس سلسلے میں کوئی خوش فہمی نہیں تھی کہ 22 ویں ترمیم اتنی مختصر مدت میں منظور کرائی جا سکے گی۔ویسے بھی میٹھا میٹھا ہپ اور کڑوا کڑوا تھو کے مصداق ایک طرف تو حال یہ ہے کہ میاں صاحب نے گونگلوؤں سے مٹی جھاڑنے کی خاطر انتخابی اصلاحات کے لئے پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی تھی جس کے سربراہ میاں نواز شریف کے سمدھی ،وزیر خزانہ اور عملاً نائب وزیر اعظم اسحاق ڈار مقرر کئے گئے تھے لیکن محترم ڈار صاحب کو اس کا اجلاس بلانے کی فرصت ہی نہیں ملی۔ عمران خان کے مطالبے پر جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کا معاملہ ہنوز تشنہ ہے۔جہانگیر ترین کے مطابق اس سلسلہ میں ویتنام کی جنگ کے خاتمے کیلئے ویٹ کانگ اور امریکہ کے درمیان تاریخی مذاکرات سے بھی زیادہ نشستیں ہو چکی ہیں لیکن نتیجہ صفر۔اب دوبارہ امید بندھی ہے کہ شاید سمجھوتہ ہو جائے۔ اس پر تو یہی کہا جا سکتا ہے ''پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ‘‘۔یہ تو نہیں ہو سکتا کہ سینیٹ میں انتخابی عمل کو بدل دیا جائے لیکن وسیع تر انتخابی اصلاحات لانے کا معاملہ اور 2013 ء کے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کی تحقیقات کے مطالبے تشنہ ہی رہیں گے۔زرداری صاحب نے بجا طور پر یہ کہا ہے کہ تحریک انصاف کو اسمبلی میں واپس لانے کی ذمہ داری ان پر عائد نہیں ہوتی بلکہ یہ ان لوگوں کا کام ہے جو برسراقتدار ہیں۔ یقینا میاں نواز شریف کو محض بیانات دینے اور ان کے حواریوں کو گالی گلوچ کرنے کے بجائے عمران خان کو پارلیمنٹ میں واپس لانے کے لئے ان کی تشفی کرنی چاہیے۔خان صاحب کو بھی خود کو استعفوں کی اس بند گلی سے نکال لینا چاہیے کیونکہ زرداری صاحب نے اسلام آباد میں جوڑ توڑ کے ذریعے جو سیاسی جھٹکا دیا ہے اس کا تقاضا بھی یہی ہے کہ تحریک انصاف پارلیمنٹری سیاست سے عملی طور پر الگ رہ کر باقی سیاسی جماعتوں کے لئے میدان کھلا نہ چھوڑے اور ویسے بھی خود ان کی جماعت کے زیادہ تر پارلیمنٹرین بھی خان صاحب کی اس حکمت عملی سے متفق نہیں ہیں اور اسمبلی سے انخلا پر اصرار‘ پارٹی میں مزید خلفشار کو جنم دے سکتا ہے۔