"ANC" (space) message & send to 7575

خوب پردہ ہے…!

سینیٹ کی چیئرمینی کا قرعہ فال بالآخر اپوزیشن کے متفقہ امیدوار رضا ربانی کے نام نکل آیا ہے۔وزیر اعظم میاں نواز شریف کو بھی طوعاً کرہاً مشترکہ حزب اختلاف کے متفقہ امیدوار پر صاد کہنا پڑا۔ڈپٹی چیئرمین بلوچستان کے حصے میں آنے کی توقع ہے۔ میاں رضاربانی کی نامزدگی جمہوریت کی فتح تو ہے ہی لیکن زرداری صاحب ایک مرتبہ پھر اپنی سیاسی بردباری اور جوڑتوڑ کی مہارت کا جوہر دکھا گئے ہیں۔ جہاں تک میاں نواز شریف کا تعلق ہے تو نوشتہ دیوار پڑھ کر انہیں اپنی میٹھا میٹھا ہپ اور کڑوا کڑوا تھو کی سوچ پر نظرثانی کرنی چاہیے۔ اُن کا یہ فرمانا کہ وہ متفقہ امیدوار کی تلاش میں ہی سیاستدانوں سے رابطے کر رہے تھے اور اس لیے اپوزیشن کے نامزد امیدوار کی حما یت کر دی، عذرلنگ ہے۔ یہ تو سنا تھا کہ سیاست میں کچھ حرفِ آخر نہیں ہوتالیکن یہ ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے کہ میاں صاحب نے تعاون کی بھیک مانگنے کے لیے سینیٹرپرویز رشید اور وزیرریلویز خواجہ سعد رفیق کو چودھری شجاعت حسین کے پاس بھیج دیا۔ یہ وہی چودھری شجاعت حسین اور اُن کے برادرنسبتی چودھری پرویز الہٰی ہیں جن کی میاں برادران شکل دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتے تھے۔گزشتہ روز میرے بیٹے اسد نظامی کی شادی کے موقع پر چودھری شجاعت نے مجھ سے یہ سوال کر دیا کہ ہم اس طرح کے سلوک کے پیش نظر کس طرح مسلم لیگ ن کے امیدوار کی حمایت کر سکتے ہیں؟اس پر میرا جواب یہی تھا کہ چودھری صاحب آپ سے بہتر کون اس حقیقت سے واقف ہے کہ سیاست میں کوئی حر ف آخر نہیں ہوتا،کل کے دوست آج کے دشمن اور دشمن راتوں رات دوست بن جاتے ہیں۔یہ آرٹ کوئی زرداری صاحب سے سیکھے کہ وہ کس طرح شریف برادران اور ان کی جماعت کے رویوں کے برعکس لوگوں کو ساتھ لے کر چلنے کی مہارت رکھتے ہیں ۔آخر چودھری شجاعت ،چودھری ظہور الٰہی مرحوم کے فرزند ہیں جنہوں نے اس قلم کو جس سے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دینے کے احکامات پر دستخط ہوئے تھے، سووینیئر کے طور پر رکھا ہوا تھااور غالباً اسی پاداش میں الذوالفقار کے دہشت گردوں نے ان کو قتل کر دیا تھا،اس کے باوجود مسلم لیگ ق اور پیپلزپارٹی نے پانچ سال مل کر حکومت کی تھی۔
اس سے بڑا لطیفہ یہ ہے کہ 17 سال بعد خادم اعلیٰ شہباز شریف صاحب کو ایم کیوایم کے قائد الطاف حسین کی یاد نے تڑپانا شروع کر دیا اور انھوں نے وسیع تر جمہوری مفاد کی خاطر قائدتحریک کو لندن میں فون کھڑکا دیا۔ سینیٹ کے چیئرمین کے انتخاب سے یہ بات اظہرمن الشمس ہو گئی ہے کہ اپوزیشن جماعتیں مسلم لیگ (ن) کے نامزد کردہ شخص کو چیئر مین بنانے کے لیے غالباً اس لیے تیار نہیں کہ دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے۔ انہیں میاں صاحب کا بھاری مینڈیٹ کا دور نہیں بھولا، ویسے بھی جمہوریت کے لیے چیک اینڈ بیلنس کا نظام ہی بہتر ہے۔
سینیٹ کی 52 نشستوں پر انتخابات میں ہارس ٹریڈنگ کے حوالے سے شدید تحفظات کا اظہار کیا گیا تھا۔تحریک انصاف کے سربراہ تو اس حد تک جذباتی ہو گئے کہ انہوںنے اس صورتحال کے پیش نظر خیبر پختونخوا اسمبلی توڑنے کی دھمکی دیدی۔بلوچستان کے مخصوص حالات کو چھوڑ کر جہاں پارٹی وفاداریوں سے زیادہ لسانی بنیادوں پر جوڑ توڑ ہوا اور مال بھی چلا۔لیکن نتائج پارٹیوں کی قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی عددی طاقت کی ہی غمازی کرتے ہیں۔نتائج اس لحاظ سے دلچسپ رہے کہ پیپلز پارٹی اور حکمران جماعت مسلم لیگ( ن) دونوں ہی اس پوزیشن میں نہیں آئیں کہ خود سے ایوان بالا کا چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین منتخب کر سکیں۔
پیپلزپارٹی کا پلڑا قدرے بھاری تھا کیونکہ اگر اس کی اپنی27 نشستیں ،ایم کیو ایم کی8،مسلم لیگ (ق) کی 4 اور عوامی نیشنل پارٹی کی 7 نشستوں کو ملایا جائے تو اسے چیئرمین شپ حاصل کرنے کے لئے محض 7 ووٹوں کی ضرورت تھی۔مولانا فضل الرحمن کی جماعت جے یو آئی (ف) کی5نشستیں ہیں اور وہ میاں نواز شریف کی حلیف ہونے کے باوجود دونوں جماعتوں سے سودے بازی کرتے رہے ۔ اگرچہ ایم کیو ایم نے کوئی عہدہ نہیں مانگا لیکن اس نے بھی چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے عہدوں پر فیصلہ کرنے کے لئے کمیٹی تشکیل دیدی ۔
دوسری طرف خا ن صاحب ہیں جو سیاست میں ہونے کے باوجود روایتی سیاستدانوں کی طرح ڈیل نہیں کرتے۔اس وقت صورتحال یہ تھی کہ خان صاحب سینیٹ کی چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین شپ کے لئے جس امیدوار کے پلڑے میں اپنے 6 ووٹوں کا وزن ڈالتے وہی کرسی پر متمکن ہوتا،لیکن خان صاحب نے گزشتہ روزکچھ ایڈیٹرز حضرات سے ملاقات میں اس موقف کا اعادہ کیا کہ وہ اس قضیے میں پڑنا ہی نہیںچاہتے لہٰذا انہوں نے سینیٹ کی چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین شپ کے انتخابات میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا ہے حالانکہ خان صاحب کے ایسے فیصلوں سے ان کی پارٹی کے سینئر ارکان بھی سٹ پٹا کر رہ جاتے ہیںکہ وہ اپنے پتے اتنی جلدی کیوں دکھا دیتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ اگر انہوں نے سینیٹ کی سربراہی کے انتخاب میں حصہ نہیں لینا تھا تو اس ایوان کے انتخابات میں حصہ لینے کی زحمت گوارا کیوں کی؟ایک طرف قومی و صوبائی اسمبلیوں سے استعفوں کا فیصلہ بھی برقرار ہے کیونکہ خان صاحب کا کہنا ہے کہ یہ اسمبلیاں دھاندلی زدہ اور بوگس ہیں،اگر ایسا ہی ہے تو پھر سینیٹ میں آ کر اس بوگس نظام کا حصہ بنناچہ معنی۔خان صاحب کا کہنا ہے کہ وہ مئی 2013 ء کے انتخابات میں دھاندلی کی تحقیقات کے لئے جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کا انتظار کر رہے ہیں،اور انہوں نے اس نشست میں دھاندلی کے حوالے سے میڈیا کے سامنے اپنے پارٹی کے ارکان کی گواہیاں بھی پیش کیں ۔
دوسری طرف اس موقع پر موجود تحریک انصاف کے سیکرٹری جنرل جہانگیر ترین کا کہنا تھا کہ وہ اسحاق ڈارسے مسلسل رابطے میں ہیں۔تحریک انصاف آئین کے آرٹیکل 188 کی شق 3 کے تحت جس کے مطابق الیکشن کمیشن پر لازم ہے کہ وہ انتخابات کی شفافیت یقینی بنائے لہٰذا کمیشن بنا دیا جائے لیکن ابھی تک تو ٹرمز آف ریفرنس پر ہی جھگڑا جاری ہے۔پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے تحقیقات کی بنیاد ہی یہ ہونی چاہیے کہ 2013 ء کے انتخابات میں باقاعدہ ایک سازش کے تحت دھاندلی کی گئی جبکہ حکمران جماعت کا موقف ہے کہ اگر پہلے ہی یہ مان لیا جائے کہ دھاندلی ہوئی ہے تو کمیشن مزید کس بات کی تحقیقات کرے گا۔دوسری طرف ترین صاحب کا یہ موقف ہے کہ ایساکمیشن بنانے کا فائدہ ہی کیا جوفریقین کے لئے ''رسک فری ‘‘ہو۔خان صاحب کا کہنا تھا کہ اگر کمیشن یہ کہہ دے کہ انتخابات میں مذموم دھاندلی نہیں ہوئی تو وہ اسمبلیوں سے استعفے واپس لے لیں گے بصورت دیگر نہ صرف استعفے برقرار رہیں گے بلکہ وہ دوبارہ سڑکوں پر آ جائیں گے۔یہ مظاہرے اس قدر شدید اور موثرہونگے کہ لوگ اسلام آباد کے دھرنے کو بھول جائیں گے۔ خان صاحب کے دست راست عبدالعلیم خان کے دفتر میں پرتکلف ظہرانے کے ساتھ ہونے والی اس نشست میں ان کے بائیں طرف شاہ محمود قریشی متمکن تھے اور دائیں طرف چودھری محمد سرور،میرے ذہن میں یہ سوال آیا کہ اگر 2013 ء کے عام انتخابات میں دھاندلی کی مذموم سازش کی گئی تھی تو سرور صاحب بھی تو اس بات کا کریڈٹ لیتے ہیں کہ جہاں جہاں میاں صاحب نے ٹکٹ تقسیم کرنے کے بارے میں ان کے مشورے پر صاد کیا وہاں وہاں مسلم لیگ (ن) جیت گئی اور جہاں ان کا مشورہ نہیں مانا وہاں ہار گئی،تو یقیناً سرور صاحب کو اس بات کا علم ہونا چاہیے کہ پنکچرکہاں کہاں لگے۔لنچ کے دوران میں نے جب سرور صاحب سے یہ سوال پوچھا تو انہوں نے ٹکا ساجواب دیاکہ پنکچر لگانے کی سازش ان سے خفیہ رکھی گئی تھی۔گویا کہ خان صاحب اور ان کی پارٹی میں ابھرتے ہوئے ستارے چودھری محمد سرورکا المیہ یہی محسوس ہوتا ہے کہ ؎
خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں
صاف چھپتے بھی نہیں، سامنے آتے بھی نہیں

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں